نزولِ قرآن کا ایک بنیادی مقصد لوگوں کی ہدایت و راہنمائی ہے اسی لیے اس میں کئی مقامات پر انبیائے کرام علیہم السلام اور ان کی قوموں کے واقعات کو ذکر کیا گیا ہے تاکہ لوگ ان واقعات کو پڑھ، سُن کر ان سے سبق حاصل کریں اور اپنی اصلاح کرسکیں، ان ہی واقعات میں سے ایک واقعہ حضرت آدم علیہ السّلام کا بھی ہے جوکہ قرآن کریم میں متعدد بار ذکر کیا گیا ہے اس واقعے سے بھی ہمیں کئی نصیحتیں حاصل ہوتیں ہیں ان میں سے پانچ یہ ہیں:

شیطان ہمارا کُھلا دشمن ہے:یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ لَا یَفْتِنَنَّكُمُ الشَّیْطٰنُ كَمَاۤ اَخْرَ جَ اَبَوَیْكُمْ مِّنَ الْجَنَّةِ یَنْزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِیُرِیَهُمَا سَوْاٰتِهِمَاؕ-اِنَّهٗ یَرٰىكُمْ هُوَ وَ قَبِیْلُهٗ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْنَهُمْؕ- ترجمۂ کنز الایمان:اے آدم کی اولاد خبردار تمہیں شیطان فتنہ میں نہ ڈالے جیسا تمہارے ماں باپ کو بہشت سے نکالا اتروا دیئے ان کے لباس کہ ان کی شرم کی چیزیں انہیں نظر پڑیں بے شک وہ اور اس کا کنبہ تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں کہ تم انہیں نہیں دیکھتے۔

شیطان کی فریب کاری اور حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے ساتھ اس کی دشمنی وعداوت کا بیان فرما کر بنی آدم کو مُتَنَبّہ اور ہوشیار کیا جارہا ہے کہ وہ شیطان کے وسوسے،اغواء اور اس کی مکاریوں سے بچتے رہیں۔جو حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے ساتھ ایسی فریب کاری کرچکا ہے وہ اُن کی اولاد کے ساتھ کب درگزر کرنے والا ہے۔اس میں مومن، کافر، ولی، عالم، پرہیز گار سب سے خطاب ہے، کوئی اپنے آپ کو ابلیس سے محفوظ نہ جانے۔(تفسیر صراط الجنان، پارہ: 08، سورۃالاعراف،آیت:27)

تکبر کی نحوست:جب الله پاک نے تمام فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ کریں تو تمام فرشتوں نے سجدہ کیا لیکن شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا اور کہاکہ وہ حضرت آدم علیہ السّلام سے بہتر ہے کیونکہ مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے جبکہ آدم علیہ السّلام مٹی سے پیدا سے ہوئے ہیں تو میں ان سے افضل ہوں۔لہٰذا وہ اپنے اس باطل عقیدے، حکمِ الٰہی سے انکار اور تعظیم نبی سے تکبر کی وجہ کافر ہو گیا۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴)ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا۔ (پارہ:01، سورۃالبقرۃ،آیت:34)

انبیائے کرام علیہم السلام فرشتوں سے افضل ہیں:مذکورہ آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو یہ حکم دیاکہ وہ حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کو سجدہ کریں،اس سے معلوم ہوا کہ وہ فرشتوں سے افضل ہیں کیونکہ سجدے میں انتہائی تواضع ہوتی ہے اور کسی کے سامنے انتہائی تواضع وہی کرے گا جو اس سے کم مرتبے والا ہو۔

بارگاہِ الٰہی کے مقبول بندوں کے وسیلے سے دعا مانگنا جائز ہے:اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ علیہؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۳۷)ترجمۂ کنز الایمان: پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بے شک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔(پارہ:01،سورۃالبقرۃ،آیت:37)

نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جب حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام سے اجتہادی خطا ہوئی تو(عرصۂ دراز تک حیران و پریشان رہنے کے بعد)انہوں نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی: اے میرے رب! مجھے محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے میں معاف فرمادے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! تم نے محمد (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)کو کیسے پہچانا حالانکہ ابھی تو میں نے اسے پیدا بھی نہیں کیا؟حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام نے عرض کی: اے اللہ! جب تو نے مجھے پیدا کر کے میرے اندر روح ڈالی اور میں نے اپنے سر کو اٹھایا تو میں نے عرش کے پایوں پر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ لکھا دیکھا،تو میں نے جان لیا کہ تو نے اپنے نام کے ساتھ اس کا نام ملایا ہے جو تجھے تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! تو نے سچ کہا، بیشک وہ تمام مخلوق میں میری بارگاہ میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔تم اس کے وسیلے سے مجھ سے دعا کرو میں تمہیں معاف کردوں گا اور اگر محمد(صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا نہ کرتا۔(معجم اوسط،جلد05، ص115، 116،حدیث:6502)

الله پاک ہمیں قرآن پاک پڑھنے،سننے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔