حضرت آدم (علیہ السّلام) وہ پہلے بشر (انسان) ہیں جن کو الله پاک نے اپنے دست قدرت سے بنایا اور اپنی طرف سے خاص روح پھونکی، اور فرشتوں کو حضرت آدم (علیہ السّلام) کو سجدہ کرنے کا حکم فرمایا، تمام فرشتوں نے حکم کی تکمیل کی اور سجدہ کیا، جبکہ شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کیا اور مردود ہو گیا۔

حضرت آدم (علیہ السّلام) کے قرآن و احادیث میں بے شمار فضائل آئے ہیں، آئیے اب ہم قرآن پاک سے آدم (علیہ السّلام) کا ذکر سنتے اور نصیحتیں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

(1)جب الله پاک نے حضرت آدم (علیہ السّلام) کو پیدا فرمانے کا ارادہ فرمایا تو اپنے فرشتوں سے مشورے کے انداز میں کلام فرمایا۔الله پاک قرآن پاک میں فرماتا ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایامیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔حضرت علامہ مولانا مفتی محمد قاسم عطاری قادری (مدظلہ العالی) صراط الجنان میں فرماتے ہیں: یہاں نائب سے مراد حضرت آدم (علیہ السّلام) سے ہیں۔

فرشتوں نے الله پاک کا یہ کلام سن کر عرض کی:ترجَمۂ کنزُالایمان:بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے اور خونریزیاں کرےاور ہم تجھے سراہتے ہوئے تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں۔

یہاں فرشتوں نے جو الله پاک کی بارگاہ میں عرض کی اس کا مقصد اظہار تعجب اور خلیفہ بنانے کی حکمت معلوم کرنے کےلیے کی تھی، الله پاک کی تخلیق یا اس کی مشیت پر اعتراض کرنا نہ تھا۔

آیت میں ہمارے لیے یہ نصیحت ہے کہ حضرت آدم (علیہ السّلام) کو پیدا فرمانے سے پہلے مشورے کے اندازے میں جو کلام کیا اس میں ہمارے لیے یہ تعلیم ہے کہ ہم کوئی بھی کام شروع کریں تو اپنے ماتحت یا دوستوں یا بڑے بزرگوں سے مشورہ لیں اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ کوئی اچھی رائے مل گئی تو کام اور بہترین انداز سے ہو جائے گا۔

(2)اسی طرح ایک اور مقام پر حضرت آدم علیہ السّلام کی تخلیق کے بعد تمام اشیاء کے نام سیکھا دیئے اور حضرت آدم علیہ السّلام فضیلت کے اظہار کے لئے فرشتوں کے سامنے اشیاء کو پیش کیا اور ارشاد فرمایا: ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔(پ1، البقرۃ: 31)

یہ کلام سن کر فرشتوں نے ان اشیاء کے نام نہیں بتائے اپنے عجز کا اعتراف کرتے ہوئے بارگاہ الٰہی میں عرض کی: ترجمۂ کنز الایمان:بولے پاکی ہے تجھے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا بے شک تو ہی علم و حکمت والا ہے۔ (پ1، البقرۃ: 32)

تفسیر:حضرت آدم علیہ السّلام کے علمی فضل و کمال کو دیکھ کر اس بات کا کیا کہ ان کا(مذکورہ بات یعنی کیا تو زمین میں اسے نائب بنائے گا جو اس میں فساد پھیلائے گے اور خون بہائے گا حالانکہ ہم تیری حمد کر تے ہوئے تسبیح کرتے اور تیری پاکی بیاں کرتے ہیں) اعتراض کرنے کے لیے نہ تھا بلکہ حکمت معلوم کرنے کے لئے تھا، اب انہیں انسان کی فضیلت اور اس کی پیدائش کی حکمت معلوم ہو گی جس کو وہ پہلے نہ جانتے تھے۔ (صراط الجنان، جلد ۱، سورۃ بقرہ، آیت ۳۲)

آیت میں ہمارے لیے نصیحت:اس آیت سے ہمیں معلوم ہوا کہ جب فرشتوں کو اشیاء کے نام معلوم نہ تھے تو انہوں نے اپنے لا علمی کا اعتراف کیا۔ اسی طرح ہر صاحب علم بلکہ ہر مسلمان کو چاہیے کہ اگر اس کو کوئی بات معلوم نہ ہو تو اس کے بارے میں صاف اظہار کر دے کہ مجھے اس بات کا علم نہیں ہے۔

(3)اسی طرح جب الله پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کی تخلیق مکمل فرمائی تو فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو تمام فرشتوں نے سجدہ کیا لیکن شیطان نے انکار کیا اور مردود ہو گیا اسے بیان کرتے ہوئے ، الله پاک نے فرمایا: وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان: اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا۔(پ1،البقرۃ:34)

تمام فرشتوں کو سجدے کا حکم دیا گیا اور ملائکہ مقربین سمیت تمام فرشتوں نے سجدہ کیا لیکن شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا اور تکبر کے طور پر یہ سمجھتا رہا کہ وہ حضرت آدم علیہ السّلام سے افضل ہے۔

آیت میں ہمارے لئے نصیحت:الله پاک کے انبیاء علیہم السّلام کی گستاخی ایسا بڑا جرم ہے جس کی سزا میں زندگی بھر عبادت، ریاضت بھی بربادہو جاتی ہے جس طرح شیطان جیسا عبادت گزار بھی حضرت آدم علیہ السّلام کی گستاخی سے برباد ہو گیا تو ہماری عبادتیں کیا ہیں؟

(4)جب فرشتوں نے سجدہ کیا اور شیطان انکار کر کے مردود ہو گیا تو الله پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام اور حضرت حوا کو جنت میں رہنے کی اجازت عطا فرمائی مگر ایک درخت سے منع فرمایا جس کا ذکر اس آیت میں ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجمۂ کنزالایمان: اور ہم نے فرمایا اے آدم تو اور تیری بی بی اس جنت میں رہو اور کھاؤ اس میں سے بے روک ٹوک جہاں تمہارا جی چاہے مگر اس پیڑ کے پاس نہ جانا کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہوجاؤ گے۔ (پ1، البقرۃ: 35)

حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے مردود ہوا تھا لہٰذا وہ حضرت آدم علیہ السّلام کو نقصان پہنچانے کی تاک میں رہا۔اور ہر طرح سے وسوسہ ڈالتا رہا بالآخر آدم علیہ السّلام نے ممنوعہ درخت سے کھالیا جس کی وجہ حضرت آدم اور حضرت حوا کو جنت چھوڑ کر زمین پر آنا پڑا۔

اس آیت میں ہمارے لیے نصیحت:حسد نہیں کرنا چاہئے کیونکہ حسد شیطانی کام ہے اور یہی پہلا گناہ ہے جس کے ذریعے الله پاک کی نافرمانی کی گئی۔

(5)جب الله پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام اور حضرت حوا کو اپنی قدرت سے پیدا فرمایا اور ان سے انسانی نسل کی ابتدا فرمائی۔منقول ہے کہ حضرت حوا رضی اللہ عنہا بیس یا چالیس بار حضرت آدم علیہ السّلام سےحاملہ ہوئیں۔ہر حمل سے دو بچے پیدا ہوئے ایک لڑکا اور ایک لڑکی، حضرت آدم علیہ السّلام ایک حمل کے لڑکے کا نکاح دوسرے حمل کی لڑکی کے ساتھ کرا دیا کرتے تھے۔(صاوی، سورۃ النساء، تحت الایۃ، ۱، ۲، ۳۵۶)

اب قابیل کے ساتھ جو لڑکی پیدا ہوئی وہ بہت خوبصورت تھی جبکہ ہابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی لڑکی کم خوبصورت تھی۔ حضرت آدم علیہ السّلام نے شرعی دستور کے مطابق قابیل کا نکاح ہابیل کی بہن سے کرنا چاہا تو قابیل اس سے راضی نہ ہوا اور نفس امارہ کے دھوکے میں آ کر اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر کے اپنی بہن کو لے کر چلا گیا۔اس واقعے کے بارے میں نے الله پاک فرماتا ہے: ترجمہ کنزالایمان: تو اس کے نفس نے اسے بھائی کے قتل کا چاؤ دلایا(قتل پراُبھارا) تو اُسے قتل کردیا تو رہ گیا نقصان میں۔(پ6، المآئدۃ:30)

اس آیت میں ہمارے لیے نصیحت:قابیل کے اس برے فعل سے ظاہر ہوا کہ اس کو قتل پر ابھارنے کا سبب ناجائز عشق مجازی ہے جس میں آج کل لوگ شرم و حیاء کو پیٹھ پیچھے ڈال کر اور پردے کے اسلامی احکام کی پابندی نہ کر نے کے سبب دھڑا دھڑ مبتلا ہو رہے ہیں جسکی وجہ سے قتل و غارت گری کا بازار بھی گرم رہتا ہے۔

ا الله پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ان نصیحتوں پر عمل کرنے اور دوسرں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین