قرآن کریم کا کافی حصہ سابقہ انبیائے کرام علیہم السّلام اور ان کی قوموں کے واقعات پر مشتمل ہے جن سے ہم وعظ و نصیحت حاصل کرسکتے ہیں بلکہ ایک مقام پر فرمایا: لَقَدْ كَانَ فِیْ قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّاُولِی الْاَلْبَابِؕ-ترجَمۂ کنز الایمان: بےشک ان کی خبروں سے عقل مندوں کی آنکھیں کُھلتی ہیں۔(پ13، یوسف:111) انہی واقعات میں سے چند واقعات حضرت آدم علیہ السّلام کے بھی بیان کئے گئے ہیں، آئیے! ان واقعات سے کچھ وعظ و نصیحت حاصل کرتے ہیں۔

وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے۔

اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کو ساری چیزوں کا علم عطا کرکے فرشتوں پر فضیلت عطا فرمائی، اس سے معلوم ہوا کہ علم خلوتوں اور تنہائیوں کی عبادت سے افضل ہے۔

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھ سے ارشاد فرمایا:اے ابو ذر! تمہاراا س حال میں صبح کرنا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب سے ایک آیت سیکھی ہو،یہ تمہارے لئے 100 رکعتیں نفل پڑھنے سے بہتر ہے اورتمہارا اس حال میں صبح کرنا کہ تم نے علم کا ایک باب سیکھا ہوجس پر عمل کیا گیا ہو یا نہ کیا گیاہو،تو یہ تمہارے لئے 1000نوافل پڑھنے سے بہتر ہے۔(ابن ماجہ،کتاب السنّۃ، باب فی فضل من تعلّم القرآن وعلّمہ، حدیث نمبر۲۱۹)

وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو۔(پ1،البقرۃ:34)

اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو یہ حکم دیاکہ وہ حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کو سجدہ کریں،اس سے معلوم ہوا کہ حضرت آدم علیہ السّلام فرشتوں سے افضل ہیں اور انبیاء کرام فرشتوں سے افضل ہیں کیونکہ سجدے میں انتہائی تواضع ہوتی ہے اور کسی کے سامنے انتہائی تواضع وہی کرے گا جو اس سے کم مرتبے والا ہو۔

فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان: سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا۔(پ1،البقرۃ:34)

علامہ اسماعیل حقی رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں: جب ابلیس نے حضرت آدم علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کا انعام واکرام دیکھا تو وہ ان سے حسد کرنے لگا اور اس حسد کی بنا پر وہ آپ علیہ السّلام کادشمن بن گیا۔اس سے معلوم ہوا کہ جسے کسی سے حسد ہو تو وہ اس کا دشمن بن جاتا ہے، اس کی ہلاکت چاہتا اور اسے خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔(سیرت الانبیاء، صفحہ 103)

یہ بھی معلوم ہوا کہ حسد شیطانی کام ہے اور یہی وہ پہلا گناہ ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی گئی۔

حسد کی تعریف یہ ہے کہ کسی کی دینی یا د نیادی نعمت کے زوال (یعنی چھن جانے کی تمنا کرنا یا یہ خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ یہ نعمت نہ ملے۔ حسد اتنی خطر ناک باطنی بیماری ہے کہ اس سے ایمان جیسی عظیم دولت چھن جانے کے خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس مذموم باطنی بیماری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ ترجمۂ کنزالایمان: مگر اس پیڑ کے پاس نہ جانا۔(پ1، البقرۃ: 35)

برائی کے اسباب کی روک تھام: حضرت آدم علیہ السلام کو اصل ممانعت درخت کا پھل کھانے کی تھی لیکن اس کے لئے فرمایا: اس درخت کے قریب نہ جانا۔ اس طرز خطاب سے علماء نے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ اصل فعل کے ارتکاب سے بچانے کے لیے اس کے قریب جانے یا قریب لیجانے والی چیزوں سے بھی روکا جاتا ہے۔علمی اصطلاح میں اسے سدّ ذرائع یعنی برائی کے اسباب کی روک تھام کہتے ہیں۔(سیرت الانبیاء، صفحہ 107)

ہمیں بھی چاہیے کہ جتنا ہم سے ممکن ہو ہم برائی کے اسباب کوہی کم کریں تاکہ معاشرے میں نیک ماحول پیدا ہو اللہ پاک دعوت اسلامی کو سلامت رکھے الحمد للہ دعوت اسلامی نے برائی کےہر موڑ پر سد باب کی کوشش کی ہے اور کر رہی ہے۔

حضرت آدم علیہ السّلام کی عصمت: حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام نے جان بوجھ کر ممنوعہ درخت سے نہیں کھایا بلکہ اس کی وجہ اللہ تعالیٰ کا حکم یاد نہ رہنا تھا اور جو کام سہواً ہو وہ نہ گناہ ہوتا ہے اور نہ ہی اس پر کوئی مُؤاخذہ ہوتا ہے۔

وَ لَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا۠(۱۱۵) ترجَمۂ کنز الایمان: اور ہم نے اس کا قصد نہ پایا۔(پ16، طہ:115)

اسی آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ آیت ِ مبارکہ حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کی عِصمت کو بڑے واضح طور پر بیان کرتی ہے کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام بھول گئے تھے اور ان کا نافرمانی کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔(صراط الجنان)

اللہ پاک ان واقعات سے ہمیں درس و نصیحت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم