اللہ پاک نے انسانوں کی راہنمائی کے لئے بے شمار انبیاء کرام کو اپنا نائب بنا کر اس دنیا میں بھیجا انہی انبیاء کرام میں سے حضرت آدم علیہ السلام بھی ہیں جو کہ سب سے پہلے نبی اور انسان تھے ان کی زندگی میں بہت سے واقعات رونما ہوئے جن کا ذکر قرآن پاک میں بہت سی سورتوں میں بھی ملتا ہے جو انسانوں کے لیے مشعل راہ ہے ان کی زندگی کےواقعات میں سے چند واقعات جن سے انسانوں کو بہت سی نصیحتیں ملتی ہیں وہ درج ذیل ہیں:

جب اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کی تخلیق کاارادہ فرمایا تو فرشتوں سے مشورے کے انداز میں کلام فرمایا جو کہ قرآن پاک میں کچھ اس طرح ہے:وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایامیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔

زمین میں خلیفہ بنانے کی خبر سن کر فرشتوں نےبارگاہ الٰہی میں عرض کی وہ قرآن پاک میں یوں ہے: قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَۚ-وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَؕ-قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۳۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے اور خونریزیاں کرےاور ہم تجھے سراہتے ہوئے تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے۔

فرشتوں کی عرض کے جواب میں اللہ پاک نے فرمایا: قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۳۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے۔(پ1، البقرۃ:30)

(1)نصیحت: تخلیق آدم سے پہلے اللہ پاک نے فرشتوں سےمشورے کے انداز میں کلام فرمایا اس میں ہمارے لیے یہ تعلیم ہےکہ ہم بھی جب کوئی اہم کام کریں تو پہلے اپنے ماتحت افراد سے مشورہ کر لیا کریں اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہمیں کوئی اچھی رائے مل سکتی ہے جس سے کام اور زیادہ بہتر طریقے سے ہو سکتا ہے۔

اس کے بعد اللہ پاک نے حضرت آدم کی تخلیق فرمانے کے بعد روح پھونکی تو انہیں چھینک آئی۔چھینک آنے پر حضرت آدم علیہ السّلام کا حمد الٰہی کرنا اللہ تعالیٰ کی توفیق، تعلیم اور اس کے حکم سے تھا۔فرشتوں کے سامنے حضرت آدم علیہ السّلام کی فضیلت کا اظہار کرنے کے لئے تخلیق کے بعد اللہ پاک نے حضرت آدم کو تمام اشیاء کے نام سیکھائے اور پھر تمام چیزیں فرشتوں کے سامنے پیش کر کے فرمایا کہ اگر تم اس خیال میں سچے ہو کہ تم سے زیادہ علم والی کوئی مخلوق نہیں اور خلافت کے مستحق تم ہی ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ جو قرآن مجیدمیں کچھ اس طرح ہے: وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔(پ1، البقرۃ:31)

فرشتے اگر چہ صاحبِ علم و عرفان تھے لیکن چونکہ اللہ نے انہیں علم الاسماء عطا نہیں فرمایا تھا اس لیے وہ اشیاء کے نام نہ بتا سکیں اور بارگاہ الٰہی میں اپنے عجز کا اعتراف کرتے ہوئے عرض گزار ہوئے : قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ(۳۲) ترجمۂ کنز الایمان:بولے پاکی ہے تجھے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا بے شک تو ہی علم و حکمت والا ہے۔(پ1، البقرۃ: 32)

فرشتوں کے اعترافِ عجز پر اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام سے فرمایا: قَالَ یٰۤاٰدَمُ اَنْۢبِئْهُمْ بِاَسْمَآىٕهِمْۚ-فَلَمَّاۤ اَنْۢبَاَهُمْ بِاَسْمَآىٕهِمْۙ- ترجمۂ کنز الایمان: فرمایا اے آدم بتادے انہیں سب اشیاء کے نام جب آدم نے انہیں سب کے نام بتادئیے۔

اس کے بعد اللہ پاک نے فرشتوں سے فرمایا:قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۙ-وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ(۳۳)فرمایا میں نہ کہتا تھا کہ میں جانتا ہوں آسمانوں اور زمین کی سب چھپی چیزیں اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو۔(پ1، البقرۃ: 33)

(2)نصیحت: اشیاء کے نام معلوم نہ ہونے پر فرشتوں نے اپنی لاعلمی کا اعتراف کر لیا اس میں ہر صاحب علم بلکہ ہر مسلمان کیلئے یہ نصیحت ہے کہ جو بات معلوم نہ ہو اس کے بارے میں لاعلمی کا صاف اظہار کر دیا جائے، لوگوں کی ملامت سے ڈر کر یا عزت و شان کم ہونے کے خوف سے کبھی کوئی بات گھڑ کر بیان نہ کریں۔

جب اللہ پاک نے تخلیقِ آدم کا ارادہ فرمایا تو فرشتوں کو اس کی پیشگی کے ساتھ ساتھ یہ تاکید بھی فرمائی کہ روح پھونکے جانے کے بعد فرشتے انہیں سجدہ کریں جیسا کہ سورۂِ صٓ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ(۷۱) فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ(۷۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں مٹی سے انسان بناؤں گا۔پھر جب میں اسے ٹھیک بنالوں اور اس میں اپنی طرف کی روح پھونکوں تو تم اس کے لیے سجدے میں گرنا۔(پ23، صٓ:71، 72)

حضرت آدم کی تخلیق مکمل ہونے اور روح پھونکےجانے کے بعد اللہ کے حکم سے تمام فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا سوائے ابلیس کےکیونکہ وہ تکبر کے طور پر یہ سمجھتا رہا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام سے افضل ہے اپنے اس باطل عقیدے، حکمِ الٰہی سے انکار اور تعظیم نبی سے تکبرکی وجہ سے وہ کافر ہو گیا قرآن پاک میں ابلیس کا یہ حال مختلف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے چنانچہ سورۂ اعراف میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ﳓ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-لَمْ یَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ(۱۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بے شک ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہارے نقشے بنائے پھر ہم نے ملائکہ سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کروتو وہ سب سجدے میں گرے مگر ابلیس یہ سجدہ والوں میں نہ ہوا۔(پ8، الاعراف:11)

سورۂ طہ میں ارشاد ہوتا ہے: وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى(۱۱۶)ترجمۂ کنزالایمان: اور جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب سجدے میں گرے مگر ابلیس اس نے نہ مانا۔(پ16، طہ:116)

اس کے انکار کی وجہ یہ تھی کہ یا اللہ تو نے مجھے آگ سے بنایا ہے اور آدم کو مٹی سے چونکہ آگ مٹی سے افضل ہوتی ہے اس لیے یہ میری شان کے خلاف ہے کہ میں اسے سجدہ کروں، ابلیس کے جواب سے متعلق سورۂ اعراف میں ہے: قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُۚ-خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ(۱۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: بولا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اُسے مٹی سے بنایا۔(پ8، الاعراف:12)

ابلیس کا خود کو افضل سمجھنا باطل تھا کیونکہ افضل وہ ہے جسے مالک و مولا فضیلت دے ابلیس کا یہی تکبر تھا جس کی وجہ سے اس نے آدم کو سجدہ نہ کیا اور کفر کا مرتب ہوا۔

(3) نصیحت: تکبر ایک کبیرہ گناہ ہے جس انسان میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوگا اور وہ خود کو افضل اور سامنے والے کو حقیر سمجھے گا تو وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا اور بروزِ قیامت لوگ اسے اپنے قدموں تلے روندیں گے۔

حضرت آدم علیہ السّلام کے بعد بی بی حوا کی تخلیق کی گئی جس کے بعد دونوں کو جنت میں رکھا اور انہیں ایک مخصوص درخت کا پھل کھانے سے منع فرمایا اور ساتھ ہی اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کو تنبیہ کی کہ: اے آدم! ابلیس تیرا اور تیری بیوی کا کھلا دشمن ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں جنت سے نکلوا دے اور تمہیں زمین پر جانا پڑے چنانچہ سورۃ طٰہ میں الله پاک کا حکم ہے: فَقُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اِنَّ هٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَ لِزَوْجِكَ فَلَا یُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقٰى(۱۱۷) ترجَمۂ کنزُالایمان:تو ہم نے فرمایا اے آدم بےشک یہ تیرا اور تیری بی بی کا دشمن ہے تو ایسا نہ ہو کہ وہ تم دونوں کو جنت سے نکال دے پھر تو مشقت میں پڑے (پ16، طہ:117)

حضرت آدم پر اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام کی وجہ سے ابلیس ان سے حسد کرنے لگا اور اس حسد کی بنا پر ان کا کھلا دشمن بن گیا اور شیطان حضرت آدم کے دل میں وسوسے ڈالنے جنت میں پہنچ گیا اور حضرت آدم علیہ السّلام کو جس درخت کے پاس جانے سے اللہ نے منع کیا تھا اس درخت کے پاس لے گیا لیکن اس عمل میں حضرت آدم علیہ السّلام کا اللہ کی نافرمانی کا قصد نہ تھا جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ لَقَدْ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَ لَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا۠(۱۱۵) ترجَمۂ کنز الایمان: اور بےشک ہم نے آدم کو اس سے پہلے ایک تاکیدی حکم دیا تھا تو وہ بھول گیا اور ہم نے اس کا قصد نہ پایا۔ (پ16، طہ:115)

(4) نصیحت:حسد شیطانی کام ہے اور یہی وہ پہلا گناہ ہے جس کے ذریعے اللہ پاک کی نافرمانی کی گئی حسد انسان سے دین و دنیا دونوں کی نعمتیں چھین لیتی ہے یہ اتنی خطرناک باطنی بیماری ہے کہ اس سے ایمان جیسی عظیم دولت بھی چھن جانے کے خطرات لاحق ہو جاتے ہیں اللہ پاک ہمیں اس مذموم باطنی بیماری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اس طرح حضرت آدم علیہ السّلام سے لغزش کا واقعہ ہوا اور انہوں نے اس درخت کا پھل کھا لیا جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا تھا، تو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام کو اور بی بی حوا کو حکم دیا کہ آپ دونوں زمین پر اتر جاؤ سورۂ اعراف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قَالَ اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّۚ-وَ لَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰى حِیْنٍ(۲۴)قَالَ فِیْهَا تَحْیَوْنَ وَ فِیْهَا تَمُوْتُوْنَ وَ مِنْهَا تُخْرَجُوْنَ۠(۲۵)ترجمۂ کنزالایمان: فرمایا اُترو تم میں ایک دوسرے کا دشمن اور تمہیں زمین میں ایک وقت تک ٹھہرنا اور برتنا ہے۔ فرمایا اسی میں جیوگے اور اسی میں مرو گے اور اسی میں سے اٹھائے جاؤ گے۔(پ8، الاعراف:24، 25)

حضرت آدم علیہ السّلام کی ایک عرصہ دراز تک گریہ وزاری کے بعد اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے کلمات کے ذریعے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے اسے قبول فرما لیا جس کا ذکر قرآن کی سورۂ بقرہ میں یوں ہے: فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ علیہؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۳۷) ترجمۂ کنز الایمان:پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بے شک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔ (پ1، البقرۃ:37)

(5)نصیحت: حضرت آدم علیہ السّلام نے اپنی لغزش کے بعد جس طرح دعا فرمائی اس میں مسلمانوں کے لیے یہ تربیت ہےکہ ان سے جب کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو وہ اللہ پاک کی بارگاہ میں اپنے گناہ پر ندامت کا اظہار کریں اور رحمت و مغفرت کا عاجزی سے گڑگڑا کر سوال کریں۔