آج کل
عمومی طور پر ہمارے معاشرے میں حوصلہ شکنی کی فضا بنی ہوئی ہے ایک دوجے کی حوصلہ
شکنی کی جا رہی ہے کسی کے اچھے کام کرنے پر حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی کسی سے
تھوڑی سی غلطی کیا ہو جائے خوب ڈانٹ دیا جاتا ہے اور سب کے سامنے رسوا کر دیا جاتا
ہے حوصلہ شکنی سے صلاحیتوں کو باور نہیں کرایا جا سکتا۔بلکہ حوصلہ افزائی سے
انسانوں کی صلاحیتیں اجاگر ہوتی ہیں دنیاوی اور دینی کام کرنے میں ان کا جذبہ
بڑھتا ہے جبکہ حوصلہ شکنی سے صلاحتیں دب جاتی ہیں برباد ہو جاتی ہیں ضائع ہو جاتی
ہیں حوصلہ افزائی کا ایک پیارا انداز کے بچوں کو اچھے اچھے القابات سے پکارا کریں۔
اکثر
دیکھنے میں آتا ہے کہ وہ بچہ جس کو گھر سکول یا دونوں جگہوں سے حوصلہ افزائی ملتی
ہے وہ بہتر تعلیمی کارکردگی دکھاتے ہیں اور دوسری طرف وہ بچے جن کو کم حوصلہ
افزائی ملتی ہے وہ پیچھے رہ جاتے ہیں اگر ہم تھوڑا کچھ لکھے پڑھے لوگ خود اپنی
تعلیمی سفر کے بارے میں سوچیں گے تو یہ بات ضرور ذہن میں آئے گی کئی سفر کو جاری
رکھنے اور تعلیم کے ساتھ دلچسپی برقرار رکھنے میں خاندان یا معاشرے کے کسی فرد یا
افراد کی طرف سے حوصلہ افزائی کا عمل دخل ضرور یاد آئے گا ہمیں ان لوگوں کا شکر
گزار ہونا چاہیے۔
ہمارے
ہاں حوصلہ افزائی ایسے طالب علموں کی ہوتی ہے جن کی تعلیمی کارکردگی اچھی ہو جبکہ
ایسے تالب علم جن کی تعلیمی حالت قدر کمزور ہو حوصلہ افزائی کے حقدار نہیں پاتے
کیونکہ ان کے لیے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی حالانکہ حوصلہ افزائی کے ذریعے آگے
لانے کی زیادہ ضرورت دوسری صورت میں ہوتی ہے نیز اکثر گھروں میں ایسے بچوں کے لیے
ماحول خوش گوار نہیں ہوتا مثلا ہم اکثر یہ الفاظ والدین سے سنتے ہیں کہ فلاں بچہ
کمزور ہے فلاں بچہ نالائق ہے وہ کچھ نہیں کر سکتا وغیرہ ایسے الفاظ بچوں کی ذہنی
نشوونما کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم سے بھی دوری کی طرف لے جاتے ہیں یہ نہیں
سمجھتے کہ ہر بچے کی اپنی خوبیاں اور خامیاں ہوتی ہیں اور بار بار کمزور پہلوں کو
سامنے لاتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح سے بچے میں مثبت تبدیلی لائیں گے اور وہ
نہیں سمجھتے کہ اس سے بچے کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے اور وہ پڑھائی سے دور ہو جاتا
ہے۔
حوصلہ شکنی کے نقصانات: حوصلہ افزائی سے مثبت سوچ پروان چڑھتی
ہے جبکہ حوصلہ افزائی سے مثبت سوچ پروان چڑھتی ہے جبکہ حوصلہ شکنی سے رویوں میں
منفی سوچ پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے معاشرتی نفسیاتی نقصانات ہوتے ہیں مثلا نا
امیدی احساس کمتری ڈپریشن ذہنی انتشار ناکامی کا خوف پڑتا ہے گھر دفتر ادارے اور
کلاس روم کا ماحول خراب ہوتا ہے جس کی آپ حوصلہ شکنی کرتے ہیں وہ آئندہ آپ کے قریب
آنے سے کتراتا ہے اور آپ سے اپنے مسائل شیئر کرنا چھوڑ دیتا ہے۔
حوصلہ
شکنی سے بچنے کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کو سمجھایا ہی نہ جائے یا کسی کی غلطی کی
نشاندہی نہ کی جائے کہ وہ آئندہ اس سے بچ سکے اس کا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ پہلے
اس کے کام پہ سچی خوبیاں شمار کروا کر حوصلہ افزائی کر دی جائے پھر مناسب الفاظ
میں خامیاں اور غلطیوں کی نشاندہی کی جائے پیارے آقا ﷺ کو جب کسی کی بات ناگوار
گزرتی تو اس کا پردہ رکھتے ہوئے اس کی اصلاح کا یہ حسین انداز ہوتا کہ ارشاد
فرماتے یعنی لوگوں کو کیا ہو گیا جو ایسی بات کہتے ہیں۔(ابو داود، 4/ 328، حدیث: 4788)