حافظ
محمدقاسم عطاری (درجۂ اولی جامعۃُ المدينہ فيضان ابو عطّار ملير كراچی، پاکستان)
اللہ پاک نے مختلف زمانوں میں مختلف انبیائے کرام علیہم
السلام بھیجے اور ان کو مختلف معجزات و واقعات دیےاور ان سے ہمیں کچھ نصیحتیں ملتی
ہیں اسی طرح حضرت آدم علیہ السّلام کو بھی معجزات و واقعات دیے اور ہمیں ان سے بھی
کچھ سبق اور نصیحتیں ملتی ہیں۔
(1) مؤمن اور گناہ: مومن بندے سے جب کوئی گناہ سرزد ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے حیا کرتا ہے، پھر
اَلحمدُ للہ! وہ یہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ اس سے نکلنے کی راہ کیا ہے تووہ جان
لیتا ہے کہ اس سے نکلنے کی راہ استغفار اور توبہ کرنا ہے، لہٰذا توبہ کرنے سے کوئی
آدمی بھی شرم محسوس نہ کرے کیونکہ اگر توبہ نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے
کوئی بھی خلاصی اور نجات نہ پا سکے، تمہارے جدِ اعلیٰ(حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ
والسّلام) سے جب لغزش صادر ہوئی تو توبہ کے ذریعے ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف
فرمایا۔(در منثور، الاعراف، تحت الآیۃ: 23، 3/433)
(2)آزمائش اور دنیا:زندگی میں قدم قدم پر آزمائشیں ہیں، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کبھی مرض سے،
کبھی جان و مال کی کمی سے، کبھی دشمن کے ڈر خوف سے، کبھی کسی نقصان سے، کبھی آفات
و بَلِیّات سے اور کبھی نت نئے فتنوں سے آزماتا ہے اور راہِ دین اور تبلیغِ دین تو
خصوصاً وہ راستہ ہے جس میں قدم قدم پر آزمائشیں ہیں، اسی سے فرمانبردار و نافرمان،
محبت میں سچے اور محبت کے صرف دعوے کرنے والوں کے درمیان فرق ہوتا ہے۔حضرت نوح
عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام پر اکثرقوم کا ایمان نہ لانا، حضرت ابراہیم عَلَیہِ
الصّلوٰۃُ والسّلام کا آگ میں ڈالا جانا، فرزند کو قربان کرنا، حضرت ایوب عَلَیہِ
الصّلوٰۃُ والسّلام کو بیماری میں مبتلا کیا جانا، ان کی اولاد اور اموال کو ختم
کر دیا جانا، حضرت موسیٰ عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کا مصرسے مدین جانا، مصر سے
ہجرت کرنا، حضرت عیسیٰ عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کا ستایا جانا اور انبیاء کرام
عَلَیہِمُ الصّلوٰۃُ والسّلام کا شہید کیا جانا یہ سب آزمائشوں اور صبر ہی کی مثالیں
ہیں اور ان مقدس ہستیوں کی آزمائشیں اور صبر ہر مسلمان کے لئے ایک نمونے کی حیثیت
رکھتی ہیں لہٰذا ہر مسلمان کوچاہئے کہ اسے جب بھی کوئی مصیبت آئے اور وہ کسی تکلیف
یا اَذِیَّت میں مبتلا ہو تو صبر کرے اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے اور بے
صبری کا مظاہرہ نہ کرے۔صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
بہت موٹی سی بات ہے جو ہر شخص جانتا ہے کہ کوئی کتنا ہی غافل ہو مگر جب(اسے کوئی
تکلیف پہنچتی ہے یا وہ کسی مصیبت اور) مرض میں مبتلا ہوتا ہے تو کس قدر خداکو یاد
کرتا اور توبہ و استغفار کرتا ہے اور یہ تو بڑے رتبہ والوں کی شان ہے کہ(وہ) تکلیف
کا بھی اسی طرح استقبال کرتے ہیں جیسے راحت کا(استقبال کرتے ہیں) مگر ہم جیسے کم
سے کم اتنا تو کریں کہ (جب کوئی مصیبت یا تکلیف آئے تو)صبر و استقلال سے کام لیں
اور جَزع و فَزع (یعنی رونا پیٹنا) کرکے آتے ہوئے ثواب کو ہاتھ سے نہ (جانے) دیں
اور اتنا تو ہر شخص جانتا ہے کہ بے صبری سے آئی ہو ئی مصیبت جاتی نہ رہے گی پھر اس
بڑے ثواب(جو احادیث میں بیان کیاگیا ہے) سے محرومی دوہری مصیبت ہے۔(بہار شریعت،
کتاب الجنائز، بیماری کا بیان، 1/799)
اور کثیر احادیث میں مسلمان پر مصیبت آنے کا جو ثواب بیان
کیا گیا ہے ان میں سے چند احادیث یہ ہیں،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے تکالیف میں مبتلا کرتا
ہے۔(بخاری، کتاب المرضی، باب شدۃ المرض، 4/4، حدیث: 5646)
حضرت ابو سعید خدری
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مسلمان کو جو تکلیف،رنج، ملال اور اَذِیَّت و غم پہنچے، یہاں
تک کہ ا س کے پیر میں کوئی کانٹا ہی چبھے تو اللہ تعالیٰ ان کے سبب اس کے گناہ مٹا
دیتا ہے۔(بخاری، کتاب المرضی، باب ما جاء فی کفارۃ المرض، 4/3، حدیث:5641)
آزمائش دنیا کے ساتھ خاص ہے، دنیا کے ہر شخص کو مختلف طریقوں
سے آزمائش آتی ہے چاہےوہ دنیا کاعظیم آدمی ہو یا عام انسان ہر کسی کو آزمائش آتی
ہے۔
(3)غرور سےبچنے کی نصیحت:
ہمیں غرور نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ غرور ہی تھا جس نے
فرشتوں کے سردار کو ابلیس بنایا۔
پیارے اسلامی بھائیو!ہمیں غرور جیسی بیماری سے بچنا چاہیے۔کسی
نے کیا خوب لکھا ہے:
چھت کو بہت غرور تھا چھت ہو نے پر ایک منزل اور
کیا بنی چھت زمین میں تبدیل ہو گئی
ہمیں غرور اس لیے نہیں کرنا چاہیے کیونکہ غرور آسمان پر
پرواز کرتے ہوؤں کو زمین پر لے آتاہے۔
(4)شیطان انسان کاکھلا دشمن:
یاد رہے کہ انسان کے دل میں شیطان وسوسے ڈالتا ہے اور بعض
اوقات یہ وسوسے اتنے خطرناک ہوتے ہیں کہ انسان کے لئے اپنا دین و ایمان بچانا مشکل
ہوجاتا ہے جیسے شیطان کبھی اللہ تعالیٰ کے بارے میں،کبھی تقدیر کے بارے میں،کبھی ایمانیات
کے بارے میں،کبھی عبادات کے بارے میں،کبھی طہارت و پاکیزگی کے معاملات کے بارے میں
اور کبھی طلاق کے بارے میں وسوسے ڈالتا رہتا ہے۔
(5)فرشتوں سے مشورہ: یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ اس کو کسی سے مشورہ کی حاجت
ہو،البتہ یہاں خلیفہ بنانے کی خبر فرشتوں کوظاہری طور پرمشورے کے انداز میں دی گئی۔اس
سے اشارۃً معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اہم کام کرنے سے پہلے اپنے ما تحت افراد سے مشورہ
کر لیا جائے تاکہ ا س کام سے متعلق ان کے ذہن میں کوئی خلش ہو تو اس کا ازالہ ہو
جائے یا کوئی ایسی مفید رائے مل جائے جس سے وہ کام مزید بہتر انداز سے ہو جائے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کو بھی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کرنے کا حکم دیا، جیسا کہ سورۂ آل عمرٰن
میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ
شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِۚ- ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور کاموں میں ان سے مشورہ لو۔(آل عمرٰن: 159)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ان نصیحتوں پر عمل کرکےاپنی دنیا
و آخرت اچھی بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم