الله پاک نے ہدایت انسانی کیلئے اس دنیا میں تقریبا ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے ان میں سب سے پہلے پیغمبر حضرت آدم علیہ السّلام ہیں، الله پاک نے انہیں اپنے پاس سے علم سکھایا اور اس علم ہی کی بدولت انہیں فرشتوں سے بھی بلند رتبہ عطا فرمایا، قرآن میں مختلف جگہوں پر حضرت آدم علیہ السّلام کے واقعہ کو ذکر کیا گیا۔جن میں ہمارے لیے بے شمار نصیحتیں ہیں، ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

(1) مشاورت سنت الٰہی ہے: اللہ کی شان یہ ہے کہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے نہ کوئی اس کے ارادہ میں دخل انداز ہو سکتا ہے نہ کسی کی مجال ہے کہ اس کے کسی کام میں چوں و چرا کر سکے مگر اس کے باوجود اللہ نے حضرت آدم علیہ السّلام کی تخلیق و خلافت کے بارے میں فرشتوں سےمشورہ کے انداز میں کلام فرمایا لہٰذا جب اللہ قادر اور فاعل مختار ہونے کے باوجود ملائکہ کی جماعت سے مشورہ فرماتا ہے تو ہم جن کا علم بہت کم ہے انہیں بھی چاہیے کہ کسی کام کو کرنے سے پہلے اپنے مخلص دوستوں سے مشورہ کر لیا کریں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایامیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔ (پ1، البقرۃ:30)

(2) رضائے الٰہی پر رضامندی:بندے اللہ پاک کے افعال اور اس کے کاموں کی مشیتیں اور حکمتیں کما حقہ نہیں جانتے۔ اس لیے بندوں پر لازم ہے کہ اللہ کے کسی فعل پر تنقید و تبصرہ سے اپنی زبان روکے رہیں اور اپنی کم عقلی و کوتاہ فہمی کا اعتراف کرتے ہوئے یہ ایمان رکھیں اور زبان سے اعلان کرتے رہیں کہ اللہ پاک نے جو کچھ اور جیسا بھی کیا بہر حال وہی حق ہے اور اللہ اپنے کاموں کو خوب جانتا ہے۔ جیسے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۳۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے۔(پ1، البقرۃ:30)

(3)مذمت تکبر: ابلیس نے حضرت آدم علیہ السّلام کو خاک کا پتلا کہہ کر ان کی تحقیر کی اور اپنے کو آتشی مخلوق کہہ کر اپنی بڑائی کا اظہار کیا اور سجدہ سے انکار کیا حقیقتاً شیطان کے انکار کا باعث حضرت آدم سے تکبر تھا۔ تکبر وہ بری چیز ہے کہ بڑے سے بڑے بلند مراتب و درجات والے کو ذلت کے عذاب میں گرفتار کر دیتی ہے بلکہ بعض اوقات تکبر کفر تک پہنچا دیتا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان: منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا۔(پ1، البقرۃ:34)

(4)مشکوک کو ترک کرنا: اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کو پھل کھانے سے منع فرمایا تھا لیکن قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: وَ لَا تَقْرَبَا ترجمہ: اور قریب نہ جانا۔(پ1، البقرۃ:35) تو مراد یہ ہے کہ اصل فعل کے ارتکاب سے بچانے کیلئے اس کے قریب جانے سے بھی روکنا چاہئے۔

(5)افضلیت علم: تمام فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ کیا اور سجدہ نہایت عاجزی اور اپنے سے بلند درجے والوں کو کیا جاتا ہے، اور فرشتے عابد تھے اور حضرت آدم علیہ السّلام عالم تھے اس سے معلوم ہوا کہ عالم عابد سے افضل ہے لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ عبادت کے ساتھ ساتھ علم دین بھی حاصل کرتےر ہیں۔

اللہ پاک ہمیں انبیاء علیہم السّلام کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین