اللہ پاک نے بنی آدم کو راہِ راست پر لانے اور بہت سی چیزوں کے بارے میں آگاہی دینے کے لیے کتاب(یعنی قرآن مجید) نازل فرمائی۔قرآن مجید ایک تفصیلی کتاب ہے اس میں ہر چیز کا بیان ہے۔کہیں خوشخبری تو کہیں ڈر، کہیں سزا تو کہیں جزا، کہیں عبرت تو کہیں نصیحت۔حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:قرآن پانچ طریقوں پر نازل ہوا(ان میں سے ایک) امثال (یعنی پچھلی قوموں کے حال بھی ہیں) (تو تم ان کو پڑھ کر)ان سے عبرت حاصل کرو۔(عجائب القرآن، ص237) ان امثال (واقعات) میں سے ایک اہم و ضروری واقعہ آدم علیہ السّلام بھی ہے۔ ویسے تو قرآن پاک کا ہر ہر واقعے میں لوگوں کے لیے بے شمار نصیحتیں ہیں مگر اس واقعے میں لوگوں کے لیے کئی طرح کی نصیحتیں ہیں۔جن میں سے چند یہ ہیں:

اللہ پاک نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ(۳۲) ترجمۂ کنز الایمان:بولے پاکی ہے تجھے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا بے شک تو ہی علم و حکمت والا ہے۔(پ1، البقرۃ: 32) اس آیت مبارکہ سے ہمیں دو نصیحتیں حاصل ہوئیں:

(1)جب کسی بندے سے کوئی سوال کرا جائے اور اس بندے کو جواب کا علم نہ ہو تو انکار کردے نہ کہ یہ عزت نفس کی وجہ اپنی طرف سے جواب دے۔جیساکہ فرشتوں کو اشیاء کا نام معلوم نہیں تھے تو انہوں نے اپنے عجز کا اعتراف کرلیا۔ ان کی عزت و مرتبہ میں کمی نہیں آئی۔

(2)اس سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ استاد کا احسان مانا جائے جیساکہ فرشتوں نے اپنے علم کی نفی کرکے فرمایا کہ جو تو نے ہمیں سیکھایا۔یونہی انہوں نے اعتراف کیا جو کچھ ہے اللہ نے سیکھایا۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہمیں جو بھی علم حاصل ہو اس میں استاد کا احسان مانے کہ ان کی وجہ سے حاصل ہوا نہ کہ اپنا خود کا کارنامہ سمجھیں۔

(3)اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: فَاخْرُجْ اِنَّكَ مِنَ الصّٰغِرِیْنَ(۱۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: نکل تو ہے ذلت والوں میں۔ (پ8، الاعراف:13) اور ایک مقام پر فرمایا: وَّ اِنَّ عَلَیْكَ لَعْنَتِیْۤ اِلٰى یَوْمِ الدِّیْنِ(۷۸) ترجَمۂ کنزُالایمان:اور بےشک تجھ پر میری لعنت ہے قیامت تک۔(پ23،صٓ:78)

اس معلوم ہوا کہ جو اللہ کی بات نہ مانے یا معاذ اللہ اس سے مقابلہ کرے تو وہ اللہ کی بارگاہ سے ذلیل و رسوا کر کے نکال دیا جاتا ہے۔اور جب اللہ کسی کو لعنت دے تو اس کا کیا بنے گا(الامان و الحفیظ)اور اللہ جس کو چھوڑ دے تو کس میں ہمت جو اس کو سہارا دے؟

(4)اللہ پاک نے فرمایا: وَ اَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ(۳۳) ترجمۂ کنز الایمان: اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو۔(پ1، البقرۃ: 33)

اگر ہم یہ آیت ہر وقت اپنے ذہن میں رکھیں تو کافی گناہوں سے ہم باز رہیں۔اللہ سب جانتا ہے اگرچہ تنہائی میں ہوں یا ظاہر میں۔یہ بہت ہی بہترین نصیحت ہے کہ اللہ سب جانتا ہے اگرچہ اس آیت میں فرشتوں کو کہا گیا مگر یہ سب کے لیے ہے کیونکہ اللہ کے علم و قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں۔

(5)اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا۔(پ1،البقرۃ:34)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے عزت عطا فرماتا ہے جیسے حضرت آدم کو علم کے ذریعے پھر فرشتوں سے سجدہ کروایا اس سے علم و انسان کی فضیلت معلوم ہوئی کہ علم کوئی معمولی چیز نہیں۔

شعر:

رہتا ہے علم سے زندہ نام ہمیشہ داغ اولاد سے تو بس یہی دو پشت چار پشت

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان نصیحتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم