اللہ تعالیٰ نے زمین پر اپنی خلافت کے لیے اپنے دست قدرت سے حضرت آدم علیہ السّلام کو بنایا، پھر ان میں اپنی طرف سے ایک خاص روح ڈالی اور جنت میں رہائش عطا کی، ایک عرصہ تک یہ جنت میں رہے، پھر ان کی تخلیق کے اصل مقصد کی تکمیل کے لیے درخت کا پھل کھانے کے بعد انہیں جنت سے زمین پر اتار دیا گیا۔حضرت آدم علیہ السّلام پہلے انسان بھی تھے اور زمین پر پہلے نبی بھی۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نائب کے لیے چار الفاظ ذکر فرمائے ہیں:(1) خلیفہ (2) آدم (3) بشر (4) انسان۔

ان کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نائب ہونے کے اعتبار سے آپ عَلَيہِ السَّلام کو خلیفہ، گندمی رنگ کی وجہ سے آدم، جسم کی ظاہری وضع قطع اور کھال کی ساخت کے اعتبار سے بشر اور حقیقت وماہیت کے اعتبار سے انسان فرمایا گیا ہے۔

وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔(پ1، البقرۃ:31)

واقعہ آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انبیاء کرام عَلَیہِمُ الصّلوٰۃُ والسّلام فرشتوں سے افضل ہیں۔ (تفسیر صراط الجنان)

حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیفہ بنایا اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ فرشتوں سے افضل ہیں کیونکہ ہر شخص یہ بات اچھی طرح جانتا ہے بادشاہ کے نزدیک لوگوں میں سب سے بڑے مرتبے والا وہ شخص ہوتا ہے جو ولایت اور تصرف میں بادشاہ کا قائم مقام ہو۔اس واقعے سے معلوم ہوا علم انسان کو فرشتوں سے افضل بنا دیتا ہے۔

انبیاء عَلَیہم الصّلوٰۃُ والسّلام کے واقعات میں ہمارے لیے بہت سے درس اور نصیحتیں ہیں لہٰذا ان واقعات کو درس حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں یہاں چند نصیحتیں بیان کی جاتی ہیں :

(1) علم سے آدم کو فضیلت: حضرت آدم علیہ السّلام کو جو فرشتوں پر فضیلت عطا ہوئی اس کا ظاہری سبب ان کا علم تھا، اس سے معلوم ہوا کہ علم خلوتوں اور تنہائیوں کی عبادتوں سے افضل ہے۔

اشیاء کے نام معلوم نہ ہونے پر فرشتوں نے اپنی لاعلمی کا اعتراف کر لیا۔اس میں ہر صاحب علم بلکہ ہر مسلمان کے لیے یہ نصیحت ہے کہ جو بات معلوم نہ ہو اس کے بارے میں لاعلمی کا صاف اظہار کر دیا جائے، لوگوں کی ملامت سے ڈر کر یا عزت و شان کم ہونے کے خوف سے کبھی کوئی بات گھڑ کر بیان نہ کریں۔ (سیرت الانبیاء، ص؛80)

(2) حکمِ الٰہی کے مقابل قیاس کا استعمال: فرشتوں نے کسی پس و پیش کے بغیر حکمِ الٰہی پر فوری عمل کرتے ہوئے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا جبکہ شیطان نے حکمِ الٰہی کو اپنی عقل کے ترازو میں تولا، اسے عقل کے خلاف جانا اور اس پر عمل نہ کر کے بربادی کا شکار ہو ا۔اس سے معلوم ہوا کہ حکمِ الٰہی کو من و عن اور چوں چرا کے بغیر تسلیم کرناضروری ہے۔حکمِ الٰہی کے مقابلے میں اپنی عقل استعمال کرنا، اپنی فہم و فراست کے پیمانے میں تول کر اس کے درست ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنا اور مخالف عقل جان کر عمل سے منہ پھیر لینا کفر کی دلدل میں دھکیل سکتا ہے۔ (سیرت الانبیاء،ص95)

(3) انبیاء کی گستاخی کا حکم: اللہ تعالیٰ کے انبیاء علیہم السلام کی گستاخی ایسا بڑا جرم ہے جس کی سزا میں زندگی بھر کی عبادت و ریاضت برباد ہو جاتی ہے۔ابلیس جیسے انتہائی عبادت گزار کا انجام اس کی عبرت انگیز مثال ہے۔ (سیرت الانبیاء،ص95)

(4) برائی کے اسباب کی روک تھام: حضرت آدم علیہ السّلام کو اصل ممانعت درخت کا پھل کھانے کی تھی لیکن اس کے لئے فرمایا: اس درخت کے قریب نہ جانا اس طرز خطاب سے علماء نے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ اصل فعل کے ارتکاب سے بچانے کے لیے اس کے قریب جانے یا قریب لیجانے والی چیزوں سے بھی روکا جاتا ہے۔علمی اصطلاح میں اسے سد ذرائع (یعنی برائی کے اسباب) کی روک تھام کہتے ہیں۔

(5) ستر عورت انسانی فطرت میں داخل ہے: حضرت آدم علیہ السّلام اور حضرت حوا رضی اللہ عنہا نے لباس جدا ہوتے ہی پتوں سے اپنا بدن ڈہانپنا شروع کر دیا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پوشیدہ اعضاء کا چھپانا انسانی فطرت میں داخل ہے۔لہٰذا جو لوگ ننگے ہونے کو فطرت کہتے ہیں ان کی فطرتیں مسخ ہو چکی ہیں۔

(6) حسد کی مذمت: حسد شیطانی کام ہے اور یہی وہ پہلا گناہ ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی گئی۔حسد کی تعریف یہ ہے کہ کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے زوال (یعنی چھن جانے) کی تمنا کرنا یا یہ خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ یہ نعمت نہ ملے۔حسد اتنی خطرناک باطنی بیماری ہے کہ اس سے ایمان جیسی عظیم دولت چھن جانے کے خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس مذموم باطنی بیماری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم