ہماری
سوشل لائف میں خوبیوں کے ساتھ ساتھ بہت سی کمزوریاں بھی موجود ہیں، جن میں سے ایک حوصلہ
شکنی بھی ہے۔ یاد رکھئے! ہماری تھپکی کسی کو پہاڑ پر چڑھنے کا حوصلہ بھی دے سکتی
ہے جبکہ ایک دل شکنی کسی کو کھائی میں گرا سکتی ہے۔ کسی کی زندگی سنوارنے کیلئے
بہت محنت کرنا پڑتی ہے اور مشکلوں سے گزرنا پڑتا ہے جبکہ بگاڑنا بہت آسان ہے صرف
اس کی ہمت توڑنے کی دیر ہوتی ہے، اسی کو حوصلہ شکنی کہتے ہیں۔
حوصلہ
شکنی کیسے ہوتی ہے؟ میں آپ کے سامنے چند صورتیں اور مثالیں رکھتی ہوں کہ کس کس طرح
سے حوصلہ شکنی ہوسکتی ہے، چنانچہ
(1)اچھی
کارکردگی پر حوصلہ افزائی نہ کرنا (2)کوئی کیسی ہی عمدہ کوشش کرے اس کے ہر کام میں
کیڑے نکالنا، پھر خود کو ماہر نقاد قرار دینا (3)مختلف تبصرے (Comments)
کرنا:تو نہیں پڑھ سکتا، تجھ سے نہیں ہوگا، تیرے بس کی بات نہیں، تم نکمے ہو، نااہل
ہو، تمہارے دماغ میں بھس بھرا ہوا ہے وغیرہ (4)کسی کی پہلی غلطی پر مکمل ناکام
قرار دے دینا، ایسوں کو سوچنا چاہئے کہ انسان بچپن میں پہلا قدم اٹھاتے ہی دوڑنے
کے قابل نہیں ہوجاتا بلکہ گرتا ہے پھر اٹھتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ وہ دوڑنا
شروع کردیتا ہے (5)کسی کی معذرت (Excuse) قبول نہ کرنا بلکہ بہانہ قرار دے دینا
(6)دوسروں کے سامنے اپنے بچّے کی صرف خامیاں ہی بیان کرنا وغیرہ۔
ضروری
نہیں کہ ہماری حوصلہ شکنی دوسرے ہی کریں کبھی کبھی ہم خود بھی اپنی حوصلہ شکنی
کرتے ہیں وہ اس طرح کہ ہم دوسروں سے اپنامنفی تقابل کرتے ہیں، اپنی فیلڈ کی خوبیوں
پر نظر کرنے کے بجائے دوسروں کے شعبے سے متأثر ہوجاتے ہیں، غیرحقیقی توقعات
باندھتے ہیں، غلط فیصلے کثرت سے کرتے ہیں، اجتماعی کام کے لئے درست افراد نہیں
چنتے، پھر جب نتیجہ مایوس کن نکلتا ہے تو دل ہار کر بیٹھ جاتے ہیں، اس سے بھی
بچئے۔
حوصلہ شکنی کی نحوست: کسی ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ میں
ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جو نہایت شاندار کام سرانجام دے سکتا تھا لیکن وہ زندگی
بھر کوئی نمایا ں کام محض اس وجہ سے نہ کرسکا کہ جب وہ بچہ تھا تو بار بار اس کی
حوصلہ شکنی کی جاتی اور اسے بے وقوف ہو، احمق ہو، کی آوازوں سے واسطہ پڑتا رہتا
تھا۔ اس کا بیان ہے کہ جب کوئی اہم کام اسے ملتا تواس کی کمزوری کی تصویر اس کے
ذہن کے پردے پر کھنچ جاتی اور یوں وہ محسوس کرتا کہ وہ اس کی اہلیت و قابلیت نہیں
رکھتا۔اس طرح حوصلہ شکنی کی نحوست کے سبب وہ اپنی زندگی میں کوئی نمایاں کام نہ
کرسکا۔
حوصلہ شکنی کے نقصانات: حوصلہ افزائی سے مثبت سوچ پروان چڑھتی
ہے جبکہ حوصلہ شکن رویوں سے منفی سوچ پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے معاشرتی و نفسیاتی
نقصانات ہوتے ہیں، مثلاً ناامیدی، احساس کمتری، ڈپریشن، ذہنی انتشار، پست ہمتی،
ناکامی کا خوف پھیلتا ہے۔ گھر دفتر، ادارے اور کلاس روم کا ماحول خراب ہوتا ہے۔ جس
کی آپ حوصلہ شکنی کرتے ہیں وہ آئندہ آپ کے قریب آنے سے کتراتا ہے اور آپ سے اپنے
مسائل شیئر کرنا چھوڑ دیتا ہے۔
حضرت
علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اہانت اور تحقیر کیلئے زبان
یا اشارات یا کسی اور طریقے سے مسلمان کا مذاق اڑانا حرام و گناہ ہے کیونکہ اس سے
ایک مسلمان کی تحقیر اور اس کی ایذاء رسانی ہوتی ہے اور کسی مسلمان کی تحقیر کرنا
اوردکھ دینا سخت حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ (جہنم کے خطرات، ص 173)
حضرت
فضیل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کتے اور سور کو بھی ناحق ایذا دینا حلال نہیں تو
مؤمنین و مؤمنات کو ایذا دینا کس قدر بدترین جرم ہے۔ (مدارک، ص 950)
حوصلہ
شکنی سے بچنے کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کو سمجھایا ہی نہ جائے یا اس کی غلطی کی
نشاندہی نہ کی جائے کہ وہ آئندہ اس سے بچ سکے، اس کا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ پہلے
اس کے کام کی سچی خوبیاں شمار کروا کر حوصلہ افزائی کردی جائے پھر مناسب الفاظ میں
خامیوں اور غلطیوں کی نشاندہی کردی جائے۔
آقا ﷺ
کو جب کسی کی بات پہنچتی جوناگوار گزرتی تو اس کا پردہ رکھتے ہوئے اس کی اصلاح کا
یہ حسین انداز ہوتاکہ ارشاد فرماتے:یعنی لوگوں کو کیا ہو گیاجو ایسی بات کہتے ہیں۔
(ابو داود، 4/ 328، حدیث: 4788)