عبدالحنان
(درجۂ خامسہ جامعۃالمدینہ گلزار حبیب سبزہ زار لاہور، پاکستان)
اللہ پاک نے اپنے آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر اپنی آخری کتاب قرآنِ مجید کو نازل کیا۔ قرآنِ مجید پورا کا
پورا کتابِ ہدایت ہے اور اس کا ایک ایک لفظ ہدایت کے لیے نازل ہوا۔
نیز اللہ پاک نے قرآن میں بہت سے واقعات کا ذکر کیا جس میں
ہر انسان کے لیے نصیحت و ہدایت ہے۔انہی واقعات میں سے ایک واقعہ حضرت آدم علیہ
السّلام کا بھی ہے جس کا ذکر اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر کیا۔
قارئین کرام! واقعہ آدم علیہ السّلام سے بہت سی نصیحت وہدایت
ہمیں حاصل ہوتی ہیں، آئیے! ان نصیحتوں میں سے پانچ کا ذکر کرتے ہیں:
(1) اللہ پاک جو چاہے کرتا ہے:اس کی شان ہے: فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُؕ(۱۶) ترجمۂ کنز الایمان:ہمیشہ
جو چاہے کرلینے والا۔(پ30، البروج:16) کوئی بھی اس کے کام میں دخل اندازی نہیں کر
سکتا ہے اور نہ ہی کسی کی مجال ہے وہ اللہ پاک کے کام میں دخل اندازی کرے۔
مگر اس کے باوجود اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کی
تخلیق و خلافت کے بارے میں ملائکہ سے مشورہ کیا۔ وہ رب جو اپنے کام میں مختار ہے،
سب سے زیادہ علم و قدرت والا ہے، جب وہ ملائکہ سے مشورہ کر سکتا ہے تو بندہ جس کا
علم و قدرت و اختیار انتہائی کم ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ اپنے کام میں بدرجہ اولیٰ
مشورہ کیا کریں۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ مشورہ کرنے سے پاک ہے کہ اس کو کسی سے
مشورہ کی حاجت ہو، البتہ یہاں خلیفہ بنانے کی خبر فرشتوں کوظاہری طور پر مشورے کے
انداز میں دی گئی۔اس سے اشارۃً معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اہم کام کرنے سے پہلے اپنے
ما تحت افراد سے مشورہ کر لیا جائے تاکہ اس کام سے متعلق ان کے ذہن میں کوئی خلش
ہو تو اس کا ازالہ ہو جائے یا کوئی ایسی مفید رائے مل جائے جس سے وہ کام مزید بہتر
انداز سے ہو جائے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کو بھی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کرنے کا حکم دیا،جیسا کہ سورۂ آل عمرٰن
میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ
شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِۚ- ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور کاموں میں ان سے مشورہ لو۔(آل عمرٰن: 159)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے استخارہ کیا وہ نامراد نہیں
ہوگااور جس نے مشورہ کیا وہ نآدم نہیں ہوگا اور جس نے میانہ روی کی وہ کنگال نہیں
ہوگا۔(معجم الاوسط، من اسمہ محمد، 5/77، الحدیث: 6627-صراط الجنان ج 1، ص 105/106)
(2) علم کے فضائل:قارئین کرام! اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے فرشتوں
پرافضل ہونے کا سبب علم ظاہر فرمایا: اس سے معلوم ہوا کہ علم خلوتوں اور تنہائیوں
کی عبادت سے افضل ہے۔
علم کی فضیلت پر بے شمار احادیث طیبہ وارد ہیں، چنانچہ حضرت
ابو ذررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھ
سے ارشاد فرمایا: اے ابو ذر! تمہارا اس حال میں صبح کرنا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی
کتاب سے ایک آیت سیکھی ہو،یہ تمہارے لئے 100 رکعتیں نفل پڑھنے سے بہتر ہے
اورتمہارا اس حال میں صبح کرنا کہ تم نے علم کا ایک باب سیکھا ہوجس پر عمل کیا گیا
ہو یا نہ کیا گیاہو،تو یہ تمہارے لئے 1000نوافل پڑھنے سے بہتر ہے۔(ابن ماجہ،کتاب
السنّۃ، باب فی فضل من تعلّم القرآن وعلّمہ، 1/142، الحدیث: 219)
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی اکرم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے زیادہ
ہے اور تمہارے دین کی بھلائی تقویٰ (اختیار کرنے میں) ہے۔(معجم الاوسط، من اسمہ علی،
3/92، الحدیث:3960-صراط الجنان ج 1، ص 108/109)
(3) انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام
فرشتوں سےافضل ہیں:واقعہ آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ
والسّلام سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انبیاء کرام عَلَیہِمُ الصّلوٰۃُ والسّلام فرشتوں
سے افضل ہیں اس پر کئی دلائل قرآن و حدیث میں موجود ہیں۔ان میں سے 3 دلائل درج ذیل
ہیں:
اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَؕ-ترجمۂ کنزالایمان: تم فرماؤ کیا برابر ہیں جاننے والے اور
انجان۔(پ23، الزمر:9)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ زیادہ علم رکھنے والا کم علم رکھنے
والے سے افضل ہوتا ہے اور حضرت آدم علیہ السّلام فرشتوں سے زیادہ علم رکھنے والے ہیں
تو فرشتوں سے افضل ہوئے ۔
ایک اور مقام پر اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ مَاۤ
اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) ترجمۂ کنزالایمان:
اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔(پ17، الانبیآء: 107)
اس آیت میں اللہ پاک اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم سے ارشاد فرما رہا ہے کہ اے حبیب! میں نے آپ کو سارے جہاں کےلئے
رحمت بنا کر بھیجا اور جہاں میں فرشتے بھی شامل ہیں تو رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم ان کے لئے بھی رحمت ہوئے اور جب رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم فرشتوں کے لئے بھی رحمت ہیں تو ان سے افضل بھی ہوئے ۔
حدیث پاک میں ہے:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے،نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میرے دو وزیر آسمانوں
میں ہیں اور دو وزیر زمین میں ہیں۔آسمانوں میں میرے دو وزیر حضرت جبرئیل اور حضرت
میکائیل عَلَیْہِمَا السَّلَام ہیں اور زمین میں میرے دو وزیر حضرت ابو بکر صدیق
اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما ہیں۔ (مستدرک، کتاب التفسیر، من سورۃ البقرۃ،
2/653-654، الحدیث: 3100-3101)
اس حدیث ِپاک سے معلوم ہوا کہ حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم بادشاہ کی طرح ہیں اور حضرت جبرئیل اور حضرت میکائیل عَلَیْہِمَا
السَّلَام دونوں ان کے وزیروں کی طرح ہیں اور چونکہ بادشاہ وزیر سے افضل ہوتا ہے
اس لئے ثابت ہوا کہ حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرشتوں سے افضل ہیں۔(تفسیر
کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: 34، 1/445-صراط الجنان ج 1، ص109)
(4) سجدہ تعظیمی حرام ہے:سجدہ دو طرح کا ہوتا ہے (1) سجدہ عبادت (2) سجدہ تعظیمی سجدہ
عبادت سے مراد کسی کو عبادت کے لائق سمجھتے ہوئے اسے سجدہ کرنا اور سجدہ تعظیمی سے
مراد کسی کی تعظیم (عزت) کرتے ہوئے سجدہ کرنا۔یہ تو قطعی عقیدہ ہے کہ سجدہ عبادت
اللہ کے علاوہ کسی اور کو عبادت کے لائق سمجھتے ہوئے کرنا کفر ہے سجدہ عبادت صرف
اللہ کی ذات کے ساتھ خاص ہے۔اور فرشتوں کا حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ تعظیمی
کرنا یہ صرف سر کو جھکانے تک نہ تھا بلکہ باقاعدہ پیشانی کو زمین میں رکھنے کی
صورت میں تھا۔سجدہ تعظیمی پہلی شریعت میں جائز تھا مگر اس شریعت میں منسوخ ہو گیا
ہےاب کسی کو بھی ہم سجدہ تعظیمی نہیں کر سکتے۔
(5)تکبر کی مذمت:اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ تکبرایسا خطرناک عمل ہے کہ یہ بعض اوقات بندے
کوکفر تک پہنچا دیتا ہے،اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ و ہ تکبر کرنے سے بچے۔حضرت عبداللہ
بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: تکبر حق کی مخالفت کرنے اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔(مسلم،
کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ، ص61، الحدیث: 147)
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور اقدس
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: آدمی دوسرے لوگوں کے مقابلے میں
اپنی ذات کو بلند سمجھتا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے تکبر کرنے والوں میں لکھ دیاجاتا
ہے، پھر اسے وہی عذاب پہنچے گا جو تکبر کرنے والوں کو پہنچا۔(ترمذی، کتاب البر
والصلۃ، باب ما جاء فی الکبر، 3/403، الحدیث: 2007-صراط الجنان ج 1، ص113)
اللہ پاک ہمیں قرآنِ مجید کو صحیح معنوں میں سمجھنے اور اس
پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین