ولید
احمد عطّاری(درجۂ رابعہ جامعۃُ المدینہ کنزالایمان مزنگ لاہور، پاکستان)
پیارے اسلامی بھائیو! بے شک قرآن پاک تو نصیحتوں اور
واقعات سے بھرا پڑا ہے ان واقعات میں سے مشہور و معروف حضرت آدم علیہ السّلام کے
متعلق ذکر کردہ واقعہ بھی ہے اس میں سے کچھ نصیحتیں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
(1) افضلیت کی بنیاد: اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَ
اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى
وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا
کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور
کافر ہوگیا۔(پ1،البقرۃ:34)
اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ حضرت آدم علیہ السّلام
کو سجدہ کرو اگر اس سے اوپر والی آیات دیکھی جائیں جیسے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ
عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى
الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ
صٰدِقِیْنَ(۳۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے
پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔(پ1،
البقرۃ:31)
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السّلام) کو تمام اشیاء کے
نام سکھائے۔جو کہ فرشتوں کو نہیں معلوم تھے۔پھر جب حضرت آدم (علیہ السّلام) نے انہیں
ان اشیاء کے نام بتا دیے حتی کہ تفسیر جلالین میں ہے کہ ان اشیاء کے نام اور حکمتیں
بھی بیان کردیں۔بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو سجده کرنے کا حکم دیا۔تمام
فرشتوں نے حضرت آدم (علیہ السّلام) کو سجدہ کیا۔حضرت آدم (علیہ السّلام) کا فضل و
شرف کس بنیاد پر تھا؟ یقینًا علم ہی کی بنیاد پر تھا۔یاد رکھیں! علم ایک ایسا وصف
ہے جس کی وجہ سے حضرت آدم علیہ السّلام کو عزت و شرف ملا۔اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء
علیہم السلام کو یہ وصف عطا کیا۔
(2) زوال کا اہم سبب: پیارے اسلامی بھائیو! اللہ تبارک و تعالیٰ نے جب فرشتوں کو سجدہ کرنے کا
حکم دیا جیسا کہ قرآن پاک میں ہے: فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِیْهِ
مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ(۲۹) ترجَمۂ کنزُالایمان:تو جب میں اسے ٹھیک کرلوں اوراس میں اپنی طرف کی خاص
معزّز روح پھونک لوں۔(پ14، الحجر:29)
اللہ تعالیٰ کا جیسے ہی حکم ہوا ویسے ہی تمام فرشتے سجدے میں
گر گئے جیسا کہ اس سے اگلے آیت میں ہے: فَسَجَدَ الْمَلٰٓىٕكَةُ كُلُّهُمْ
اَجْمَعُوْنَۙ(۳۰) اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰۤى اَنْ یَّكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِیْنَ(۳۱) ترجمۂ کنزالایمان:
تو اس کے لیے سجدے میں گر پڑنا تو جتنے فرشتے تھے سب کے سب سجدے میں گرے۔سوا ابلیس
کے اس نے سجدہ والوں کا ساتھ نہ مانا۔(پ14، الحجر:30، 31)
سب کے سب سجدے میں گرگئے سوائے ابلیس کےکہ اس نے انکار کر
دیا اللہ تبارک وتعالیٰ نے ابلیس سے انکار کی وجہ پوچھی جیسے کہ قرآن پاک میں ہے:قَالَ یٰۤاِبْلِیْسُ
مَا لَكَ اَلَّا تَكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِیْنَ(۳۲) قَالَ لَمْ اَكُنْ لِّاَسْجُدَ
لِبَشَرٍ خَلَقْتَهٗ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ(۳۳) ترجمۂ کنزالایمان:
فرمایا اے ابلیس تجھے کیا ہوا کہ سجدہ کرنے والوں سے الگ رہا۔بولا مجھے زیبا نہیں
کہ بَشر کو سجدہ کروں جسے تو نے بَجتی مٹی سے بنایا جو سیاہ بودار گارے سے تھی۔(پ14،
الحجر:32، 33)
شیطان نے سجدہ نہ کرنے کی وجہ خود کو افضل بتایا اور آدم
علیہ السّلام حقیر سمجھا اور تکبر کیا۔جو ابلیس کبھی فرشتوں کا سردار تھا اس کے
تکبر نے اسے مردود بنا دیا۔ جیسے کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِیْمٌۚۖ(۷۷) وَّاِنَّ
عَلَیْكَ لَعْنَتِیْۤ اِلٰى یَوْمِ الدِّیْنِ(۷۸) ترجَمۂ
کنزُالایمان: فرمایا تو جنت سے نکل جا کہ تو راندہا(لعنت کیا) گیا۔ اور بےشک تجھ
پر میری لعنت ہے قیامت تک۔ (پ23، صٓ:77، 78)
صرف تکبر کی وجہ سے ابلیس کے عروج سے زوال تک کاسفر آپ نے
سماعت کیا۔یہ تو وہ تکبر کی مثال تھی جس کو دنیا کبھی نہ بھلا پائی اگر قرآن پاک
کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس میں کئی تکبر کی وعیدیں اور متکبر (تکبر کرنے
والوں) کے انجام کے متعلق آیات ملیں گیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں تکبر اور اس جیسی دیگر بیماریوں
سے شفاء عطا فرمائے۔
(3)حقیقی دشمن: پیارے اسلامی بھائیو! آپ نے سنا کہ کس وجہ سے حضرت آدم علیہ السّلام کو عزت
شرف ملا اور کس طرح ابلیس جو کہ فرشتوں کا سردار تھا اس کو مردود کر دیا گیا۔یہ سب
ہونے کے بعد ابلیس نے رب تعالیٰ سے کہا کہ میں قیامت تک تیرے بندوں کو گمراہ کرتا
رہوں گا جیسے کہ قرآن پاک میں ہے:قَالَ رَبِّ
بِمَاۤ اَغْوَیْتَنِیْ لَاُزَیِّنَنَّ لَهُمْ فِی الْاَرْضِ وَ لَاُغْوِیَنَّهُمْ
اَجْمَعِیْنَۙ(۳۹)ترجَمۂ کنزُالایمان:بولا اے رب میرے قسم اس کی کہ تو نے
مجھے گمراہ کیا میں انہیں زمین میں بِھلاوے دوں گا اور ضرور میں ان سب کو بے راہ
کردوں گا۔(پ14، الحجر:39)
کیونکہ شیطان کو حضرت آدم علیہ السّلام کی تعظیم نہ کرنے کی
وجہ سے مردود کیا گیا تھا اسی وجہ سے شیطان انسانوں کا دشمن ہو گیا اور اس نے قسم
کھائی کہ میں قیامت تک آنے والے مسلمانوں کو گمراہ کرتا رہوں گا۔اس کے بعد جب حضرت
آدم علیہ السلام کو حضرت حواء رضی اللہ عنہا کو جنت میں بھیجا گیا تو شیطان نے سب
سے پہلے رب تعالیٰ کی جھوٹی قسم کھا کر حضرت آدم علیہ السّلام کو گمراہ کرنے کی
کوشش کی۔کیونکہ اس سے پہلے کبھی کسی نے اللہ تعالیٰ کے جھوٹی قسم نہیں کھائی جس کی
وجہ سے حضرت آدم علیہ السّلام سے لغزش ہوئی، جیسا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:فَوَسْوَسَ
اِلَیْهِ الشَّیْطٰنُ قَالَ یٰۤاٰدَمُ هَلْ اَدُلُّكَ عَلٰى شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَ
مُلْكٍ لَّا یَبْلٰى(۱۲۰)ترجَمۂ کنزُالایمان:تو شیطان نے اسے وسوسہ دیا بولااے آدم
کیا میں تمہیں بتادوں ہمیشہ جینے کا پیڑ اور وہ بادشاہی کہ پرانی نہ پڑے۔ (پ16،
طہ:120)
حضرت آدم علیہ السّلام نے اس کی بات مان لی جیسے کہ اگلی آیت
میں ہے: وَ عَصٰۤى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى۪ۖ(۱۲۱) ترجمۂ کنز الایمان:
اور آدم سے اپنے رب کے حکم میں لغزش واقع ہوئی تو جو مطلب چاہا تھا اس کی راہ نہ
پائی۔ (پ16، طہ:121)
حضرت آدم علیہ السّلام سے لغزش ابلیس کے حسد کرنے کی وجہ
سے ہوئی ابلیس یعنی شیطان اسی وجہ سے تمام مسلمانوں کا دشمن ہوا۔لہٰذا ہمیں ہمیشہ
ہوشیار رہنا چاہئے۔
سونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے سونے والو جاگتے رہیو چوروں کی رکھوالی
ہے
(4) عاجزی کی اہمیت: پیارے اسلامی بھائیو! جب آدم علیہ السّلام سے لغزش واقع ہوئی تو الله تعالیٰ
نے انہیں جنت سے نکال کر زمین میں بھیج دیا۔ کچھ عرصے بعد حضرت آدم علیہ السّلام
نے دعا مانگی جس کا تذکرہ قرآن پاک میں اس طرح ہے:فَتَلَقّٰۤى
اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ علیہؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ
الرَّحِیْمُ(۳۷) ترجمۂ کنز الایمان:پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی
توبہ قبول کی بے شک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔ (پ1، البقرۃ:37)
حضرت آدم علیہ السّلام نے اپنی دعا میں یہ کلمات عرض کیے: رَبَّنَا
ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ
مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (۲۳) ترجمۂ کنز الایمان:اے
رب ہمارے ہم نے اپنا آپ برا کیاتو اگر تُو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو
ہم ضرور نقصان والوں میں ہوئے ۔(پ 8، الاعراف: 23)جب حضرت آدم علیہ السّلام نے
عاجزی کے ساتھ اپنے رب کے حضور یہ دعائیہ کلمات عرض کیے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت
آدم علیہ السّلام کی عاجزی کے سبب توبہ قبول فرمالی۔اور اللہ تعالیٰ کو یہ عاجزی
بہت ہی پسند آئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام کی اولاد میں ایک لاکھ
چوبیس ہزار پیغمبر پیدا ہوئے ۔
(5) گستاخی کی مذمّت:پیارے اسلامی بھائیو! حضرت آدم علیہ السّلام سے لغزش ہوئی تو حضرت آدم علیہ
السّلام نے رب تعالیٰ کے سامنے عاجزی کر کے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ
السّلام کی توبہ کو قبول فرما لیا جبکہ اس کے برعکس ابلیس کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی
بنائی ہوئی مخلوق اور ایک پیغمبر علیہ السّلام کے حضور گستاخی کی اور اللہ تعالیٰ
کا حکم ماننے سے انکار کر دیا تو وہ مردود ہوا پھر بھی اس نے توبہ نہ کی بلکہ ہٹ
دھرمی کے ساتھ قائم رہا۔اب قیامت تک اس پر لعنت ہو گی۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے خاص بندوں کی بے ادبی سے بچائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم