حضرت آدم علیہ السّلام کا واقعہ قرآن مجید کے ان عجائبات میں سے ہے جس کے دامن میں بڑی بڑی عبرتوں اور نصیحتوں کے گوہر آبدار کے انبار پوشیدہ ہیں۔قرآن مجید کے اس واقعہ میں عبرتوں اور نصیحتوں کی بڑی بڑی درخشندہ اور تابنده تجلیاں ہیں۔اسی لئے اس واقعہ کو خداوند قدوس نے مختلف الفاظ میں اور متعدد طرز بیان کے ساتھ قرآن مجید میں بیان فرمایا۔ان میں سےچند نصیحتیں یہ ہیں:

(1) انسان کی کمزوری:فَاَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَ طَفِقَا یَخْصِفٰنِ علیہمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ٘-وَ عَصٰۤى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى۪ۖ(۱۲۱) ترجمۂ کنز الایمان: تو ان دونوں نے اس میں سے کھا لیا اب ان پر ان کی شرم کی چیزیں ظاہر ہوئیں اور جنت کے پتے اپنے اوپر چپکانے لگے اور آدم سے اپنے رب کے حکم میں لغزش واقع ہوئی تو جو مطلب چاہا تھا اس کی راہ نہ پائی۔ (پ16، طہ:121)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ انسان کی سب سے بڑی کمزوری کھانے پینے میں ہے اور ابلیس وشیاطین کا سب سے بڑا اور سب سے پہلا وسوسہ کھانے کے ذریعے ہی چلا۔یہ فائدہ فَاَكَلَا مِنْهَا فرمانے سے حاصل ہوا۔لہٰذا ہر مسلمان کو کھانے پینے میں بڑی احتیاط چا ہیے۔(تفسیر نعیمی، جلد 16، صفحہ 713)

(2) آگ مٹی سے افضل نہیں: وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-قَالَ ءَاَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًاۚ(۶۱)ترجمۂ کنز الایمان: اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ان سب نے سجدہ کیا سوا ابلیس کے بولا کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے بنایا۔(پ15، بنیٓ اسراءیل:61)

اس آیت سے یہ فائدہ حاصل ہوا کہ آگ کسی حیثیت میں بھی مٹی سے افضل نہیں ہے، نہ اللہ پاک کی طرف سے ایسا کوئی حکم یا بیان نازل ہوا ہے، یہ ابلیس کی اپنی متکبرانہ سوچ تھی کہ اس نے آگ کو مٹی سے افضل سمجھا یہ فائدہ خَلَقْتَ طِیْنًا سے حاصل ہوا۔(تفسیر نعیمی، جلد 15، صفحہ 240)

(3) حسد کا انجام:فَقُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اِنَّ هٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَ لِزَوْجِكَ فَلَا یُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقٰى(۱۱۷) ترجمۂ کنز الایمان:تو ہم نے فرمایا اے آدم بےشک یہ تیرا اور تیری بی بی کا دشمن ہےتو ایسا نہ ہو کہ وہ تم دونوں کو جنت سے نکال دے پھر تو مشقت میں پڑے۔(پ16، طہ:117)

اس آیت میں شیطان کا حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ نہ کرنا آپ علیہ السّلام کے ساتھ دشمنی کی دلیل قرار دیا گیا۔ یہاں اس دشمنی کی وجہ وضاحت سے بیان کی جاتی ہے۔جب ابلیس نے حضرت آدم علیہ السّلام پر اللہ تعالیٰ کا انعام واکرام دیکھا۔ تو وہ ان سے حسد کرنے لگا اور یہ حسد اس کی دشمنی کا ایک سبب تھا۔اس سے معلوم ہوا کہ جسے کسی سے حسد ہو تو وہ اس کا دشمن بن جاتا ہے اور وہ اس کی ہلاکت چاہتا ہے اور اس کا حال خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔(تفسیر صراط الجنان، پ16، طہ: 117)

(4) علم کا حصول کتابوں کے بغیر:وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔(پ1، البقرۃ:31)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام کو تمام اشیاء کے ناموں اور ان کی حکمتوں کا علم بذریعہ الہام ایک لمحہ میں عطافرما دیا۔اس سے معلوم ہوا کہ علم کا حصول کتابوں کے سبقاً سبقاً پڑھنے ہی پر موقوف نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ جس بندے پر اپنا فضل فرمادے اس کو بغیر سبق پڑھنے اور بغیر کسی کتاب کے بذریعہ الہام چند لمحوں میں علم حاصل کرا دیتا ہے۔(عجائب القرآن مع غرائب القرآن، صفحہ 253)

(5)وسیلہ بنانا: فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ علیہؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۳۷) ترجمۂ کنز الایمان:پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بے شک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔(پ1، البقرۃ: 37)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ مقبولان بارگاہ کے وسیلہ سے دعا بحق فلاں اور بجاہ فلاں کہہ کر مانگنا جائز ہے اور حضرت آدم علیہ السّلام کی سنت ہے۔(تفسیر خزائن العرفان صفحہ 16)