حوصلہ
شکنی، حوصلہ افزائی کی ضد ہے حوصلہ شکنی کا معنی ہے: ہمت توڑنے والا مایوس کن،
بزدل بنانے والا۔
ہمارے
معاشرے میں بہت سی اچھائیاں اور کمزوریاں پائی جاتی ہیں جن میں سے ایک حوصلہ شکنی
یعنی Discouragement
بھی ہے ہماری تھپکی کسی کو پہاڑ چڑھنے کا حوصلہ بھی دے سکتی ہے جبکہ ہماری حوصلہ
شکنی کے چند الفاظ کسی کو چڑھتے پہاڑ سے کھائی میں گرانے کا سبب بھی بن سکتے ہیں
کسی کی زندگی کو سنوارنا اسے آگے بڑھنے کا حوصلہ دینا کسی کی زندگی میں موٹیویشنل
سپیکر (motivational
speaker)بننے کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے جبکہ زندگی
کو بگاڑنا بہت آسان ہوتا ہے صرف اس کی ہمت توڑنے کی دیر ہوتی ہے جو آج کے معاشرے
میں ہر اپنا پرایا انسان بہت آسانی کے ساتھ کر رہا ہوتا ہے اسی کو حوصلہ شکنی کہتے
ہیں۔
ہمیں
غور کرنا چاہیے کہ آج تک ہماری وجہ سے کتنے لوگوں کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے ہمارے
الفاظ، ہمارا انداز کتنے لوگوں کی ہمت توڑنے انہیں اگے بڑھنے سے روکنے اور پیچھے
دھکیلنے کا سبب بنے ہیں یہی نہیں بلکہ اس کے بہت سے دینی اور دنیاوی نقصانات ہیں
ہماری حوصلہ شکنی ہمیں خود کو اور سامنے والے کی ذات دونوں کو بہت سے گناہوں میں
مبتلا کرنے کا سبب بن سکتی ہے اس کے نتیجے میں بہت سی بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں
آئیے چند نقصانات کو ملاحظہ کر لیتے ہیں۔
حوصلہ شکنی کے نقصانات: حوصلہ شکنی کے ذریعے دل آزاریاں ہوتی
ہیں، جس کی حوصلہ شکنی کی جائے وہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے، حوصلہ شکنی ڈپریشن
اور ذہنی انتشار کا سبب بنتی ہے، حوصلہ شکن رویوں سے منفی سوچ پروان چڑھتی ہے جس
کی وجہ سے بہت سے معاشرتی نقصانات ہوتے ہیں، حوصلہ شکنی انسان کو احساس کمتری میں
مبتلا کر دیتی ہے۔
حوصلہ افزائی نہ سہی تو حوصلہ شکنی بھی نہ کیجیے۔
دنیا میں دونوں قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں حوصلہ افزائی کرنے والے اور حوصلہ شکنی
کرنے والے بھی، ہمیں چاہیے کہ اپنی ذات پر غور کر لیں کہ ہمارا شمار کن میں ہوتا
ہے؟ اگر حوصلہ افزائی نہیں کر سکتے تو حوصلہ شکنی بھی نہیں کیجیے ہر ایک کو ہی
چاہیے کہ حوصلہ شکنی کرنے سے بچے بالخصوص والدین اور اساتذہ کرام انہیں بہت زیادہ
احتیاط کرنی چاہیے کہ یہ وہ شخصیات ہیں جن کی باتیں گہرا اثر رکھتی ہیں جہاں ان کی
حوصلہ افزائی انسان کو کامیابیوں کی بلندیوں پر پہنچاتی ہے وہیں ان کے حوصلہ شکن
رویے ان کا ایک جملہ تم نہیں کر سکتے ہو، تم سے نہیں ہوگا، تمہارے بس کی بات نہیں۔
انسان کو ناکامی کے دلدل میں ڈال دیتے ہیں۔اگر استاد کسی شاگرد کو یہ کہہ دے کہ تم
نہیں پڑھ سکتے تو وہ واقعی نہیں پڑے گا کیونکہ وہ پڑھنے کی کوشش ہی نہیں کرے گا
اور وہ جذبات جو شاید ابھی بیدار ہونے والے تھے وہ اپنی موت آپ مر جائیں گے عموماً
دیکھا گیا ہے کہ والدین اپنی اولاد کو بکثرت اس طرح کے جملے کہتے دکھائی دیتے ہیں
انہیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ ان کے یہ جملے اولاد کے دل پر کتنا گہرا اثر
دیتے ہیں والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ ہمیشہ ہی اپنی اولاد، اپنے شاگردوں کو you
can do it ( تم کرسکتے ہو ) کہیں انہیں
ہمیشہ I
can do it کہنا سکھائیے انہیں پر اعتماد بنائیں یاد
رکھیے استاد اور والدین وہ شخصیات ہیں کہ جن کی حوصلہ افزائی ان کا دیا ہوا ساتھ
اور بلند حوصلہ دوسرے تمام لوگوں کے حوصلہ شکن رویوں کا مقابلہ کر سکتا ہے۔
حوصلہ
شکنی کرنا ضروری بھی ہوتی ہے اگر کوئی برا کام کرے یا گناہ کی طرف مائل ہونے لگے
تو اس کی حوصلہ شکنی ضرور کریں اور تھوڑا سختی کے ساتھ سمجھائیں تاکہ وہ آئندہ اس
کام سے باز رہے کیونکہ کسی بھی برے کام یا گناہ کی طرح اٹھتے قدم پر مذمت کرنا،اسے
عار دلانا، حوصلہ شکنی کرنا ان اٹھتے قدم کی روک تھام کے لیے نہایت ہی ضروری ہے
یوں ہیں حوصلہ شکنی سے بچنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ کسی کو کچھ سمجھایا ہی نہ
جائے، اچھے برے،صحیح غلط کی تمیز ہی نہ کرائی جائے کہ آئندہ وہ اس برائی سے بچ سکے
بلکہ ضرور ایسا کیا جائے اس کا بہترین انداز یہ ہے کہ پہلے اس کام کی سچی خوبیاں
شمار کروا کر حوصلہ افزائی کی جائے پھر مناسب الفاظ میں خامیوں کی نشاندہی کر دی
جائے جیسا کہ ہمارے مرشدی امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ کا حسین انداز ہے۔
حوصلہ شکنی کی مثالیں: حوصلہ شکنی محض دشمنی کی بنیاد پر نہیں
ہوتی بلکہ کسی سے ہمدردی جتاتے ہوئے بھی اس کی حوصلہ شکنی ہو جاتی ہے لیکن ہمیں اس
کا شعور اور احساس نہیں ہوتا حوصلہ شکنی کس کس طرح ہو جاتی ہے؟ یہ جاننے کے لیے
یہاں چند مثالیں درج ذیل ہیں:
کسی کی اچھائی پر حوصلہ افزائی نہ کرنا بلکہ
کوئی کتنا ہی عمدہ کوشش کرے اس کے ہر کام میں کیڑے نکالنا، پھر خود کو ماہر نقاد
قرار دینا۔
مختلف تبصرے کرنا comments
دے دینا:تم نہیں پڑھ سکتے، تجھ سے نہیں ہوگا، تم نکمے ہو نکمے ہی رہو گے، تمہارے
دماغ میں بھوسا بھرا ہوا ہے وغیرہ وغیرہ۔
کسی
کی پہلی غلطی پر مکمل ناکام قرار دے دینا، ایسوں کو سوچنا چاہیے کہ انسان بچپن میں
پہلا قدم اٹھاتے ہی دوڑنے کے قابل نہیں ہو جاتا بلکہ گرتا ہے پھر اٹھتا ہے اور ایک
وقت آتا ہے کہ دوڑنا شروع کر دیتا ہے۔
دوسروں
کے سامنے اپنے بچے کی صرف خامیاں ہی بیان کرنا۔
کسی کا دوسروں سے بلا ضرورت تتقابل (comparison
) کرکے حوصلہ شکنی کرنا۔
ایک
ہی طرح کی کارکردگی دکھانے والے دو افراد میں سے صرف ایک کی تعریف و تحسین کرنا۔
کسی
کی ناکامی پر اپنی کامیابی کی داستانیں سنا سنا کر طعنے دینا۔
کسی
کو نیا تجربہ کرنے سے پہلے ہی اس سے ڈرا دینا وغیرہ وغیرہ۔
انسان
کو بذات خود بھی چاہیے کہ خود کو حوصلہ شکنی سے بچائے ہمیشہ منفی لوگوں سے فاصلہ
رکھیں یہ آپ کے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتے ہیں آپ جب بھی
ان سے کسی نئی آئیڈیا پر مشاورت کریں گے یہ کبھی بھی آپ کی حوصلہ افزائی نہیں کریں
گے وسائل کی کمی، ناکامی، آپ کی صلاحیتوں پر سوالیہ نشان لگا کر آپ کو مایوس کر
دیں گے اور بعض لوگ وہ بھی ہیں جو خود پر ہونے والی ہر تنقید کو حوصلہ شکنی سمجھتے
ہیں، ایسا نہیں ہے کیونکہ تعمیری تنقید حوصلہ شکنی نہیں ہوتی ہے ایسی تنقید سے خود
کو بہتر بنانے میں مدد لیجئے۔
یاد
رکھیے! حوصلہ شکن رویے اور تنقید وہ پتھر کی چٹانیں ہیں کہ جس کو قدم کے نیچے
رکھیں گے تو بلند ہوتے جائیں گے اور اگر سر پر سوار کریں گے تو ٹوٹ جائیں گے تمام
مسلمانوں کے لیے ہمارے پیارے نبی ﷺ کی ذات بہترین اور بے مثال نمونہ ہے، ہمارے
پیارے آقا مکی مدنی مصطفی ﷺ کی کفار کی طرف سے کیسی کیسی حوصلہ شکنی کی گئی؟ (معاذ
اللہ) مجنون کہہ کر پکارا گیا آپ پر ظلم و ستم کی انتہا کی گئی لیکن آپ نے اس ہمت
اور صبر سے حالات کا مقابلہ کیا کہ عقلیں حیران رہ جاتی ہیں،یوں ہیں صحابہ کرام
رضی اللہ عنہم کو اسلام آوری پر کتنے ہی حوصلہ شکن رویوں کا سامنا کرنا پڑا،
بزرگان دین کے حالات و واقعات پڑھیے تو آپ کو سینکڑوں مثالیں مل جائیں گی کہ وہ
حوصلہ شکنی کو خاطر میں نہیں لائے اور اپنے مقصد کو پانے میں کامیاب رہے انہی میں
سے ایک بہترین مثال موجودہ دور میں امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ کی ذات
بابرکت ہے کہ کس طرح کیسی کیسی حوصلہ شکن رویوں کا سامنا کرنے کے بعد آج وہ اس
مقام پر ہیں۔