قرآن پاک ہر شے کا روشن بیان ہے اور ہر خشک و تر کا اس میں ذکر ہے،یہ کتاب جہاں بے شمار چیزوں کو اپنے ضمن میں لیے ہوئے ہے، انہی میں سے قصص و واقعات بھی ہیں،جن میں عقل والوں کے لیے کئی نصیحتیں اور عبرتیں ہیں،ان قصوں میں سے حضرت آدم علیہ السّلام کا قصہ کئی نصیحتوں اور علم وحکمت کے مدنی پھولوں پر مشتمل ہے۔

(1)علم کی اہمیت: اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کو اپنا خلیفہ بنایا، حالانکہ فرشتے ہر وقت اس کی تسبیح و تقدیس میں مصروف رہتے ہیں، چنانچہ علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں: خدا کی نیابت و خلافت کا دارومدار کثرت عبادت و تسبیح و تقدیس نہیں، بلکہ علوم و معارف کی کثرت ہے، جب ہی ملائکہ خلیفۃ اللہ نہ ہوئے اور حضرت آدم علیہ السّلام علوم و معارف کی کثرت کی بنا پر خلافت سے مشرف ہوئے ۔(عجائب القرآن مع غرائب القرآن، ص254ملخصاً) لہٰذا علم ہر اعتبار سے افضل ہے، چاہے عبادت ہو یا دولت، شہرت ہو یا مقام و منصب تو عبادت کے ساتھ علم بھی حاصل کریں۔

(2)تکبر سے بچنا: اللہ پاک نے تخلیق آدم کے بعد ملائکہ یعنی فرشتوں کو سجدے کا حکم فرمایا، تمام ملائکہ نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے،اس نے انکار کیا اور تکبر کے طور پر خود کو افضل جانا، حالانکہ انتہائی عبادت گزار، فرشتوں کا استاد اور بارگاہ الٰہی میں مقرب تھا مگر تکبر کے سبب بارگاہ الٰہی سے دھتکار دیا گیا، تو معلوم ہوا کہ کوئی کتنا ہی اعلیٰ مرتبے پر فائز کیوں نہ ہو تکبر سے وہ ادنیٰ ہو جاتاہے۔

(3)عاجزی کرنا: جب اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کو ساری اشیاء کا علم دیا اور پھر فرمایا کہ اسے فرشتوں کے سامنے بیان کرو،تو اس کے بعد اللہ پاک نے فرشتوں کو حکم فرمایا، مجھے ان کے نام بتاؤ!تو فرشتوں نے آدم علیہ السّلام کے علمی فضل و کمال کو دیکھ کر اپنے عجز کا اعتراف کیااورعرض کیا: قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاؕ- ترجمۂ کنز الایمان:بولے پاکی ہے تجھے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا۔(پ1، البقرۃ: 32) قارئین کرام!غور کیجئےعلم نہ ہونےپر عجز کا اظہار یہ عاجزی اور فرشتوں کا طریقہ ہے۔

(4)دوسروں کی فضیلت کو تسلیم کرنا: فرشتوں کا حضرت آدم علیہ السّلام کے علمی فضل و کمال کو تسلیم کر کے سربسجود ہونے میں ان لوگوں کے لیے درس ہے، جو فقط اپنی ہی شان و عظمت کے گن گا رہے ہوتے ہیں، دوسروں کی فضیلت و کمال اور عزت و مرتبے کو نہیں مانتے، یاد رکھیں! دوسروں کی فضیلت کو ماننا یہ فرشتوں کا طریقہ ہے اور نہ مان کر خود کو بڑا جاننا یہ ابلیس کا طریقہ ہے۔

(5)انجام سے خوفزدہ رہنا: ابلیس لعین کئی فضائل کا حامل تھا، جنت کا خازن، ملائکہ کا صاحب(ساتھی) و واعظ، مقرب فرشتوں کا سردار، عرش کے ارد گرد طواف کرنے والا، آسمانوں میں اس کا نام عابد، زاہد،عارف، ولی، تقی،خازن اور عزازیل تھا مگر لوح محفوظ میں موجود اپنے انجام سے غافل تھا۔(حاشیۃالصاوی، ج1، ص51 ملخصاً) آخر حکمِ الٰہی سے منہ پھیر کر جہنم کا مستحق ہوا،لہٰذا غفلت کی زندگی سے بچ کر،خاتمے کی فکر کی جائے اور کبھی بھی اپنی عبادت و ریاضت کے سبب خوش فہمی میں نہ رہا جائے۔

اللہ پاک ہمیں قرآن پاک پر عمل کرنے اور اس میں موجود نصیحتوں سے نصیحت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔