قرآن مجید فرقان حمید کا ایک مبارک اسلوب یہ بھی ہے کہ لوگوں کو نصیحت کرنے کے لیے سمجھانے کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے محبوب آقا کریم خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو مخاطب کرتے ہوئے انبیاء کرام علیہم السلام کے مبارک احوال اور ان کی قوموں کے معاملات کو بیان فرمایا۔کہیں فرمایا: یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُبَیِّنَ لَكُمْ ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ چاہتا ہے کہ اپنے احکام تمہارے لیے صاف بیان کردے۔(پ5، النسآء: 26) تو کہیں فرمایا: تِلْكَ الْقُرٰى نَقُصُّ عَلَیْكَ مِنْ اَنْۢبَآىٕهَاۚ- ترجَمۂ کنزُالایمان: یہ بستیاں ہیں جن کے احوال ہم تمہیں سناتے ہیں۔(پ9، الاعراف: 101) اور دیگر مقامات پر بھی پہلی قوموں کے احوال بیان کر کے امتِ محمدیہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو سمجھایا کہ اے محبوب ان سے فرما دیجیے کہ پہلی قوموں نے یوں کیا، تم اس طرح نہ کرنا ان سے عبرت حاصل کرو۔انہی میں سے ایک واقعہ ابو البشر حضرت آدم علیہ الصّلوٰۃُ والسّلام کا بھی ہے۔آپ کی مبارک تخلیق سے لے کر دنیا میں تشریف فرما ہونے تک اور بہت کچھ قرآنی آیات میں بیان ہے۔جس کے ذریعے امتِ محمدیہ کو درس و نصیحت کی گئی ہے۔

آئیے قرآن مجید کی روشنی میں واقعہ حضرت آدم علیہ السّلام سے پانچ قرآنی نصیحتیں ملاحظہ کرتے ہیں:

(1)مشورہ کرنے کی ترغیب: وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایامیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔(پ1، البقرۃ:30)

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ رب تعالیٰ نے تخلیق آدم علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام سے پہلے فرشتوں سے مشورے کے انداز میں کلام فرمایا۔اس سے ہمیں بھی یہ نصیحت حاصل ہوتی ہے کہ کوئی بھی اہم کام شروع کرنے سے پہلے اہل حق سے، تجربہ شدہ لوگوں سے مشورہ کر لینا چاہیے۔اس سے بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں اچھی رائے، لوگوں کے خیالات سے آگاہی، کام کی بہتری اور بہت کچھ۔

(2)علم حاصل کرنے کی ترغیب: وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے۔(پ1، البقرۃ: 31)

تخلیق آدم علیہ السّلام کے بعد فرشتوں پر حضرت آدم علیہ الصّلوٰۃُ والسّلام کی عظمت و فضیلت ظاہر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم عطا فرمایا۔اس سے معلوم ہوا علم ہی کے ذریعے انسان کی عظمت و فضیلت ہے۔علم ہی کے ذریعے انسان نے فرشتوں سے برتری اور بلند مقام حاصل کیا۔اندھیروں سے روشنی کی طرف لانے والا علم ہے۔کسی کام کو شروع کرنے سے پہلے علم کا ہونا ضروری ہے وگرنہ ہلاکت ہے۔ہمیں بھی چاہیے کہ علم دین حاصل کریں اور خود سے جہالت کے اندھیرے دور کریں۔

(3) نامعلوم بات پر لا علمی کا اظہار کرنے کی ترغیب:قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاؕ- ترجمۂ کنز الایمان:بولے پاکی ہے تجھے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا۔(پ1، البقرۃ: 32)

اس سے معلوم ہوا کہ فرشتوں نے اپنی لا علمی کا اعتراف کیا کہ مالک ہمیں تو اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے عطا کیا بے شک تیری ذات ہی علم و حکمت والی ہے۔اس سے ہر ایک کو نصیحت حاصل ہوتی ہے کہ جس بات کا علم نہ ہو تو لا علمی کا اظہار کر دینا چاہیے نہ کہ اسرار کرنا بے جا اور کہہ دینا خاص کر دین کے معاملے میں یہ تو ہے ہی نہیں۔لوگوں کی ملامت، یا عزت میں کمی کی وجہ سے ان جیسے شیطانی وسوسوں کی پیری میں کوئی جھوٹ اور من گھڑت بات نہ کہی جائے۔

(4)حکمِ الٰہی بجا لانے کی ترغیب: وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى(۱۱۶)ترجمۂ کنزالایمان: اور جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب سجدے میں گرے مگر ابلیس اس نے نہ مانا۔(پ16، طہ:116)

اللہ اکبر اس سے معلوم ہوا کہ رب تعالیٰ کے مبارک فرامین پر اپنی عقل کو آڑے نہیں آنے دینا چاہیے۔حکمِ الٰہی پر فوراً لبیک کہہ دینا چاہیے، میں اقرار کرتا ہوں، گواہی دیتا ہوں۔دورے حاضر میں نت نئے فتنے ہیں معاذاللہ رب تعالیٰ اور حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کئے جاتے ہیں ایسی صحبتِ بد سے بچنا چاہیے۔ سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارم پر علماء اہلسنت سے رجوع کرنا چاہیے۔اور احکامات الٰہی کو من و عن بغیر عقل سے قیاس کئے چوں و چرا کے بغیر تسلیم کرنا ضروری ہے تاکہ ایمان جیسی عظیم دولت قائم رہے۔

(5)توہین اور بے ادبی سے بچنے کی ترغیب:قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُۚ-خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ(۱۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: بولا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اُسے مٹی سے بنایا۔(پ8، الاعراف:12)

رب تعالیٰ نے فرمایا: قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِیْمٌۚۖ(۷۷) وَّاِنَّ عَلَیْكَ لَعْنَتِیْۤ اِلٰى یَوْمِ الدِّیْنِ(۷۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: فرمایا تو جنت سے نکل جا کہ تو راندہا(لعنت کیا) گیا۔ اور بےشک تجھ پر میری لعنت ہے قیامت تک۔ (پ23، صٓ:77، 78)

ابلیس لعین نے تکبر کرتے ہوئے خود کو افضل جانا اور نبی پاک عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کی توہین کا مرتکب ہوا۔جس سے وہ مردود ہوا اور لعین ٹھہرا۔اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرام، اور اہل حق کی توہین، گستاخی بے ادبی اتنا بڑا جرم ہے کہ اس سے بندہ مردود ہو جاتا ہے اور لعنت کا مستحق ٹھہرتا ہے۔تکبر ہی کی بنا پر اس نے گستاخی کی۔معلوم ہوا تکبر اور دیگر باطنی و ظاہری گناہوں سے بچنا چاہیے تاکہ اللہ پاک کی ناراضگی کا ہم سبب نہ بنیں۔

دور حاضر میں بھی گستاخیوں کا بازار سر گرم ہے معاذ اللہ لوگ نفسانی خواہشات کے تابع ہوتے ہوئے پہلوں کی توہین کرتے نظر آتے ہیں انبیاء کرام، اولیائے عظام اور علماء کرام کی توہین کرتے نظر آتے ہیں۔ان کو ابلیس لعین کے اس واقعے سے عبرت حاصل کرنی چاہیے کہ کسی کی باتوں میں آ کر، چند منٹ کی گفتگو اور لٹریچر پڑھ کر توہین کے مرتکب ہونے سے، بے ادبی کرنے سے ایمان ختم ہو جاتا ہے۔ہمیشہ کے لیے مردود ہو جاتا ہے، لعنت کا مستحق ٹھہرتا ہے اور جہنم کا دائمی عذاب الگ ہے۔الامان الحفیظ

ہمیں تو سب انبیاء صحابہ و اہلبیت و اولیاء اہل حق سے پیار ہے

اِن شآءَ اللہ اپنا بیڑا پار ہے

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان نصیحتوں سے عبرت حاصل کرنے اور خوب دین کا علم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔