الله پاک نے قرآن مجید میں حضرت آدم علیہ السّلام کے واقعہ کا ذکر کئی مقامات پر فرمایا ہے جس سے ہمیں نصیحتیں اور عبرتیں حاصل ہوتی ہیں،لہٰذا یہاں حدیث کی روشنی میں واقعہ حضرت آدم علیہ السّلام سے پانچ قرآنی نصیحتیں بیان کی جائیں گی۔

(1)الله تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام سے فرمایا:وَ قُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَ كُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا۪-وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ(۳۵) فَاَزَلَّهُمَا الشَّیْطٰنُ عَنْهَا فَاَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِیْهِ۪-وَ قُلْنَا اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّۚ-وَ لَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰى حِیْنٍ(۳۶) ترجمۂ کنزالایمان:اور ہم نے فرمایا اے آدم تو اور تیری بی بی اس جنت میں رہو اور کہاؤ اس میں سے بے روک ٹوک جہاں تمہارا جی چاہے مگر اس پیڑ کے پاس نہ جانا کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہوجاؤ گے۔تو شیطان نے جنت سے انہیں لغزش دی اور جہاں رہتے تھے وہاں سے انہیں الگ کردیا اور ہم نے فرمایا نیچے اترو آپس میں ایک تمہارا دوسرے کا دشمن اور تمہیں ایک وقت تک زمین میں ٹھہرنا اور برتنا ہے۔(البقرہ: 35، 36)

نصیحت:ہمیں ہر وقت الله پاک کے حکم کی پاسداری کرنی اور شیطان کے وار سے بچتے رہنا چاہئے۔

ایک اور مقام پر الله پاک نے ارشاد فرمایا: وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍۚ(۲۶) وَ الْجَآنَّ خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ(۲۷) وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ(۲۸) فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ(۲۹) فَسَجَدَ الْمَلٰٓىٕكَةُ كُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَۙ(۳۰) اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰۤى اَنْ یَّكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِیْنَ(۳۱) ترجمۂ کنزالایمان:اور بےشک ہم نے آدمی کو بَجتی ہوئی مٹی سے بنایا جو اصل میں ایک سیاہ بودار گارا تھی۔اور جِنّ کو اس سے پہلے بنایا بے دہوئیں کی آگ سے۔اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں آدمی کو بنانے والا ہوں بجتی مٹی سے جو بدبودار سیاہ گارے سے ہے۔تو جب میں اسے ٹھیک کرلوں اوراس میں اپنی طرف کی خاص معزّز روح پھونک لوں۔تو اس کے لیے سجدے میں گر پڑنا تو جتنے فرشتے تھے سب کے سب سجدے میں گرے۔سوا ابلیس کے اس نے سجدہ والوں کا ساتھ نہ مانا۔(الحجر:26تا31)

اور بلاشبہ یہ واقعہ ہے کہ ہم نے انسان کو خمیر اٹھے ہوئے گارے سے بنایا، جو سوکھ کر بجنے لگتا ہے اور ہم جن کو اس سے پہلے جلتی ہوئی ہوا کی گرمی سے پیدا کرچکے تھے۔اور جب ایسا ہوا تھا کہ تیرے پروردگار نے فرشتوں سے کہا تھا، میں خمیر اٹھے ہوئے گارے سے جو سوکھ کر بجنے لگتا ہے، ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں۔تو جب ایسا ہوا کہ میں اسے درست کردوں اور اس میں روح پھونک دوں تو چاہئے کہ تم سب اس کے آگے سربسجود ہوجاؤ۔چنانچہ جتنے فرشتے تھے سب اس کے آگے سربسجود ہوگئے۔ابلیس نے انکار کیا کہ میں سجدہ کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔

نصیحت:شیطان نے حضرت آدم علیہ السّلام کو تکبر کی وجہ سے سجدہ نہیں کیا تھا،ہمیں تکبر سے بچتے رہنا چاہئے۔

الله پاک نے ارشاد فرمایا: وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ-قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَۚ-وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَؕ-قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۳۰) ترجَمۂ کنزُالایمان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایامیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے اور خونریزیاں کرےاور ہم تجھے سراہتے ہوئے تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے۔(پ1، البقرۃ:31)

نصیحت:ہمیں ہر وقت الله پاک کی حمدوثناء بیان کرتے رہنا چاہئے۔

اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: لَىٕنْۢ بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَكَ لِتَقْتُلَنِیْ مَاۤ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیْكَ لِاَقْتُلَكَۚ-اِنِّیْۤ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ(۲۸) اِنِّیْۤ اُرِیْدُ اَنْ تَبُوْٓءَاۡ بِاِثْمِیْ وَ اِثْمِكَ فَتَكُوْنَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِۚ-وَ ذٰلِكَ جَزٰٓؤُا الظّٰلِمِیْنَۚ(۲۹) فَطَوَّعَتْ لَهٗ نَفْسُهٗ قَتْلَ اَخِیْهِ فَقَتَلَهٗ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(۳۰) فَبَعَثَ اللّٰهُ غُرَابًا یَّبْحَثُ فِی الْاَرْضِ لِیُرِیَهٗ كَیْفَ یُوَارِیْ سَوْءَةَ اَخِیْهِؕ-قَالَ یٰوَیْلَتٰۤى اَعَجَزْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِثْلَ هٰذَا الْغُرَابِ فَاُوَارِیَ سَوْءَةَ اَخِیْۚ-فَاَصْبَحَ مِنَ النّٰدِمِیْنَ(۳۱)ﮊ ترجَمۂ کنزُالایمان:بے شک اگر تو اپنا ہاتھ مجھ پر بڑہائے گا کہ مجھے قتل کرے تو میں اپنا ہاتھ تجھ پر نہ بڑہاؤں گا کہ تجھے قتل کروں میں اللہ سے ڈرتا ہوں جو مالک سارے جہان کا۔میں تو یہ چاہتا ہوں کہ میرا اور تیرا گناہ دونوں تیرے ہی پلہ پڑے تو تو دوزخی ہوجائے اور بے انصافوں کی یہی سزا ہے۔تو اس کے نفس نے اسے بھائی کے قتل کا چاؤ دلایا(قتل پر اُبہارا) تو اُسے قتل کردیا تو رہ گیا نقصان میں۔تو اللہ نے ایک کوّا بھیجا زمین کریدتا کہ اسے دکہائے کیونکر(کس طرح) اپنے بھائی کی لاش چھپائے بولا ہائے خرابی میں اس کوّے جیسا بھی نہ ہوسکا کہ میں اپنے بھائی کی لاش چھپاتا تو پچتاتارہ گیا۔(المآئدۃ:28تا31)

آدم علیہ السّلام کی اولاد بہت ہوئی ان میں سے دو نے ایک مرتبہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی پیش کی اللہ نے ایک کی قربانی قبول فرمائی دوسرے کی نہیں، جس کی قربانی قبول نہیں ہوئی اپنے بھائی سے کہنے لگا میں تجھے ضرور قتل کروں گا۔ بھائی نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ تو متقی لوگوں کی قربانی قبول فرماتا ہے،تم میں تقویٰ نہیں ہے۔ اس لئے تمہاری قربانی قبول نہیں ہوئی اس میں میرا کیا قصور ہے۔بالآخر اس نے اپنے بھائی کو قتل کیا، قتل کرنے کے بعد سمجھ نہیں آیا کہ اپنے مقتول بھائی کی لاش کا کیا کرے، اللہ تعالیٰ نے ایک کوا بھیجا جو زمین پر اتر کر زمین کو کریدنے لگا قاتل بھائی نے کوے سے سیکھا کہ کس طرح اپنے بھائی کی لاش کو چھپائے۔پھر اپنے اس فعل پر بہت نآدم ہوا اور افسوس کیا۔

قاتل کا نام قابیل تھا۔

مقتول کا نام ہابیل تھا۔

قابیل پہلا شخص ہےجس نے بنی آدم میں قتل کو جار ی کیا۔(بخاری،مسلم)

آدم علیہ السّلام بہت روئے اس قتل پر اور افسوس کیا۔

نصیحت:ہمیں قتل اور اس جیسی برائی سے دود رہنا چاہئے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآنی واقعات میں غور و فکر کرنے والا اور ان سے نصیحت حاصل کرنے والا بنائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم