حوصلہ شکنی کا مطلب ہے ہمت توڑنا، بزدل کرنا، مایوس کرنا وغیرہ اس میں کوئی شک نہیں کہ حوصلہ شکنی ہمارے معاشرے کی ایک بڑی کمزوری ہے۔

حوصلہ شکنی کی صورتیں: کسی کی صلاحیتوں کا اعتراف نہ کرنا، کسی کی پہلی غلطی پر ہی اسے ناکام قراردے دینا، اچھی کارکردگی پر حوصلہ افزائی نہ کرنا، کسی کا دوسرے سے بلاضرورت تقابل کر کے حوصلہ شکنی کرنا، کسی کی اچھی کارکردگی توجہ سے نہ سننا اور اچھے تاثرات نہ دینا وغیرہ کئی ایسے طریقے ہیں جو ہمارے معاشرے میں پائے جاتے ہیں۔

حوصلہ شکنی کے نقصانات: کسی کی حوصلہ شکنی کرنے سے احساس کمتری، مایوسی، نا امیدی، ڈپریشن اور ناکامی وغیرہ جیسے امور پروان چڑھتے ہیں، اس سے اردگرد کا ماحول خراب ہوتا ہے، جسکی حوصلہ شکنی کی جاتی ہیں وہ کسی سے مسائل شیئر نہیں کرپاتا اور آگے بڑھنے سے گھبراتا ہے۔

حوصلہ شکنی کے نقصانات سے بچنے کے لیے ان طریقوں کو اپنانا مفید ہے:

1)اپنے دل سے ناکامی اور حوصلہ شکنی کا ڈر نکال دیجیے۔

2) اپنے دل کو بڑا رکھیے تاکہ آپ آگے بڑھنے سے نہ رکیں۔

3) خود کو مضبوط کیجیے کہ آپ کی کوئی حوصلہ شکنی کرنے سے پہلے سوچے ساتھ رب تعالیٰ سے کامیابی کی دعا بھی کرتے رہیے۔

4) مایوس نہ ہوں بلکہ آگے بڑھنے کی کوشش کریں ان شاء اللہ الکریم کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔

5) یہ سوچیں کہ حوصلہ شکنی صرف میری نہیں ہوئی۔

اس طرح کے کئی واقعات کتابوں میں موجود ہیں، مثلاً پیارے آقا ﷺ کی کفار کی طرف سے کیسی کیسی حوصلہ شکنی کی گئی کہ آپ پر پتھر برسائے گئے، آپکو اللہ کی راہ میں خوب ستایا گیا تاکہ آپ دین کے کام سے پیچھے ہٹ جائیں لیکن پیارے آقا ﷺ نے بڑی ہمت اور حوصلے سے حالات کا مقابلہ فرمایا اور دین کا کام جاری رکھا جنہیں سن کر عقلین حیران رہ جاتی ہیں۔ اسکے علاوہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کو دین اسلام کی راہ میں حوصلہ شکن رویوں کا سامنا کرنا پڑا جیسے کسی کے باپ نے اس پر ظلم کیا، تو کسی کو تپتی ریت پر لٹا کر سینے پر وزن رکھ دیا گیا، کسی کو کھانا پانی نہیں دیا گیا الغرض کئی ایسے واقعات ہیں لیکن اسکے باوجود صحابہ کرام نے دین اسلام نہ چھوڑا اور کامیاب ہوگئے۔

صبر و ہمت سے کام لینے والے کو کئی احادیث مبارکہ میں خوشخبری بھی دی گئی جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسلمان کو جو تکلیف، رنج، ملال اور اذیت و غم پہنچے، یہاں تک کہ اسکے پیر میں کوئی کانٹا ہی چبھے تو اللہ تعالیٰ اس کے سبب ان کے گناہ مٹادیتا ہے۔ (بخاری، 4/3، حدیث: 5641)

اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ پاک جسکے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے تکالیف میں مبتلا کرتا ہے۔ (بخاری، 4/3، حدیث: 5645)

حوصلہ شکنی نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ اسکو سمجھایا ہی نہ جائے بلکہ اچھے انداز میں پہلے اسے اسکی خوبیاں بتائی جائیں پھر احسن انداز میں اسے اسکی خامیاں بتاکر سمجھایا جائے جیسا کہ بزرگان دین کا طریقہ رہا ہے۔

جب بھی کوئی شخص ناکامی کی طرف بڑھنے لگے یا غلط کام کرے تو اسکی حوصلہ شکنی کرنے کے بجائے اسے سمجھائے اسکی غلطیوں کو چھپائے، کہا گیا ہے کہ کریم کی عادت یہ ہے کہ جب وہ قدرت پاتا ہے تو معاف کردیتا ہے اور جب کوئی غلطی دیکھتا ہے تو اسے چھپاتا ہے۔ (دین و دنیا کی انوکھی باتیں، 1/442)

کسی کے اچھے کام میں حوصلہ افزائی کرنے سے اس میں مزید آگے بڑھنے کی لگن پیدا ہوتی ہے جبکہ اسکے برعکس یعنی حوصلہ شکنی کرنے سے انسان رک جاتا ہے اور آگے بڑھنے سے بھی کتراتا ہے اور اگر وہ کسی غلط کام کرنے کی طرف بڑھے تو اسے نرمی کے ساتھ سمجھائے کہ سختی کرنے سے کام خراب ہوجاتا ہے۔

ہے فلاح و کامرانی نرمی و آسانی میں ہر بنا کام بگڑ جاتا ہے نادانی میں

ناکام شخص کو سمجھانے سے وہ سمجھ جائے یہ ضروری نہیں کیونکہ ہر ایک کا مزاج الگ ہوتا ہے لہذا اس سے ایسا کلام کیا جائے کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے منقول ہے کہ بولنے والے کا نشاط سننے والے کی توجہ کے مطابق ہوتا ہے اور بولنے والے پر یہ لازم ہے کہ وہ سننے والے کی عقل کے مطابق کلام کرے۔ (دین و دنیا کی انوکھی باتیں، 1/281)

حوصلہ افزائی کے فوائد: کسی کی حوصلہ افزائی کرنے سے اس میں مزید جذبہ بیدار ہوتا ہے، انسان بالآخر کامیاب ہوجاتا ہے، حوصلہ افزائی کرنے سے انسان احساس کمتری، مایوسی وغیرہ میں مبتلا ہونے سے بچ جاتا ہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں لوگوں کی خیر خواہی کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین