ابتدائی طور پر قرآن پاک چار حصوں پر مشتمل ہے۔احکام، امثال، واقعات اور وعظ و نصیحت۔قرآن کریم میں ایسے کئی واقعات ہیں کہ جن کے ذریعے اللہ کریم نے انسانوں کو نصیحتیں فرمائی جو ہمیں ان واقعات میں تھوڑے سے غورو فکر کے بعد معلوم ہو جاتیں ہیں۔اسی طرح حضرت آدم علیہ السّلام کے واقعے میں بھی اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو متعدد نصیحتیں فرمائی ہیں۔آئیے ان میں سے چند ہم بھی پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔

تکبر نہ کرنا: خود کو افضل دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے۔(باطنی گناہوں کی معلومات، ص 275) حدیث پاک میں تکبر کی تعریف اس طرح بیان کی گئی ہے، چنانچہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔(مسلم، کتاب الایمان باب تحریم الكبر و بيانہ، ص 61، حدیث147) اسی طرح ابلیس شیطان نے بھی حضرت آدم سے تکبر کیا اور آپ کو سجدہ نہ کیا اور کہا کہ اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُۚ-خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ(۱۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اُسے مٹی سے بنایا۔(پ8، الاعراف:12)

رب تعالیٰ نے جن کاموں کا حکم دیا انہیں بجا لانا:یہ کام سعادت ابدیہ کا موجب ہے اس پر عمل کرنے سے دین و دنیا کی بے شمار بھلائیاں ہاتھ آتی ہیں جبکہ اس کے برعکس رب تعالیٰ کا حکم نہ ماننا شقاوت ابدیہ کا موجب ہے۔ جیسے شیطان لعین نے حضرت آدم کو سجدہ کرنے میں اللہ تعالیٰ کا حکم نہ مانا تو اللہ پاک نے اسے قیامت تک ذلیل و رسوا ہونے کے لئے چھوڑ دیا جس کا تذکرہ قرآن پاک میں اس طرح ہے: قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا فَمَا یَكُوْنُ لَكَ اَنْ تَتَكَبَّرَ فِیْهَا فَاخْرُجْ اِنَّكَ مِنَ الصّٰغِرِیْنَ(۱۳) ترجَمۂ کنزُالایمان:فرمایا تو یہاں سے اُتر جا تجھے نہیں پہنچتا کہ یہاں رہ کر غرور کرے نکل تو ہے ذلت والوں میں۔(پ8، الاعراف:13) یعنی انسان تیری مذمت کرے گا اور ہر زبان تجھ پر لعنت کرے گی اور یہی تیراانجام ہے۔

توبہ و استغفار کی کثرت کرنا: استغفار کا مطلب ہے مغفرت طلب کرنا۔جس طرح توبہ گناہوں کی معافی کا سبب ہے ویسے ہی توبہ و استغفار مقبول بارگاہ رب باری بننے کا سبب بھی ہے۔قرآن پاک میں بھی تو بہ و استغفار کی ترغیب دی گئی ہے۔اسی طرح حضرت آدم کی توبہ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ پاک قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے: فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ علیہؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۳۷) ترجمۂ کنز الایمان:پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بے شک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔(پ1، البقرۃ:37)

ہدایت قبول کرنا: ہدایت قبول کرنا ایسا کام ہے جس کے ذریعے انسان بہت سی خرابیوں سے بچ جاتا ہے۔ہدایت قبول کرنا انسان کو راہِ راست پر لے آتا ہے جبکہ اس کا بر عکس (ہدایت قبول نہ کرنا) انسان کو راہِ راست سے ہٹا دیتا ہے۔اللہ تعالیٰ کی ہدایت قبول کرنے والےپر نہ تو قیامت کی گھبراہٹ طاری ہوگی اور نہ ہی وہ قیامت میں غمگین ہو گا۔اللہ پاک ہدایت قبول کرنے کی ترغیب دلاتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّنِّیْ هُدًى فَمَنْ تَبِـعَ هُدَایَ فَلَا خَوْفٌ علیہمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(۳۸) ترجمۂ کنز الایمان: پھر اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کا پیرو ہوا اسے نہ کوئی اندیشہ نہ کچھ غم۔(پ1، البقرۃ:37)

شیطان لعین کے ہر وار سے بچنے کی کوشش کرنا: اللہ پاک نے قرآن کریم میں فرمایا کہ شیطان انسان کا دشمن ہے اور یہ لعین انسان کا ایسا دشمن ہے کہ جو انسان کا مال و متاع اور جان نہیں بلکہ اس کی سب سے قیمتی چیز جو تمام سعادتوں کی شرط اول ہے اور جس کے بغیر انسان جنت میں جانے کے بجائے جہنم کی آگ کا ایندھن بن کر رہ جاتا ہےایمان لے لیتا ہے اور انسان کو کفر کے گہرے اندھیروں میں پھینک دیتا ہے جہاں ذلت و رسوائی اور حسرت کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَۙ(۸۲) اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِیْنَ(۸۳) ترجَمۂ کنزُالایمان:بولا تو تیری عزت کی قسم ضرور میں ان سب کو گمراہ کردوں گا۔مگر جو ان میں تیرے چنے ہوئے بندے ہیں۔(پ23، صٓ:82، 83)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں نصیحت و عبرت حاصل کرنے اور قرآن پاک کی کثرت سے تلاوت کرنے والا بنائے اور ہم سب کی بے حساب مغفرت فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم