اللہ پاک نے لوگوں کی ہدایت کے لئے کئی انبیائے کرام بھیجے جن میں سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السّلام کو بھیجا اور ان کا تذکرہ قرآن پاک میں بھی آیا ہے۔ پانچ قرآنی نصیحتیں درج ذیل ہیں:

(1)آدم کی تخلیق سے پہلے فرشتوں کو سجدے کی تاکید:جب اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کی تخلیق کا ارادہ فرمایا تو فرشتوں کو اس کی پیشگی خبر دینے کے ساتھ ساتھ یہ تاکید بھی کردی کہ تخلیق مکمّل ہونے اور روح پھونکے جانے کے بعد فرشتے انہیں سجدہ کریں،جیسا کہ سورۂ صٓ میں ارشاد فرمایا: اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ(۷۱) فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ(۷۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں مٹی سے انسان بناؤں گا۔پھر جب میں اسے ٹھیک بنالوں اور اس میں اپنی طرف کی روح پھونکوں تو تم اس کے لیے سجدے میں گرنا۔(پ23، صٓ:71، 72)

درس و نصیحت:فرشتوں نے کسی پس و پیش کے بغیر حکمِ الٰہی پر فوری عمل کرتے ہوئے حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ کیا جب کہ شیطان نے حکمِ الٰہی کو عقل کے ترازو میں تولا، اسے عقل کے خلاف جانا اور اس پر عمل نہ کر کے بربادی کا شکار ہوا۔اس سے معلوم ہوا کے حکمِ الٰہی کو من و عن چوں چراں کے بغیر تسلیم کرنا ضروری ہے۔حکمِ الٰہی کے مقابلے میں اپنی عقل استعمال کرنا،اپنی فہم و فراست کے پیمانے میں تول کر اس کے درست ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنا اور مخالف عقل جان کر عمل سے منہ پھیر لینا کفر کی دلدل میں دھکیل سکتا ہے۔

(2)غرور نہ کرنا:حضرت آدم علیہ السّلام کی تخلیق مکمّل ہونے اور ان میں روح پھونکے جانے کے بعد تمام فرشتوں نے حضرت آدم کو ایک ساتھ سجدہ کیا لیکن ابلیس نے سجدہ نہ کیا اور تکبّر کے طور پر یہ سمجھتا رہا کے وہ آپ سے افضل ہے جیسا کے سورۂ بقرہ میں ارشاد ہے:وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا۔(پارہ:01،سورۃالبقرہ،آیت:34)

درس و نصیحت: ابلیس سے سر زد ہونے والے گناہوں میں بنیادی گناہ تکبّر تھا۔حدیث پاک میں ہے تکبّر حق بات جھٹلانے اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔تکبّر کبیرہ گناہ ہے اور جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبّر ہوگا وہ جنّت میں داخل نہ ہوگا اور متکبروں کو قیامت کے دن لوگ اپنے پاؤں سے روندیں گے۔

(3)حضرت آدم علیہ السّلام کی توبہ کے کلمات اور قبولیت توبہ: حضرت آدم علیہ السّلام کی ایک عرصہ دراز تک گریہ و ذاری کے بعد اللہ پاک نے انہیں توبہ کے کچھ کلمات الہام فرمائے اور جب آپ علیہ السّلام نے ان کلمات کے ذریعے توبہ کی تو اللہ پاک نے اسے قبول فرمالیا، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ علیہؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۳۷) ترجمۂ کنز الایمان:پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بے شک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔(پارہ:01، سورۃالبقرۃ،آیت:37)

درس و نصیحت: حضرت آدم علیہ السّلام نے اپنی لغزش کے بعد جس طرح دعا فرمائی اس میں مسلمانوں کر لئے یہ تربیت ہے کہ جب ان سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو وہ اللہ پاک کی بارگاہ میں اپنے گناہ پر ندامت کا اظہار کریں اور مغفرت و رحمت کا عاجزی سے گڑگڑا کر سوال کریں۔

(4)علم کی فضیلت: تخلیق کے بعد ایک موقع پر اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کے سامنے اشیاء پیش فرمائی اور بطور الہام آپ علیہ السّلام کو ان کے نام،کام،صفات،خصوصیات، علوم اور صنعتیں سکھادیں۔پھر یہ تمام چیزیں فرشتوں کے سامنے پیش کر کے فرمایا:اگر تم اپنے اس خیال میں سچے ہو کہ تم سے زیادہ علم والی مخلوق نہیں اور خلافت کے مستحق تم ہی ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ(کیونکہ خلیفہ کا کام اختیار استعمال کرنا،کاموں کی تدبیر کرنا اور عدل و انصاف کرنا ہے اور یہ اس کے بغیر ممکن نہیں کہ خلیفہ کو وہ تمام چیزیں معلوم ہوں جس پر اسے اختیار دیا گیا اور جن کا اسے فیصلہ کرنا ہے) قرآن کریم میں ہے: وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔(پ1، البقرۃ:31)

درس و نصیحت:حضرت آدم علیہ السّلام کو جو فرشتوں پر فضیلت عطا ہوئی اس کا ظاہری سبب ان کا علم تھا،اس سے معلوم ہوا کہ علم خلوتوں اور تنہائیوں کی عبادتوں سےافضل ہے۔ اشیاء کے نام معلوم نہ ہونے پر فرشتوں نے اپنی لا علمی کا اعتراف کرلیا۔اس میں ہر صاحب علم بلکہ ہر مسلمان کے لئے یہ نصیحت ہےکہ جو بات معلوم نہ ہو اس کے بارے میں لا علمی کا صاف اظہار کردیا جائے،لوگوں کی ملامت سے ڈر کر یا عزت و شان کم ہونے کے خوف سے کبھی کوئی بات گھڑ کر بیان نہ کریں!

(5)تعظیم نبی کی برکت اور توہین نبی کا انجام: کائنات میں سب سے پہلے نبی کی تعظیم فرشتوں نے کی اور بارگاہ الٰہی میں مزید قرب سے سرفراز ہوئے جب کہ سب سے پہلے نبی کی تعظیم سے انکار، اور ان کی گستاخی کا ارتکاب ابلیس نے کیا جس کی سزا میں تمام تر عبادت اور مقام و مرتبہ کے باوجود مردود و ملعون ہوا اور روز قیامت ہمیشہ کے لئے عذاب جہنم کا حقدار ٹھہرا۔اس سے معلوم ہوا کہ نبی کی تعظیم کرنا فرشتوں کا مبارک عمل ہے جس پر عمل کرنے والا فرشتوں کی سیرت پر عمل پیرا ہے جب کہ نبی کی بے ادبی،گستاخی اور توہین کرنا ابلیس کا کام ہے اور گستاخ و بے ادب لوگ شیطان کے پیروکار ہیں۔یہ مسئلہ ہمیشہ ذہن نشین رکھیں کہ نبی کی تعظیم و توقیر فرض ہے اور ان کی ادنی توہین، گستاخی اور ان جھٹلانا کفر ہے۔اللہ پاک ہمیں اپنے نبیوں،ولیوں کا با ادب رکھے اور بے ادبوں کی صحبت و شر سے ہمیشہ محفوظ فرمائے،قرآن کریم میں ارشاد ہے:قَالَ مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَؕ-قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُۚ-خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ(۱۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: فرمایا کس چیز نے تجھے روکا کہ تو نے سجدہ نہ کیا جب میں نے تجھے حکم دیا تھا بولا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اُسے مٹی سے بنایا۔(پ ، الاعراف:12)

درس و نصیحت:اللہ پاک کے انبیائے کرام علیہم السّلام کی گستاخی ایسا بڑا جرم ہے جس کی سزا میں زندگی بھر کی عبادت و ریاضت برباد ہوجاتی ہے۔ابلیس جیسے انتہائی عبادت گزار کا انجام اس کی عبرت انگیز مثال ہے!