قرآن پاک ہر شے کا روشن بیان ہے اور ہر خشک و تر کا اس میں ذکر ہے،یہ کتاب جہاں بے شمار چیزوں کو اپنے ضمن میں لیے ہوئے ہے، انہی میں سے قصص و واقعات بھی ہیں،جن میں عقل والوں کے لیے کئی نصیحتیں اور عبرتیں ہیں،ان قصوں میں سے حضرت آدم علیہ السّلام کا قصہ کئی نصیحتوں اور علم وحکمت کے مدنی پھولوں پر مشتمل ہے۔

(1)علم کی اہمیت: اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کو اپنا خلیفہ بنایا، حالانکہ فرشتے ہر وقت اس کی تسبیح و تقدیس میں مصروف رہتے ہیں، چنانچہ علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں: خدا کی نیابت و خلافت کا دارومدار کثرت عبادت و تسبیح و تقدیس نہیں، بلکہ علوم و معارف کی کثرت ہے، جب ہی ملائکہ خلیفۃ اللہ نہ ہوئے اور حضرت آدم علیہ السّلام علوم و معارف کی کثرت کی بنا پر خلافت سے مشرف ہوئے ۔(عجائب القرآن مع غرائب القرآن، ص254ملخصاً) لہٰذا علم ہر اعتبار سے افضل ہے، چاہے عبادت ہو یا دولت، شہرت ہو یا مقام و منصب تو عبادت کے ساتھ علم بھی حاصل کریں۔

(2)تکبر سے بچنا: اللہ پاک نے تخلیق آدم کے بعد ملائکہ یعنی فرشتوں کو سجدے کا حکم فرمایا، تمام ملائکہ نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے،اس نے انکار کیا اور تکبر کے طور پر خود کو افضل جانا، حالانکہ انتہائی عبادت گزار، فرشتوں کا استاد اور بارگاہ الٰہی میں مقرب تھا مگر تکبر کے سبب بارگاہ الٰہی سے دھتکار دیا گیا، تو معلوم ہوا کہ کوئی کتنا ہی اعلیٰ مرتبے پر فائز کیوں نہ ہو تکبر سے وہ ادنیٰ ہو جاتاہے۔

(3)عاجزی کرنا: جب اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کو ساری اشیاء کا علم دیا اور پھر فرمایا کہ اسے فرشتوں کے سامنے بیان کرو،تو اس کے بعد اللہ پاک نے فرشتوں کو حکم فرمایا، مجھے ان کے نام بتاؤ!تو فرشتوں نے آدم علیہ السّلام کے علمی فضل و کمال کو دیکھ کر اپنے عجز کا اعتراف کیااورعرض کیا: قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاؕ- ترجمۂ کنز الایمان:بولے پاکی ہے تجھے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا۔(پ1، البقرۃ: 32) قارئین کرام!غور کیجئےعلم نہ ہونےپر عجز کا اظہار یہ عاجزی اور فرشتوں کا طریقہ ہے۔

(4)دوسروں کی فضیلت کو تسلیم کرنا: فرشتوں کا حضرت آدم علیہ السّلام کے علمی فضل و کمال کو تسلیم کر کے سربسجود ہونے میں ان لوگوں کے لیے درس ہے، جو فقط اپنی ہی شان و عظمت کے گن گا رہے ہوتے ہیں، دوسروں کی فضیلت و کمال اور عزت و مرتبے کو نہیں مانتے، یاد رکھیں! دوسروں کی فضیلت کو ماننا یہ فرشتوں کا طریقہ ہے اور نہ مان کر خود کو بڑا جاننا یہ ابلیس کا طریقہ ہے۔

(5)انجام سے خوفزدہ رہنا: ابلیس لعین کئی فضائل کا حامل تھا، جنت کا خازن، ملائکہ کا صاحب(ساتھی) و واعظ، مقرب فرشتوں کا سردار، عرش کے ارد گرد طواف کرنے والا، آسمانوں میں اس کا نام عابد، زاہد،عارف، ولی، تقی،خازن اور عزازیل تھا مگر لوح محفوظ میں موجود اپنے انجام سے غافل تھا۔(حاشیۃالصاوی، ج1، ص51 ملخصاً) آخر حکمِ الٰہی سے منہ پھیر کر جہنم کا مستحق ہوا،لہٰذا غفلت کی زندگی سے بچ کر،خاتمے کی فکر کی جائے اور کبھی بھی اپنی عبادت و ریاضت کے سبب خوش فہمی میں نہ رہا جائے۔

اللہ پاک ہمیں قرآن پاک پر عمل کرنے اور اس میں موجود نصیحتوں سے نصیحت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


اللہ پاک نے انسانوں کی راہنمائی کے لئے بے شمار انبیاء کرام کو اپنا نائب بنا کر اس دنیا میں بھیجا انہی انبیاء کرام میں سے حضرت آدم علیہ السلام بھی ہیں جو کہ سب سے پہلے نبی اور انسان تھے ان کی زندگی میں بہت سے واقعات رونما ہوئے جن کا ذکر قرآن پاک میں بہت سی سورتوں میں بھی ملتا ہے جو انسانوں کے لیے مشعل راہ ہے ان کی زندگی کےواقعات میں سے چند واقعات جن سے انسانوں کو بہت سی نصیحتیں ملتی ہیں وہ درج ذیل ہیں:

جب اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کی تخلیق کاارادہ فرمایا تو فرشتوں سے مشورے کے انداز میں کلام فرمایا جو کہ قرآن پاک میں کچھ اس طرح ہے:وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایامیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔

زمین میں خلیفہ بنانے کی خبر سن کر فرشتوں نےبارگاہ الٰہی میں عرض کی وہ قرآن پاک میں یوں ہے: قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَۚ-وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَؕ-قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۳۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے اور خونریزیاں کرےاور ہم تجھے سراہتے ہوئے تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے۔

فرشتوں کی عرض کے جواب میں اللہ پاک نے فرمایا: قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۳۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے۔(پ1، البقرۃ:30)

(1)نصیحت: تخلیق آدم سے پہلے اللہ پاک نے فرشتوں سےمشورے کے انداز میں کلام فرمایا اس میں ہمارے لیے یہ تعلیم ہےکہ ہم بھی جب کوئی اہم کام کریں تو پہلے اپنے ماتحت افراد سے مشورہ کر لیا کریں اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہمیں کوئی اچھی رائے مل سکتی ہے جس سے کام اور زیادہ بہتر طریقے سے ہو سکتا ہے۔

اس کے بعد اللہ پاک نے حضرت آدم کی تخلیق فرمانے کے بعد روح پھونکی تو انہیں چھینک آئی۔چھینک آنے پر حضرت آدم علیہ السّلام کا حمد الٰہی کرنا اللہ تعالیٰ کی توفیق، تعلیم اور اس کے حکم سے تھا۔فرشتوں کے سامنے حضرت آدم علیہ السّلام کی فضیلت کا اظہار کرنے کے لئے تخلیق کے بعد اللہ پاک نے حضرت آدم کو تمام اشیاء کے نام سیکھائے اور پھر تمام چیزیں فرشتوں کے سامنے پیش کر کے فرمایا کہ اگر تم اس خیال میں سچے ہو کہ تم سے زیادہ علم والی کوئی مخلوق نہیں اور خلافت کے مستحق تم ہی ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ جو قرآن مجیدمیں کچھ اس طرح ہے: وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔(پ1، البقرۃ:31)

فرشتے اگر چہ صاحبِ علم و عرفان تھے لیکن چونکہ اللہ نے انہیں علم الاسماء عطا نہیں فرمایا تھا اس لیے وہ اشیاء کے نام نہ بتا سکیں اور بارگاہ الٰہی میں اپنے عجز کا اعتراف کرتے ہوئے عرض گزار ہوئے : قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ(۳۲) ترجمۂ کنز الایمان:بولے پاکی ہے تجھے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا بے شک تو ہی علم و حکمت والا ہے۔(پ1، البقرۃ: 32)

فرشتوں کے اعترافِ عجز پر اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام سے فرمایا: قَالَ یٰۤاٰدَمُ اَنْۢبِئْهُمْ بِاَسْمَآىٕهِمْۚ-فَلَمَّاۤ اَنْۢبَاَهُمْ بِاَسْمَآىٕهِمْۙ- ترجمۂ کنز الایمان: فرمایا اے آدم بتادے انہیں سب اشیاء کے نام جب آدم نے انہیں سب کے نام بتادئیے۔

اس کے بعد اللہ پاک نے فرشتوں سے فرمایا:قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۙ-وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ(۳۳)فرمایا میں نہ کہتا تھا کہ میں جانتا ہوں آسمانوں اور زمین کی سب چھپی چیزیں اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو۔(پ1، البقرۃ: 33)

(2)نصیحت: اشیاء کے نام معلوم نہ ہونے پر فرشتوں نے اپنی لاعلمی کا اعتراف کر لیا اس میں ہر صاحب علم بلکہ ہر مسلمان کیلئے یہ نصیحت ہے کہ جو بات معلوم نہ ہو اس کے بارے میں لاعلمی کا صاف اظہار کر دیا جائے، لوگوں کی ملامت سے ڈر کر یا عزت و شان کم ہونے کے خوف سے کبھی کوئی بات گھڑ کر بیان نہ کریں۔

جب اللہ پاک نے تخلیقِ آدم کا ارادہ فرمایا تو فرشتوں کو اس کی پیشگی کے ساتھ ساتھ یہ تاکید بھی فرمائی کہ روح پھونکے جانے کے بعد فرشتے انہیں سجدہ کریں جیسا کہ سورۂِ صٓ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ(۷۱) فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ(۷۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں مٹی سے انسان بناؤں گا۔پھر جب میں اسے ٹھیک بنالوں اور اس میں اپنی طرف کی روح پھونکوں تو تم اس کے لیے سجدے میں گرنا۔(پ23، صٓ:71، 72)

حضرت آدم کی تخلیق مکمل ہونے اور روح پھونکےجانے کے بعد اللہ کے حکم سے تمام فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا سوائے ابلیس کےکیونکہ وہ تکبر کے طور پر یہ سمجھتا رہا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام سے افضل ہے اپنے اس باطل عقیدے، حکمِ الٰہی سے انکار اور تعظیم نبی سے تکبرکی وجہ سے وہ کافر ہو گیا قرآن پاک میں ابلیس کا یہ حال مختلف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے چنانچہ سورۂ اعراف میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ﳓ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-لَمْ یَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ(۱۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بے شک ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہارے نقشے بنائے پھر ہم نے ملائکہ سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کروتو وہ سب سجدے میں گرے مگر ابلیس یہ سجدہ والوں میں نہ ہوا۔(پ8، الاعراف:11)

سورۂ طہ میں ارشاد ہوتا ہے: وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى(۱۱۶)ترجمۂ کنزالایمان: اور جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب سجدے میں گرے مگر ابلیس اس نے نہ مانا۔(پ16، طہ:116)

اس کے انکار کی وجہ یہ تھی کہ یا اللہ تو نے مجھے آگ سے بنایا ہے اور آدم کو مٹی سے چونکہ آگ مٹی سے افضل ہوتی ہے اس لیے یہ میری شان کے خلاف ہے کہ میں اسے سجدہ کروں، ابلیس کے جواب سے متعلق سورۂ اعراف میں ہے: قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُۚ-خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ(۱۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: بولا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اُسے مٹی سے بنایا۔(پ8، الاعراف:12)

ابلیس کا خود کو افضل سمجھنا باطل تھا کیونکہ افضل وہ ہے جسے مالک و مولا فضیلت دے ابلیس کا یہی تکبر تھا جس کی وجہ سے اس نے آدم کو سجدہ نہ کیا اور کفر کا مرتب ہوا۔

(3) نصیحت: تکبر ایک کبیرہ گناہ ہے جس انسان میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوگا اور وہ خود کو افضل اور سامنے والے کو حقیر سمجھے گا تو وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا اور بروزِ قیامت لوگ اسے اپنے قدموں تلے روندیں گے۔

حضرت آدم علیہ السّلام کے بعد بی بی حوا کی تخلیق کی گئی جس کے بعد دونوں کو جنت میں رکھا اور انہیں ایک مخصوص درخت کا پھل کھانے سے منع فرمایا اور ساتھ ہی اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کو تنبیہ کی کہ: اے آدم! ابلیس تیرا اور تیری بیوی کا کھلا دشمن ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں جنت سے نکلوا دے اور تمہیں زمین پر جانا پڑے چنانچہ سورۃ طٰہ میں الله پاک کا حکم ہے: فَقُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اِنَّ هٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَ لِزَوْجِكَ فَلَا یُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقٰى(۱۱۷) ترجَمۂ کنزُالایمان:تو ہم نے فرمایا اے آدم بےشک یہ تیرا اور تیری بی بی کا دشمن ہے تو ایسا نہ ہو کہ وہ تم دونوں کو جنت سے نکال دے پھر تو مشقت میں پڑے (پ16، طہ:117)

حضرت آدم پر اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام کی وجہ سے ابلیس ان سے حسد کرنے لگا اور اس حسد کی بنا پر ان کا کھلا دشمن بن گیا اور شیطان حضرت آدم کے دل میں وسوسے ڈالنے جنت میں پہنچ گیا اور حضرت آدم علیہ السّلام کو جس درخت کے پاس جانے سے اللہ نے منع کیا تھا اس درخت کے پاس لے گیا لیکن اس عمل میں حضرت آدم علیہ السّلام کا اللہ کی نافرمانی کا قصد نہ تھا جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ لَقَدْ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَ لَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا۠(۱۱۵) ترجَمۂ کنز الایمان: اور بےشک ہم نے آدم کو اس سے پہلے ایک تاکیدی حکم دیا تھا تو وہ بھول گیا اور ہم نے اس کا قصد نہ پایا۔ (پ16، طہ:115)

(4) نصیحت:حسد شیطانی کام ہے اور یہی وہ پہلا گناہ ہے جس کے ذریعے اللہ پاک کی نافرمانی کی گئی حسد انسان سے دین و دنیا دونوں کی نعمتیں چھین لیتی ہے یہ اتنی خطرناک باطنی بیماری ہے کہ اس سے ایمان جیسی عظیم دولت بھی چھن جانے کے خطرات لاحق ہو جاتے ہیں اللہ پاک ہمیں اس مذموم باطنی بیماری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اس طرح حضرت آدم علیہ السّلام سے لغزش کا واقعہ ہوا اور انہوں نے اس درخت کا پھل کھا لیا جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا تھا، تو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام کو اور بی بی حوا کو حکم دیا کہ آپ دونوں زمین پر اتر جاؤ سورۂ اعراف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قَالَ اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّۚ-وَ لَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰى حِیْنٍ(۲۴)قَالَ فِیْهَا تَحْیَوْنَ وَ فِیْهَا تَمُوْتُوْنَ وَ مِنْهَا تُخْرَجُوْنَ۠(۲۵)ترجمۂ کنزالایمان: فرمایا اُترو تم میں ایک دوسرے کا دشمن اور تمہیں زمین میں ایک وقت تک ٹھہرنا اور برتنا ہے۔ فرمایا اسی میں جیوگے اور اسی میں مرو گے اور اسی میں سے اٹھائے جاؤ گے۔(پ8، الاعراف:24، 25)

حضرت آدم علیہ السّلام کی ایک عرصہ دراز تک گریہ وزاری کے بعد اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے کلمات کے ذریعے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے اسے قبول فرما لیا جس کا ذکر قرآن کی سورۂ بقرہ میں یوں ہے: فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ علیہؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۳۷) ترجمۂ کنز الایمان:پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بے شک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔ (پ1، البقرۃ:37)

(5)نصیحت: حضرت آدم علیہ السّلام نے اپنی لغزش کے بعد جس طرح دعا فرمائی اس میں مسلمانوں کے لیے یہ تربیت ہےکہ ان سے جب کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو وہ اللہ پاک کی بارگاہ میں اپنے گناہ پر ندامت کا اظہار کریں اور رحمت و مغفرت کا عاجزی سے گڑگڑا کر سوال کریں۔


پیارے اسلامی بھائیو! اللہ کریم نے زمین و آسمان بنانے سے پہلے فرشتوں کو پیدافرمایا، پھر جنّات کو آگ کے شعلے سے اور اِن کے بعد انسان کو پیدا کیا۔سب سے پہلے انسان اللہ پاک کےپیارےنبی حضرت آدم علیہ السّلام ہیں اور آپ پہلے رسول بھی ہیں جو شریعت لے کر اپنی اَولاد کی جانب بھیجے گئے۔حضرتِ نوح علیہ السّلام کو اَوّلُ الرُّسُل اِس وجہ سے کہا جاتاہے کہ آپ علیہ السّلام کفروشرک پھیلنے کے بعد سب سے پہلے مخلوق کی ہدایت کےلئے بھیجے گئے۔(نزہۃ القاری، 5/52 مفہوما) حضرتِ آدم علیہ السّلام پہلے خلیفۃ اللہ بھی ہیں جیساکہ پارہ1، سورۃ البقرۃ، آیت نمبر30میں اِرشاد ہوتا ہے:وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایامیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔

مشہور غلط فہمی:بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرتِ آد م علیہ السّلام کے مبارک جسم میں روح ڈالنے سے پہلےشیطان نے اِن پرمَعاذَ اللہ تھوکا تھا اوراُس تھوک سے کتا پیداہوا اِس واقعے کے بارے میں حضرت مفتی وقارالدین رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: کتابننے کی یہ روایت بے بُنیاد اور لَغْو (یعنی فضول)ہے صحیح روایت میں اِس کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔(وقار الفتاویٰ، 1/344)

سب سے پہلے چھینک کس کو آئی:سب سے پہلے روح سرِمبارک میں داخل ہوئی تو حضرتِ آدم علیہ السّلام کو چھینک آئی، اللہ پاک نے آپ کے دِل میں اَلحمدُ للہ کہنے کا اِلہام فرمایاتوآپ نے اَلحمدُ للہ پڑھا اِس پر خود اللہ کریم نے یَرْحَمُكَ اللہ فرمایا۔جب روح کمر شریف تک پہنچی تو آپ علیہ السّلام نے اُٹھنا چاہا مگر نیچے تشریف لے آئے کیونکہ نیچے کے حصے تک اَبھی روح نہیں پہنچی تھی،جب تمام جسم میں روح پہنچ گئی تو اللہ پاک نے آپ کو اِرشادفرمایا:اےآدم!میں کون ہوں؟حضرتِ آدم علیہ السّلام نے عرض کیا: تُواللہ ہے تیرے سِواکوئی عبادت کے لائق نہیں،اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:تم نے صحیح کہا۔(تاریخِ ابنِ عساکر،7/385)

ترمذی شریف میں ہے کہ اللہ پاک نے آپ کو اِرشاد فرمایا: اے آدم!فرشتوں کی اِس بیٹھی ہوئی جماعت کے پاس جاؤ اور کہو: اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم۔چنانچہ انہوں نے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم کہا تو فرشتوں نے جواب دیا:عَلَیْکَ السَّلَامُ وَرَحْمَۃُاللہِ۔پھر آپ علیہ السّلام اللہ پاک کی بارگاہ میں واپس حاضر ہوئے تو اللہ پاک نےاِرشاد فرمایا: یہ تمہارا اور تمہاری اولاد کا آپس میں سلام ہے۔ (ترمذی، 5/241، حدیث:3379)

نصیحت:پیارے اسلامی بھائیو! اِس واقعے سے یہ بھی پتا چلا کہ سلام کرنا بہت پُرانی سنّت ہے،فیضانِ سلام عام کریں اور خوب رحمتِ خداوندی سے حصہ پائیں،اَلحمدُ للہ! عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی سنتیں عام کرتی اورگھر گھر سنت کا پیغا م پہنچاتی ہے۔72نیک اعمال کے رسالے میں نیک عمل نمبر30 ہے: کیاآج آ پ نے گھر، دفتر، بس، ٹرین وغیرہ میں آتے جاتے اورگلیوں سے گزرتے ہوئے راہ میں کھڑے یابیٹھے مُسلمانوں کو سلام کیا؟

شہا!ایسا جذبہ پاؤں کہ میں خوب سیکھ جاؤں تری سنّتیں سکھانا مَدنی مدینے والے

فرمانبرداری کرنا:پیارے اسلامی بھائیو!اللہ پاک نے جب حضرتِ آدم صفی اللہ علیہ السّلام کو پیدا فرمایا تو فرشتوں نے کہا:اللہ پاک ایسی مخلوق پیدا نہیں فرمائے گا جو ہم سے زیادہ علم والی اور بارگاہِ الٰہی میں ہم سے زیادہ عزت والی ہو۔فرشتے حضرتِ آدم علیہ السّلام کے ذریعے آزمائے گئےاِسی طرح اللہ پاک بندوں کو آزمائش میں مبتلا فرماتا ہےتاکہ ظاہر ہو کہ کون فرمانبرداری کرتا اور کون نافرمانی کرتا ہے او رجو دُنیا و آخرت کے بارے میں غور وفکر کرتا ہے وہ ایک کی دوسرے پر فضیلت جان لیتا ہے اور پہچان لیتا ہے کہ دنیا آزمائش کا گھراور فنا ہونے والی ہے جبکہ آخرت بدلے کا ہمیشہ باقی رہنے والا گھر ہے، لہٰذا (اگر تم طاقت رکھتے ہو تو) ان لوگوں میں سے ہوجاؤ جو دنیا کی ضرورت کو آخرت کی ضرورت کی خاطر چھوڑ دیتے ہیں اور نیکی کی توفیق اللہ پاک ہی کی طرف سے ملتی ہے۔(تفسیر طبری،پ1، البقرۃ، تحت الآیۃ: 30، 1/242، تفسیر در منثور، البقرۃ، تحت الآیۃ: 219، 1/611 ملتقطاً)

حضرتِ آدم علیہ السّلام کا قد مبارک:بُخاری شریف میں ہے: حضرتِ آدم علیہ السّلام کا(مبارک)قد 60گز(یعنی 90 فٹ) تھا۔جو بھی جنت میں جائے گا وہ حضرت آدم علیہ السّلام کی صورت پر ہوگا اور اُس کا قد 60 گز ہوگاپھر حضرتِ آدم علیہ السّلام کے بعداَب تك مخلوق(قدو قامت میں) کم ہوتی رہی ہے۔(بخاری،4/164، حد یث:6227)

حضرتِ مفتی احمدیارخان نعیمی رحمۃُاللہِ علیہ اِس حدیثِ پاک کی شرح میں لکھتے ہیں: جنت میں صِرف انسان ہی جائیں گے، جانور یا جنّات نہ جائیں گے اور تمام جنّتی انسان آدم علیہ السّلام کی طرح حسین و جمیل تندرست ہوں گے کوئی بدشکل یا بیمار نہ ہوگا اور سب کا قد 60ہاتھ ہوگا کوئی اِس سے کم یا زیادہ نہ ہوگا،دُنیا میں خواہ پست (یعنی چھوٹا)قد تھا یا دراز (یعنی لمبا) قد،بچہ تھا یا بوڑہا، مگر یہ کمی صرف دنیا میں ہے آخرت میں جنت میں پوری کردی جاوے گی۔(مرآۃ المناجیح،6/313، 314 ملتقطا)

ہے پاک رُتبہ فکر سے اُس بے نیاز کا کچھ دَخل عقل کا ہے نہ کام اِمتیاز کا

الله پاک ہمیں انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرت و واقعات کا مطالعہ کرکے حاصل ہونے والی نصیحتوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


پیارے اسلامی بھائیو! اللہ پاک نے قرآن پاک میں ہمارے لیے بہت سی جگہوں پر نصیحتوں کا ذکر فرمایا ہے، ایک مقام پر ارشاد فرمایا: هٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ مَوْعِظَةٌ لِّلْمُتَّقِیْنَ(۱۳۸) ترجَمۂ کنزُالایمان:یہ لوگوں کو بتانا اور راہ دکھانا اور پرہیزگاروں کو نصیحت ہے۔(پ4، آل عمرٰن: 138) اور اللہ پاک نے قرآن پاک میں انبیاء کرام علیہم السلام کے واقعات ذکر فرمائے جن سے ہمیں نصیحتیں حاصل ہوتی ہیں، انہی انبیاء کرام میں سے حضرت آدم علیہ السّلام بھی ہیں جن کے قرآنی واقعات سے کچھ نصیحتیں ذکر کی جائیں گی۔

(1)تکبر سے بچنا: وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا۔(پ1، البقرۃ: 34)

اس واقعہ سے نصیحت یہ حاصل ہوتی ہے کہ ہمیں کبھی بھی غرور و تکبر نہیں کرنا چاہیے کیونکہ تکبرایسا خطرناک عمل ہے کہ یہ بعض اوقات بندے کوکفر تک پہنچا دیتا ہے،اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ و ہ تکبر کرنے سے بچے۔

( 2)توبہ کرتے رہنا: فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ علیہؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۳۷) ترجمۂ کنز الایمان:پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بے شک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔(پ1، البقرۃ:37)

اس آیت سے یہ نصیحت حاصل ہوتی ہے کہ ہمیں ہر وقت اللہ پاک سے اپنے گناہوں سے توبہ کرتے رہنا چاہیے کیونکہ وہی توبہ کو قبول فرمانے والا ہے۔

( 3) خطا کا اعتراف کرنا:رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (۲۳) ترجمۂ کنز الایمان:اے رب ہمارے ہم نے اپنا آپ برا کیاتو اگر تُو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم ضرور نقصان والوں میں ہوئے ۔(پ 8، الاعراف: 23)

اس آیت سے یہ نصیحت حاصل ہوتی ہے کہ جب کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے گناہ پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے ا س کا اعتراف کریں اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت و رحمت کا انتہائی لَجاجَت کے ساتھ سوال کریں تاکہ اللہ تعالیٰ ان کا گناہ بخش دے اور ان پر اپنا رحم فرمائے۔

( 4) مشورہ کرنا:وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایامیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔(پ1، البقرۃ:30)

اس آیت سے یہ نصیحت حاصل ہوتی ہے کہ کوئی اہم کام کرنے سے پہلے اپنے بڑوں سے مشورہ کرلیا جائے تاکہ اگر اس میں کوئی نقصان ہو تو اس سے بچ جائے۔

( 5) حکم ماننا:ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ﳓ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-لَمْ یَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ(۱۱) ترجَمۂ کنزُ الایمان: پھر ہم نے ملائکہ سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کروتو وہ سب سجدے میں گرے مگر ابلیس یہ سجدہ والوں میں نہ ہوا۔ (پ8، الاعراف:11)

اس آیت سے یہ نصیحت حاصل ہوتی ہے کہ ہمیں ہمیشہ اپنے رب کا حکم ماننا چاہیے جس طرح فرشتوں نے اللہ پاک کے حکم کی اطاعت کی۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ان نصیحتوں پر عمل کرنے اور ان کو دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


قرآن پاک ہمارے لیے نصیحت و ذریعہ نجات ہے اللہ پاک نے ہمارے لیے قرآن پاک میں مختلف انداز میں نصیحتیں بیان کی ہیں ایک انداز یہ بھی ہے کہ گزشتہ انبیاء کرام علیہم السلام کے واقعات بیان فرماکر بھی ہمیں نصیحتیں فرمائیں یہاں پر حضرت آدم علیہ السّلام کے واقعہ سے حاصل ہونے والی نفع بخش نصیحتیں بیان کی جارہی ہیں آپ بھی ان کا مطالعہ فرما کر ان پر عمل کرنے کی کوشش فرمائیں:

(1) تکبر سے بچنا: اللہ پاک نے جب فرشتوں کو حکم دیا کہ حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ کریں تو تمام فرشتوں نے سجدہ کیا لیکن شیطان نے تکبر کی وجہ سے سجدہ نہیں کیا اور نا شکروں میں سے ہوگیا جیسا کہ قرآن پاک میں ہے: اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان: منکر ہوا اور غرور کیااور کافر ہوگیا۔(پ1،البقرۃ:34)

(2)اطاعت کرنا:حضرت آدم علیہ السّلام کے واقعہ سے جو ہمیں ایک اہم نصیحت ملتی ہے وہ ہے اللہ پاک کی فرمانبرداری کرنا جب اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤاترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا۔(پ1،البقرۃ:34)

تو تمام فرشتوں نے اللہ پاک کے حکم پر عمل کرنے کے لیے حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ کیا۔

(3) حکمِ الٰہی کا انکار نا کرنا:واقعہ آدم علیہ السّلام سے ہمیں ایک سبق آموز نصیحت یہ بھی ملتی ہے کہ ہم اللہ پاک کے حکم کا کبھی کسی حالت میں انکار نا کریں کیونکہ شیطان نے حکمِ الٰہی کا جب انکار کیا تو ذلت و رسوائی اس کا مقدر بنی جیسا کہ قرآن پاک میں ہے: اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان: منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا۔(پ1،البقرۃ:34)

(4) علم حاصل کرنا: ایک نصیحت واقعہ آدم علیہ السّلام میں ہمارے لیے یہ بھی ہے کہ ہم علم دین حاصل کریں کیونکہ اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کو بھی علم سکھایا، چنانچہ قرآن پاک میں الله پاک نے ارشاد فرمایا:وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے۔(پ1، البقرۃ: 31)

علم کی فضیلت بیان کرتے ہوئے پیارے آقا آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: طلب العلم فریضة علی کل مسلم ترجمہ: علم سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔

(5) ہر کام اللہ پاک کے سپرد کرنا: ایک نصیحت یہ بھی ہے کہ ہم ہر کام اللہ پاک کے سپرد کر دیں کیونکہ اللہ پاک ہم سے بہتر جانتا ہے کہ ہمارے حق میں کیا بہتر ہے، بعض اوقات زندگی میں ہم پر مشکل وقت آتا ہے، اس وقت ہمیں صبر کرنا چاہیے اور اللہ پاک کی رحمت سے کامل یقین رکھنا چاہیے کہ آج مشکلات ہیں تو کل آسانیاں بھی آئیں گی جیسا کہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۳۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے۔(پ1، البقرۃ:30)

اللہ پاک ہمیں ان نصیحتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


جس طرح کتاب اللہ اپنے اندر بے شمار حکمتیں سموئے ہوئے ہے اسی طرح آدم علیہ السّلام کے واقعے میں بے شمار حکمتیں موجود ہیں جس سے 5 نصیحتیں درج ذیل ہے۔

حضرت آدم علیہ السّلام نے اپنی لغزش کے بعد دعا فرمائی اس سے اس میں مسلمانوں کے لیے نصیحت ہے کہ وہ گناہ کر بیٹھیں تو اپنے گناہ کی معافی کے لیے دعا کریں۔(تفسیر نعیمی)

اور مسلمانوں کے لیے یہ نصیحت ہے کہ وہ اپنے گناہوں پر شرمندگی کا اظہار کریں اور اپنے گنا ہوں کا اعتراف کریں اور اللہ تعالیٰ سے لجاجت کے ساتھ سوال کریں تاکہ اللہ تعالیٰ اُن کے گناہوں کو معاف فرما دے۔

حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مومن سے گناہ سرزد ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے حیا کرتا ہے۔پھر الحمد للہ اس گناہ کی معافی کے لیے راستہ تلاش کرتا ہے۔ تو وه جان لیتا ہے اس سے نکلنے کی راہ توبہ استغفار ہے لہٰذا توبہ کرنے سے کوئی آدمی شرم محسوس نہ کرے جب تمہارے جدامجد سے لغزش ہوئی تو توبہ کے ذریعے ان کو معاف فرمایا۔(تفسیر نعیمی)

آدم علیہ السّلام کے واقعے سے مسلمانوں کے لیے یہ نصیحت ہے کہ وہ غرور اور تکبر سے بچیں کیونکہ شیطان اسی غرور اور تکبر کی وجہ سے اپنا مقام و مرتبہ کھو بیٹھا تھا۔(تفسیر نعیمی)

اس سے مسلمانوں کو یہ نصیحت بھی حاصل ہوتی ہے کہ جھوٹی قسمیں نہیں کہانی چاہیے کیونکہ یہ شیطان کا طریقہ ہے اور کسی شخص کو اپنی عبادت پر تکبر نہیں کرنا چاہیے۔


قرآن کریم کا کافی حصہ سابقہ انبیائے کرام علیہم السّلام اور ان کی قوموں کے واقعات پر مشتمل ہے جن سے ہم وعظ و نصیحت حاصل کرسکتے ہیں بلکہ ایک مقام پر فرمایا: لَقَدْ كَانَ فِیْ قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّاُولِی الْاَلْبَابِؕ-ترجَمۂ کنز الایمان: بےشک ان کی خبروں سے عقل مندوں کی آنکھیں کُھلتی ہیں۔(پ13، یوسف:111) انہی واقعات میں سے چند واقعات حضرت آدم علیہ السّلام کے بھی بیان کئے گئے ہیں، آئیے! ان واقعات سے کچھ وعظ و نصیحت حاصل کرتے ہیں۔

وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے۔

اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کو ساری چیزوں کا علم عطا کرکے فرشتوں پر فضیلت عطا فرمائی، اس سے معلوم ہوا کہ علم خلوتوں اور تنہائیوں کی عبادت سے افضل ہے۔

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھ سے ارشاد فرمایا:اے ابو ذر! تمہاراا س حال میں صبح کرنا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب سے ایک آیت سیکھی ہو،یہ تمہارے لئے 100 رکعتیں نفل پڑھنے سے بہتر ہے اورتمہارا اس حال میں صبح کرنا کہ تم نے علم کا ایک باب سیکھا ہوجس پر عمل کیا گیا ہو یا نہ کیا گیاہو،تو یہ تمہارے لئے 1000نوافل پڑھنے سے بہتر ہے۔(ابن ماجہ،کتاب السنّۃ، باب فی فضل من تعلّم القرآن وعلّمہ، حدیث نمبر۲۱۹)

وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو۔(پ1،البقرۃ:34)

اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو یہ حکم دیاکہ وہ حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کو سجدہ کریں،اس سے معلوم ہوا کہ حضرت آدم علیہ السّلام فرشتوں سے افضل ہیں اور انبیاء کرام فرشتوں سے افضل ہیں کیونکہ سجدے میں انتہائی تواضع ہوتی ہے اور کسی کے سامنے انتہائی تواضع وہی کرے گا جو اس سے کم مرتبے والا ہو۔

فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان: سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا۔(پ1،البقرۃ:34)

علامہ اسماعیل حقی رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں: جب ابلیس نے حضرت آدم علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کا انعام واکرام دیکھا تو وہ ان سے حسد کرنے لگا اور اس حسد کی بنا پر وہ آپ علیہ السّلام کادشمن بن گیا۔اس سے معلوم ہوا کہ جسے کسی سے حسد ہو تو وہ اس کا دشمن بن جاتا ہے، اس کی ہلاکت چاہتا اور اسے خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔(سیرت الانبیاء، صفحہ 103)

یہ بھی معلوم ہوا کہ حسد شیطانی کام ہے اور یہی وہ پہلا گناہ ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی گئی۔

حسد کی تعریف یہ ہے کہ کسی کی دینی یا د نیادی نعمت کے زوال (یعنی چھن جانے کی تمنا کرنا یا یہ خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ یہ نعمت نہ ملے۔ حسد اتنی خطر ناک باطنی بیماری ہے کہ اس سے ایمان جیسی عظیم دولت چھن جانے کے خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس مذموم باطنی بیماری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ ترجمۂ کنزالایمان: مگر اس پیڑ کے پاس نہ جانا۔(پ1، البقرۃ: 35)

برائی کے اسباب کی روک تھام: حضرت آدم علیہ السلام کو اصل ممانعت درخت کا پھل کھانے کی تھی لیکن اس کے لئے فرمایا: اس درخت کے قریب نہ جانا۔ اس طرز خطاب سے علماء نے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ اصل فعل کے ارتکاب سے بچانے کے لیے اس کے قریب جانے یا قریب لیجانے والی چیزوں سے بھی روکا جاتا ہے۔علمی اصطلاح میں اسے سدّ ذرائع یعنی برائی کے اسباب کی روک تھام کہتے ہیں۔(سیرت الانبیاء، صفحہ 107)

ہمیں بھی چاہیے کہ جتنا ہم سے ممکن ہو ہم برائی کے اسباب کوہی کم کریں تاکہ معاشرے میں نیک ماحول پیدا ہو اللہ پاک دعوت اسلامی کو سلامت رکھے الحمد للہ دعوت اسلامی نے برائی کےہر موڑ پر سد باب کی کوشش کی ہے اور کر رہی ہے۔

حضرت آدم علیہ السّلام کی عصمت: حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام نے جان بوجھ کر ممنوعہ درخت سے نہیں کھایا بلکہ اس کی وجہ اللہ تعالیٰ کا حکم یاد نہ رہنا تھا اور جو کام سہواً ہو وہ نہ گناہ ہوتا ہے اور نہ ہی اس پر کوئی مُؤاخذہ ہوتا ہے۔

وَ لَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا۠(۱۱۵) ترجَمۂ کنز الایمان: اور ہم نے اس کا قصد نہ پایا۔(پ16، طہ:115)

اسی آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ آیت ِ مبارکہ حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کی عِصمت کو بڑے واضح طور پر بیان کرتی ہے کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام بھول گئے تھے اور ان کا نافرمانی کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔(صراط الجنان)

اللہ پاک ان واقعات سے ہمیں درس و نصیحت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


ابتدائی طور پر قرآن پاک چار حصوں پر مشتمل ہے۔احکام، امثال، واقعات اور وعظ و نصیحت۔قرآن کریم میں ایسے کئی واقعات ہیں کہ جن کے ذریعے اللہ کریم نے انسانوں کو نصیحتیں فرمائی جو ہمیں ان واقعات میں تھوڑے سے غورو فکر کے بعد معلوم ہو جاتیں ہیں۔اسی طرح حضرت آدم علیہ السّلام کے واقعے میں بھی اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو متعدد نصیحتیں فرمائی ہیں۔آئیے ان میں سے چند ہم بھی پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔

تکبر نہ کرنا: خود کو افضل دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے۔(باطنی گناہوں کی معلومات، ص 275) حدیث پاک میں تکبر کی تعریف اس طرح بیان کی گئی ہے، چنانچہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔(مسلم، کتاب الایمان باب تحریم الكبر و بيانہ، ص 61، حدیث147) اسی طرح ابلیس شیطان نے بھی حضرت آدم سے تکبر کیا اور آپ کو سجدہ نہ کیا اور کہا کہ اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُۚ-خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ(۱۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اُسے مٹی سے بنایا۔(پ8، الاعراف:12)

رب تعالیٰ نے جن کاموں کا حکم دیا انہیں بجا لانا:یہ کام سعادت ابدیہ کا موجب ہے اس پر عمل کرنے سے دین و دنیا کی بے شمار بھلائیاں ہاتھ آتی ہیں جبکہ اس کے برعکس رب تعالیٰ کا حکم نہ ماننا شقاوت ابدیہ کا موجب ہے۔ جیسے شیطان لعین نے حضرت آدم کو سجدہ کرنے میں اللہ تعالیٰ کا حکم نہ مانا تو اللہ پاک نے اسے قیامت تک ذلیل و رسوا ہونے کے لئے چھوڑ دیا جس کا تذکرہ قرآن پاک میں اس طرح ہے: قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا فَمَا یَكُوْنُ لَكَ اَنْ تَتَكَبَّرَ فِیْهَا فَاخْرُجْ اِنَّكَ مِنَ الصّٰغِرِیْنَ(۱۳) ترجَمۂ کنزُالایمان:فرمایا تو یہاں سے اُتر جا تجھے نہیں پہنچتا کہ یہاں رہ کر غرور کرے نکل تو ہے ذلت والوں میں۔(پ8، الاعراف:13) یعنی انسان تیری مذمت کرے گا اور ہر زبان تجھ پر لعنت کرے گی اور یہی تیراانجام ہے۔

توبہ و استغفار کی کثرت کرنا: استغفار کا مطلب ہے مغفرت طلب کرنا۔جس طرح توبہ گناہوں کی معافی کا سبب ہے ویسے ہی توبہ و استغفار مقبول بارگاہ رب باری بننے کا سبب بھی ہے۔قرآن پاک میں بھی تو بہ و استغفار کی ترغیب دی گئی ہے۔اسی طرح حضرت آدم کی توبہ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ پاک قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے: فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ علیہؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۳۷) ترجمۂ کنز الایمان:پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بے شک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔(پ1، البقرۃ:37)

ہدایت قبول کرنا: ہدایت قبول کرنا ایسا کام ہے جس کے ذریعے انسان بہت سی خرابیوں سے بچ جاتا ہے۔ہدایت قبول کرنا انسان کو راہِ راست پر لے آتا ہے جبکہ اس کا بر عکس (ہدایت قبول نہ کرنا) انسان کو راہِ راست سے ہٹا دیتا ہے۔اللہ تعالیٰ کی ہدایت قبول کرنے والےپر نہ تو قیامت کی گھبراہٹ طاری ہوگی اور نہ ہی وہ قیامت میں غمگین ہو گا۔اللہ پاک ہدایت قبول کرنے کی ترغیب دلاتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّنِّیْ هُدًى فَمَنْ تَبِـعَ هُدَایَ فَلَا خَوْفٌ علیہمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(۳۸) ترجمۂ کنز الایمان: پھر اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کا پیرو ہوا اسے نہ کوئی اندیشہ نہ کچھ غم۔(پ1، البقرۃ:37)

شیطان لعین کے ہر وار سے بچنے کی کوشش کرنا: اللہ پاک نے قرآن کریم میں فرمایا کہ شیطان انسان کا دشمن ہے اور یہ لعین انسان کا ایسا دشمن ہے کہ جو انسان کا مال و متاع اور جان نہیں بلکہ اس کی سب سے قیمتی چیز جو تمام سعادتوں کی شرط اول ہے اور جس کے بغیر انسان جنت میں جانے کے بجائے جہنم کی آگ کا ایندھن بن کر رہ جاتا ہےایمان لے لیتا ہے اور انسان کو کفر کے گہرے اندھیروں میں پھینک دیتا ہے جہاں ذلت و رسوائی اور حسرت کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَۙ(۸۲) اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِیْنَ(۸۳) ترجَمۂ کنزُالایمان:بولا تو تیری عزت کی قسم ضرور میں ان سب کو گمراہ کردوں گا۔مگر جو ان میں تیرے چنے ہوئے بندے ہیں۔(پ23، صٓ:82، 83)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں نصیحت و عبرت حاصل کرنے اور قرآن پاک کی کثرت سے تلاوت کرنے والا بنائے اور ہم سب کی بے حساب مغفرت فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


الله پاک نے ہدایت انسانی کیلئے اس دنیا میں تقریبا ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے ان میں سب سے پہلے پیغمبر حضرت آدم علیہ السّلام ہیں، الله پاک نے انہیں اپنے پاس سے علم سکھایا اور اس علم ہی کی بدولت انہیں فرشتوں سے بھی بلند رتبہ عطا فرمایا، قرآن میں مختلف جگہوں پر حضرت آدم علیہ السّلام کے واقعہ کو ذکر کیا گیا۔جن میں ہمارے لیے بے شمار نصیحتیں ہیں، ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

(1) مشاورت سنت الٰہی ہے: اللہ کی شان یہ ہے کہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے نہ کوئی اس کے ارادہ میں دخل انداز ہو سکتا ہے نہ کسی کی مجال ہے کہ اس کے کسی کام میں چوں و چرا کر سکے مگر اس کے باوجود اللہ نے حضرت آدم علیہ السّلام کی تخلیق و خلافت کے بارے میں فرشتوں سےمشورہ کے انداز میں کلام فرمایا لہٰذا جب اللہ قادر اور فاعل مختار ہونے کے باوجود ملائکہ کی جماعت سے مشورہ فرماتا ہے تو ہم جن کا علم بہت کم ہے انہیں بھی چاہیے کہ کسی کام کو کرنے سے پہلے اپنے مخلص دوستوں سے مشورہ کر لیا کریں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایامیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔ (پ1، البقرۃ:30)

(2) رضائے الٰہی پر رضامندی:بندے اللہ پاک کے افعال اور اس کے کاموں کی مشیتیں اور حکمتیں کما حقہ نہیں جانتے۔ اس لیے بندوں پر لازم ہے کہ اللہ کے کسی فعل پر تنقید و تبصرہ سے اپنی زبان روکے رہیں اور اپنی کم عقلی و کوتاہ فہمی کا اعتراف کرتے ہوئے یہ ایمان رکھیں اور زبان سے اعلان کرتے رہیں کہ اللہ پاک نے جو کچھ اور جیسا بھی کیا بہر حال وہی حق ہے اور اللہ اپنے کاموں کو خوب جانتا ہے۔ جیسے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۳۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے۔(پ1، البقرۃ:30)

(3)مذمت تکبر: ابلیس نے حضرت آدم علیہ السّلام کو خاک کا پتلا کہہ کر ان کی تحقیر کی اور اپنے کو آتشی مخلوق کہہ کر اپنی بڑائی کا اظہار کیا اور سجدہ سے انکار کیا حقیقتاً شیطان کے انکار کا باعث حضرت آدم سے تکبر تھا۔ تکبر وہ بری چیز ہے کہ بڑے سے بڑے بلند مراتب و درجات والے کو ذلت کے عذاب میں گرفتار کر دیتی ہے بلکہ بعض اوقات تکبر کفر تک پہنچا دیتا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان: منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا۔(پ1، البقرۃ:34)

(4)مشکوک کو ترک کرنا: اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کو پھل کھانے سے منع فرمایا تھا لیکن قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: وَ لَا تَقْرَبَا ترجمہ: اور قریب نہ جانا۔(پ1، البقرۃ:35) تو مراد یہ ہے کہ اصل فعل کے ارتکاب سے بچانے کیلئے اس کے قریب جانے سے بھی روکنا چاہئے۔

(5)افضلیت علم: تمام فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ کیا اور سجدہ نہایت عاجزی اور اپنے سے بلند درجے والوں کو کیا جاتا ہے، اور فرشتے عابد تھے اور حضرت آدم علیہ السّلام عالم تھے اس سے معلوم ہوا کہ عالم عابد سے افضل ہے لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ عبادت کے ساتھ ساتھ علم دین بھی حاصل کرتےر ہیں۔

اللہ پاک ہمیں انبیاء علیہم السّلام کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین


اللہ پاک نے لوگوں کی ہدایت کے لئے کئی انبیائے کرام بھیجے جن میں سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السّلام کو بھیجا اور ان کا تذکرہ قرآن پاک میں بھی آیا ہے۔ پانچ قرآنی نصیحتیں درج ذیل ہیں:

(1)آدم کی تخلیق سے پہلے فرشتوں کو سجدے کی تاکید:جب اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کی تخلیق کا ارادہ فرمایا تو فرشتوں کو اس کی پیشگی خبر دینے کے ساتھ ساتھ یہ تاکید بھی کردی کہ تخلیق مکمّل ہونے اور روح پھونکے جانے کے بعد فرشتے انہیں سجدہ کریں،جیسا کہ سورۂ صٓ میں ارشاد فرمایا: اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ(۷۱) فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ(۷۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں مٹی سے انسان بناؤں گا۔پھر جب میں اسے ٹھیک بنالوں اور اس میں اپنی طرف کی روح پھونکوں تو تم اس کے لیے سجدے میں گرنا۔(پ23، صٓ:71، 72)

درس و نصیحت:فرشتوں نے کسی پس و پیش کے بغیر حکمِ الٰہی پر فوری عمل کرتے ہوئے حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ کیا جب کہ شیطان نے حکمِ الٰہی کو عقل کے ترازو میں تولا، اسے عقل کے خلاف جانا اور اس پر عمل نہ کر کے بربادی کا شکار ہوا۔اس سے معلوم ہوا کے حکمِ الٰہی کو من و عن چوں چراں کے بغیر تسلیم کرنا ضروری ہے۔حکمِ الٰہی کے مقابلے میں اپنی عقل استعمال کرنا،اپنی فہم و فراست کے پیمانے میں تول کر اس کے درست ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنا اور مخالف عقل جان کر عمل سے منہ پھیر لینا کفر کی دلدل میں دھکیل سکتا ہے۔

(2)غرور نہ کرنا:حضرت آدم علیہ السّلام کی تخلیق مکمّل ہونے اور ان میں روح پھونکے جانے کے بعد تمام فرشتوں نے حضرت آدم کو ایک ساتھ سجدہ کیا لیکن ابلیس نے سجدہ نہ کیا اور تکبّر کے طور پر یہ سمجھتا رہا کے وہ آپ سے افضل ہے جیسا کے سورۂ بقرہ میں ارشاد ہے:وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا۔(پارہ:01،سورۃالبقرہ،آیت:34)

درس و نصیحت: ابلیس سے سر زد ہونے والے گناہوں میں بنیادی گناہ تکبّر تھا۔حدیث پاک میں ہے تکبّر حق بات جھٹلانے اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔تکبّر کبیرہ گناہ ہے اور جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبّر ہوگا وہ جنّت میں داخل نہ ہوگا اور متکبروں کو قیامت کے دن لوگ اپنے پاؤں سے روندیں گے۔

(3)حضرت آدم علیہ السّلام کی توبہ کے کلمات اور قبولیت توبہ: حضرت آدم علیہ السّلام کی ایک عرصہ دراز تک گریہ و ذاری کے بعد اللہ پاک نے انہیں توبہ کے کچھ کلمات الہام فرمائے اور جب آپ علیہ السّلام نے ان کلمات کے ذریعے توبہ کی تو اللہ پاک نے اسے قبول فرمالیا، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ علیہؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۳۷) ترجمۂ کنز الایمان:پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بے شک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔(پارہ:01، سورۃالبقرۃ،آیت:37)

درس و نصیحت: حضرت آدم علیہ السّلام نے اپنی لغزش کے بعد جس طرح دعا فرمائی اس میں مسلمانوں کر لئے یہ تربیت ہے کہ جب ان سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو وہ اللہ پاک کی بارگاہ میں اپنے گناہ پر ندامت کا اظہار کریں اور مغفرت و رحمت کا عاجزی سے گڑگڑا کر سوال کریں۔

(4)علم کی فضیلت: تخلیق کے بعد ایک موقع پر اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کے سامنے اشیاء پیش فرمائی اور بطور الہام آپ علیہ السّلام کو ان کے نام،کام،صفات،خصوصیات، علوم اور صنعتیں سکھادیں۔پھر یہ تمام چیزیں فرشتوں کے سامنے پیش کر کے فرمایا:اگر تم اپنے اس خیال میں سچے ہو کہ تم سے زیادہ علم والی مخلوق نہیں اور خلافت کے مستحق تم ہی ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ(کیونکہ خلیفہ کا کام اختیار استعمال کرنا،کاموں کی تدبیر کرنا اور عدل و انصاف کرنا ہے اور یہ اس کے بغیر ممکن نہیں کہ خلیفہ کو وہ تمام چیزیں معلوم ہوں جس پر اسے اختیار دیا گیا اور جن کا اسے فیصلہ کرنا ہے) قرآن کریم میں ہے: وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔(پ1، البقرۃ:31)

درس و نصیحت:حضرت آدم علیہ السّلام کو جو فرشتوں پر فضیلت عطا ہوئی اس کا ظاہری سبب ان کا علم تھا،اس سے معلوم ہوا کہ علم خلوتوں اور تنہائیوں کی عبادتوں سےافضل ہے۔ اشیاء کے نام معلوم نہ ہونے پر فرشتوں نے اپنی لا علمی کا اعتراف کرلیا۔اس میں ہر صاحب علم بلکہ ہر مسلمان کے لئے یہ نصیحت ہےکہ جو بات معلوم نہ ہو اس کے بارے میں لا علمی کا صاف اظہار کردیا جائے،لوگوں کی ملامت سے ڈر کر یا عزت و شان کم ہونے کے خوف سے کبھی کوئی بات گھڑ کر بیان نہ کریں!

(5)تعظیم نبی کی برکت اور توہین نبی کا انجام: کائنات میں سب سے پہلے نبی کی تعظیم فرشتوں نے کی اور بارگاہ الٰہی میں مزید قرب سے سرفراز ہوئے جب کہ سب سے پہلے نبی کی تعظیم سے انکار، اور ان کی گستاخی کا ارتکاب ابلیس نے کیا جس کی سزا میں تمام تر عبادت اور مقام و مرتبہ کے باوجود مردود و ملعون ہوا اور روز قیامت ہمیشہ کے لئے عذاب جہنم کا حقدار ٹھہرا۔اس سے معلوم ہوا کہ نبی کی تعظیم کرنا فرشتوں کا مبارک عمل ہے جس پر عمل کرنے والا فرشتوں کی سیرت پر عمل پیرا ہے جب کہ نبی کی بے ادبی،گستاخی اور توہین کرنا ابلیس کا کام ہے اور گستاخ و بے ادب لوگ شیطان کے پیروکار ہیں۔یہ مسئلہ ہمیشہ ذہن نشین رکھیں کہ نبی کی تعظیم و توقیر فرض ہے اور ان کی ادنی توہین، گستاخی اور ان جھٹلانا کفر ہے۔اللہ پاک ہمیں اپنے نبیوں،ولیوں کا با ادب رکھے اور بے ادبوں کی صحبت و شر سے ہمیشہ محفوظ فرمائے،قرآن کریم میں ارشاد ہے:قَالَ مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَؕ-قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُۚ-خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ(۱۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: فرمایا کس چیز نے تجھے روکا کہ تو نے سجدہ نہ کیا جب میں نے تجھے حکم دیا تھا بولا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اُسے مٹی سے بنایا۔(پ ، الاعراف:12)

درس و نصیحت:اللہ پاک کے انبیائے کرام علیہم السّلام کی گستاخی ایسا بڑا جرم ہے جس کی سزا میں زندگی بھر کی عبادت و ریاضت برباد ہوجاتی ہے۔ابلیس جیسے انتہائی عبادت گزار کا انجام اس کی عبرت انگیز مثال ہے!


اللہ پاک نے مختلف زمانوں میں مختلف انبیائے کرام علیہم السلام بھیجے اور ان کو مختلف معجزات و واقعات دیےاور ان سے ہمیں کچھ نصیحتیں ملتی ہیں اسی طرح حضرت آدم علیہ السّلام کو بھی معجزات و واقعات دیے اور ہمیں ان سے بھی کچھ سبق اور نصیحتیں ملتی ہیں۔

(1) مؤمن اور گناہ: مومن بندے سے جب کوئی گناہ سرزد ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے حیا کرتا ہے، پھر اَلحمدُ للہ! وہ یہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ اس سے نکلنے کی راہ کیا ہے تووہ جان لیتا ہے کہ اس سے نکلنے کی راہ استغفار اور توبہ کرنا ہے، لہٰذا توبہ کرنے سے کوئی آدمی بھی شرم محسوس نہ کرے کیونکہ اگر توبہ نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے کوئی بھی خلاصی اور نجات نہ پا سکے، تمہارے جدِ اعلیٰ(حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام) سے جب لغزش صادر ہوئی تو توبہ کے ذریعے ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرمایا۔(در منثور، الاعراف، تحت الآیۃ: 23، 3/433)

(2)آزمائش اور دنیا:زندگی میں قدم قدم پر آزمائشیں ہیں، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کبھی مرض سے، کبھی جان و مال کی کمی سے، کبھی دشمن کے ڈر خوف سے، کبھی کسی نقصان سے، کبھی آفات و بَلِیّات سے اور کبھی نت نئے فتنوں سے آزماتا ہے اور راہِ دین اور تبلیغِ دین تو خصوصاً وہ راستہ ہے جس میں قدم قدم پر آزمائشیں ہیں، اسی سے فرمانبردار و نافرمان، محبت میں سچے اور محبت کے صرف دعوے کرنے والوں کے درمیان فرق ہوتا ہے۔حضرت نوح عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام پر اکثرقوم کا ایمان نہ لانا، حضرت ابراہیم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کا آگ میں ڈالا جانا، فرزند کو قربان کرنا، حضرت ایوب عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کو بیماری میں مبتلا کیا جانا، ان کی اولاد اور اموال کو ختم کر دیا جانا، حضرت موسیٰ عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کا مصرسے مدین جانا، مصر سے ہجرت کرنا، حضرت عیسیٰ عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کا ستایا جانا اور انبیاء کرام عَلَیہِمُ الصّلوٰۃُ والسّلام کا شہید کیا جانا یہ سب آزمائشوں اور صبر ہی کی مثالیں ہیں اور ان مقدس ہستیوں کی آزمائشیں اور صبر ہر مسلمان کے لئے ایک نمونے کی حیثیت رکھتی ہیں لہٰذا ہر مسلمان کوچاہئے کہ اسے جب بھی کوئی مصیبت آئے اور وہ کسی تکلیف یا اَذِیَّت میں مبتلا ہو تو صبر کرے اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے اور بے صبری کا مظاہرہ نہ کرے۔صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں بہت موٹی سی بات ہے جو ہر شخص جانتا ہے کہ کوئی کتنا ہی غافل ہو مگر جب(اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا وہ کسی مصیبت اور) مرض میں مبتلا ہوتا ہے تو کس قدر خداکو یاد کرتا اور توبہ و استغفار کرتا ہے اور یہ تو بڑے رتبہ والوں کی شان ہے کہ(وہ) تکلیف کا بھی اسی طرح استقبال کرتے ہیں جیسے راحت کا(استقبال کرتے ہیں) مگر ہم جیسے کم سے کم اتنا تو کریں کہ (جب کوئی مصیبت یا تکلیف آئے تو)صبر و استقلال سے کام لیں اور جَزع و فَزع (یعنی رونا پیٹنا) کرکے آتے ہوئے ثواب کو ہاتھ سے نہ (جانے) دیں اور اتنا تو ہر شخص جانتا ہے کہ بے صبری سے آئی ہو ئی مصیبت جاتی نہ رہے گی پھر اس بڑے ثواب(جو احادیث میں بیان کیاگیا ہے) سے محرومی دوہری مصیبت ہے۔(بہار شریعت، کتاب الجنائز، بیماری کا بیان، 1/799)

اور کثیر احادیث میں مسلمان پر مصیبت آنے کا جو ثواب بیان کیا گیا ہے ان میں سے چند احادیث یہ ہیں،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے تکالیف میں مبتلا کرتا ہے۔(بخاری، کتاب المرضی، باب شدۃ المرض، 4/4، حدیث: 5646)

حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مسلمان کو جو تکلیف،رنج، ملال اور اَذِیَّت و غم پہنچے، یہاں تک کہ ا س کے پیر میں کوئی کانٹا ہی چبھے تو اللہ تعالیٰ ان کے سبب اس کے گناہ مٹا دیتا ہے۔(بخاری، کتاب المرضی، باب ما جاء فی کفارۃ المرض، 4/3، حدیث:5641)

آزمائش دنیا کے ساتھ خاص ہے، دنیا کے ہر شخص کو مختلف طریقوں سے آزمائش آتی ہے چاہےوہ دنیا کاعظیم آدمی ہو یا عام انسان ہر کسی کو آزمائش آتی ہے۔

(3)غرور سےبچنے کی نصیحت:

ہمیں غرور نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ غرور ہی تھا جس نے فرشتوں کے سردار کو ابلیس بنایا۔

پیارے اسلامی بھائیو!ہمیں غرور جیسی بیماری سے بچنا چاہیے۔کسی نے کیا خوب لکھا ہے:

چھت کو بہت غرور تھا چھت ہو نے پر ایک منزل اور کیا بنی چھت زمین میں تبدیل ہو گئی

ہمیں غرور اس لیے نہیں کرنا چاہیے کیونکہ غرور آسمان پر پرواز کرتے ہوؤں کو زمین پر لے آتاہے۔

(4)شیطان انسان کاکھلا دشمن:

یاد رہے کہ انسان کے دل میں شیطان وسوسے ڈالتا ہے اور بعض اوقات یہ وسوسے اتنے خطرناک ہوتے ہیں کہ انسان کے لئے اپنا دین و ایمان بچانا مشکل ہوجاتا ہے جیسے شیطان کبھی اللہ تعالیٰ کے بارے میں،کبھی تقدیر کے بارے میں،کبھی ایمانیات کے بارے میں،کبھی عبادات کے بارے میں،کبھی طہارت و پاکیزگی کے معاملات کے بارے میں اور کبھی طلاق کے بارے میں وسوسے ڈالتا رہتا ہے۔

(5)فرشتوں سے مشورہ: یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ اس کو کسی سے مشورہ کی حاجت ہو،البتہ یہاں خلیفہ بنانے کی خبر فرشتوں کوظاہری طور پرمشورے کے انداز میں دی گئی۔اس سے اشارۃً معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اہم کام کرنے سے پہلے اپنے ما تحت افراد سے مشورہ کر لیا جائے تاکہ ا س کام سے متعلق ان کے ذہن میں کوئی خلش ہو تو اس کا ازالہ ہو جائے یا کوئی ایسی مفید رائے مل جائے جس سے وہ کام مزید بہتر انداز سے ہو جائے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بھی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کرنے کا حکم دیا، جیسا کہ سورۂ آل عمرٰن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِۚ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کاموں میں ان سے مشورہ لو۔(آل عمرٰن: 159)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ان نصیحتوں پر عمل کرکےاپنی دنیا و آخرت اچھی بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


الله پاک نے قرآن مجید میں حضرت آدم علیہ السّلام کے واقعہ کا ذکر کئی مقامات پر فرمایا ہے جس سے ہمیں نصیحتیں اور عبرتیں حاصل ہوتی ہیں،لہٰذا یہاں حدیث کی روشنی میں واقعہ حضرت آدم علیہ السّلام سے پانچ قرآنی نصیحتیں بیان کی جائیں گی۔

(1)الله تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام سے فرمایا:وَ قُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَ كُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا۪-وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ(۳۵) فَاَزَلَّهُمَا الشَّیْطٰنُ عَنْهَا فَاَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِیْهِ۪-وَ قُلْنَا اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّۚ-وَ لَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰى حِیْنٍ(۳۶) ترجمۂ کنزالایمان:اور ہم نے فرمایا اے آدم تو اور تیری بی بی اس جنت میں رہو اور کہاؤ اس میں سے بے روک ٹوک جہاں تمہارا جی چاہے مگر اس پیڑ کے پاس نہ جانا کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہوجاؤ گے۔تو شیطان نے جنت سے انہیں لغزش دی اور جہاں رہتے تھے وہاں سے انہیں الگ کردیا اور ہم نے فرمایا نیچے اترو آپس میں ایک تمہارا دوسرے کا دشمن اور تمہیں ایک وقت تک زمین میں ٹھہرنا اور برتنا ہے۔(البقرہ: 35، 36)

نصیحت:ہمیں ہر وقت الله پاک کے حکم کی پاسداری کرنی اور شیطان کے وار سے بچتے رہنا چاہئے۔

ایک اور مقام پر الله پاک نے ارشاد فرمایا: وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍۚ(۲۶) وَ الْجَآنَّ خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ(۲۷) وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ(۲۸) فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ(۲۹) فَسَجَدَ الْمَلٰٓىٕكَةُ كُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَۙ(۳۰) اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰۤى اَنْ یَّكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِیْنَ(۳۱) ترجمۂ کنزالایمان:اور بےشک ہم نے آدمی کو بَجتی ہوئی مٹی سے بنایا جو اصل میں ایک سیاہ بودار گارا تھی۔اور جِنّ کو اس سے پہلے بنایا بے دہوئیں کی آگ سے۔اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں آدمی کو بنانے والا ہوں بجتی مٹی سے جو بدبودار سیاہ گارے سے ہے۔تو جب میں اسے ٹھیک کرلوں اوراس میں اپنی طرف کی خاص معزّز روح پھونک لوں۔تو اس کے لیے سجدے میں گر پڑنا تو جتنے فرشتے تھے سب کے سب سجدے میں گرے۔سوا ابلیس کے اس نے سجدہ والوں کا ساتھ نہ مانا۔(الحجر:26تا31)

اور بلاشبہ یہ واقعہ ہے کہ ہم نے انسان کو خمیر اٹھے ہوئے گارے سے بنایا، جو سوکھ کر بجنے لگتا ہے اور ہم جن کو اس سے پہلے جلتی ہوئی ہوا کی گرمی سے پیدا کرچکے تھے۔اور جب ایسا ہوا تھا کہ تیرے پروردگار نے فرشتوں سے کہا تھا، میں خمیر اٹھے ہوئے گارے سے جو سوکھ کر بجنے لگتا ہے، ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں۔تو جب ایسا ہوا کہ میں اسے درست کردوں اور اس میں روح پھونک دوں تو چاہئے کہ تم سب اس کے آگے سربسجود ہوجاؤ۔چنانچہ جتنے فرشتے تھے سب اس کے آگے سربسجود ہوگئے۔ابلیس نے انکار کیا کہ میں سجدہ کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔

نصیحت:شیطان نے حضرت آدم علیہ السّلام کو تکبر کی وجہ سے سجدہ نہیں کیا تھا،ہمیں تکبر سے بچتے رہنا چاہئے۔

الله پاک نے ارشاد فرمایا: وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ-قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَۚ-وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَؕ-قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۳۰) ترجَمۂ کنزُالایمان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایامیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے اور خونریزیاں کرےاور ہم تجھے سراہتے ہوئے تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے۔(پ1، البقرۃ:31)

نصیحت:ہمیں ہر وقت الله پاک کی حمدوثناء بیان کرتے رہنا چاہئے۔

اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: لَىٕنْۢ بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَكَ لِتَقْتُلَنِیْ مَاۤ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیْكَ لِاَقْتُلَكَۚ-اِنِّیْۤ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ(۲۸) اِنِّیْۤ اُرِیْدُ اَنْ تَبُوْٓءَاۡ بِاِثْمِیْ وَ اِثْمِكَ فَتَكُوْنَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِۚ-وَ ذٰلِكَ جَزٰٓؤُا الظّٰلِمِیْنَۚ(۲۹) فَطَوَّعَتْ لَهٗ نَفْسُهٗ قَتْلَ اَخِیْهِ فَقَتَلَهٗ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(۳۰) فَبَعَثَ اللّٰهُ غُرَابًا یَّبْحَثُ فِی الْاَرْضِ لِیُرِیَهٗ كَیْفَ یُوَارِیْ سَوْءَةَ اَخِیْهِؕ-قَالَ یٰوَیْلَتٰۤى اَعَجَزْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِثْلَ هٰذَا الْغُرَابِ فَاُوَارِیَ سَوْءَةَ اَخِیْۚ-فَاَصْبَحَ مِنَ النّٰدِمِیْنَ(۳۱)ﮊ ترجَمۂ کنزُالایمان:بے شک اگر تو اپنا ہاتھ مجھ پر بڑہائے گا کہ مجھے قتل کرے تو میں اپنا ہاتھ تجھ پر نہ بڑہاؤں گا کہ تجھے قتل کروں میں اللہ سے ڈرتا ہوں جو مالک سارے جہان کا۔میں تو یہ چاہتا ہوں کہ میرا اور تیرا گناہ دونوں تیرے ہی پلہ پڑے تو تو دوزخی ہوجائے اور بے انصافوں کی یہی سزا ہے۔تو اس کے نفس نے اسے بھائی کے قتل کا چاؤ دلایا(قتل پر اُبہارا) تو اُسے قتل کردیا تو رہ گیا نقصان میں۔تو اللہ نے ایک کوّا بھیجا زمین کریدتا کہ اسے دکہائے کیونکر(کس طرح) اپنے بھائی کی لاش چھپائے بولا ہائے خرابی میں اس کوّے جیسا بھی نہ ہوسکا کہ میں اپنے بھائی کی لاش چھپاتا تو پچتاتارہ گیا۔(المآئدۃ:28تا31)

آدم علیہ السّلام کی اولاد بہت ہوئی ان میں سے دو نے ایک مرتبہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی پیش کی اللہ نے ایک کی قربانی قبول فرمائی دوسرے کی نہیں، جس کی قربانی قبول نہیں ہوئی اپنے بھائی سے کہنے لگا میں تجھے ضرور قتل کروں گا۔ بھائی نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ تو متقی لوگوں کی قربانی قبول فرماتا ہے،تم میں تقویٰ نہیں ہے۔ اس لئے تمہاری قربانی قبول نہیں ہوئی اس میں میرا کیا قصور ہے۔بالآخر اس نے اپنے بھائی کو قتل کیا، قتل کرنے کے بعد سمجھ نہیں آیا کہ اپنے مقتول بھائی کی لاش کا کیا کرے، اللہ تعالیٰ نے ایک کوا بھیجا جو زمین پر اتر کر زمین کو کریدنے لگا قاتل بھائی نے کوے سے سیکھا کہ کس طرح اپنے بھائی کی لاش کو چھپائے۔پھر اپنے اس فعل پر بہت نآدم ہوا اور افسوس کیا۔

قاتل کا نام قابیل تھا۔

مقتول کا نام ہابیل تھا۔

قابیل پہلا شخص ہےجس نے بنی آدم میں قتل کو جار ی کیا۔(بخاری،مسلم)

آدم علیہ السّلام بہت روئے اس قتل پر اور افسوس کیا۔

نصیحت:ہمیں قتل اور اس جیسی برائی سے دود رہنا چاہئے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآنی واقعات میں غور و فکر کرنے والا اور ان سے نصیحت حاصل کرنے والا بنائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم