قرآن مجید میں جابجا رب کائنات نے اپنے بندوں کو نصیحت فرمائی ہے۔آج ہم قرآن مجید میں سب سے پہلے نبی حضرت سیدنا آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے واقعے سے متعلق جو ہمیں سیکھنے کو ملتا ہے، جو نصیحتیں حاصل ہوتی ہیں، ان میں سے چند نصیحتوں کو زینتِ قِرطاس بنانے کی کوشش کریں گے، اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں ان نصیحتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس علم کو ہمارے لیے علم نافع بنائے۔

(1)لاعلمی کا اظہار کرنا:قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ(۳۲) ترجمۂ کنز الایمان:بولے پاکی ہے تجھے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا بے شک تو ہی علم و حکمت والا ہے۔(البقرۃ: 32)

حضرت آدم علیہ السّلام کی تخلیق کے بعد جب رب العالمین نے فرشتوں سے پوچھا کہ ان اشیاء کے نام بتاؤ، تو فرشتوں نے ان کے نام معلوم نہ ہونے پر لاعلمی کا اظہار کیا۔اس میں ہر صاحب علم بلکہ ہر مسلمان کیلئے یہ نصیحت ہے کہ ہمیں کسی بات کا علم نہ ہو تو اس کے بارے میں لاعلمی (نہیں معلوم) کا صاف اظہار کر دیں۔لوگوں کی ملامت سے ڈر کر یا عزت و شان کم ہونے کے خوف سے کبھی کوئی بات خود سے بیان نہ کی جائے۔

بعض لوگ اپنی شان و شوکت کو بڑہانے کے لیے مسائل کے درست جوابات معلوم نہ ہونے پر اپنی عقل کے مطابق جوابات دیتے ہیں تو ان لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ ہمارے اس غلط جواب دینے سے دین اور سامنے والے بندے کا کتنا نقصان ہوگا۔

محبوب کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان پڑھیے اور بغیر علم کے فتویٰ دینے سے خود کو بچائیے۔جیسا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جس نے بِغیر علم کے فتویٰ دیا تو آسمان و زمین کے فِرِشتے اُس پر لعنت بھیجتے ہیں۔(کنزالعمال، 10/193، حدیث:29018)

سیدی اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:جھوٹا مسئلہ بیان کرناسخت شدیدہ کبیرہ ہے۔(فتاویٰ رضویہ، جلد23)

مسائل کا جواب دینا مفتی کا کام ہے،اس لیے ہمیں چاہیے جب بھی کوئی مسئلہ دریافت کرے تو ہم فوراً دار الافتاء اہل سنت سے رابطہ کروائیں بجائے اس کے ہم خود مفتی بن جائیں۔

(2)تکبر سے بچو: وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا۔(پارہ:01،سورۃالبقرہ،آیت:34)

اللہ پاک نے جب فرشتوں کو اور ابلیس کو حکم دیا کہ تم حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کو سجدہ کرو تو تمام فرشتوں نے رب العالمین کے اس حکم کو مانتے ہوئے حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ کیا۔اور سوائے ابلیس کے تمام فرشتے سجدے میں جھک گئے۔اور ابلیس نے وہاں غرور و تکبر کیا! اور کہا کہ میں اس (جناب آدم علیہ السّلام) کو کیوں سجدہ کروں جس کو مٹی سے بنایا گیا اور حالانکہ میں تو آگ سے بنایا گیا ہوں۔

ابلیس سے سرزد ہونے والے گناہوں میں بنیادی گناہ تکبر تھا۔حدیث مبارکہ میں ہے: تکبر حق بات کو جھٹلانے اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔(مسلم، کتاب الایمان، حدیث: 265)

تکبر کبیرہ گناہوں میں سے ہے اور جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ اور متکبروں کو قیامت کے دن لوگ اپنے پاؤں سے روندیں گے۔اس حدیث مبارکہ اور روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تکبر کرنے والا دنیا میں بھی خسارے میں ہے اور آخرت میں بھی خسارے میں ہے۔اور یہ کبیرہ گناہ کرنے والوں میں سے ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے آپ کو غرور و تکبر سے ہمیشہ بچائیں۔تکبر کرنا یہ شیطان کا کام ہے اور عاجزی و انکساری سے کام لینا یہ انبیائے کرام عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کی مبارک صفت اور سنت ہے۔

(3)انبیاء کی گستاخی سے بچو: ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۶۱) ترجَمۂ کنز الایمان: اور وہ جو رسولُ اللہ کو ایذا دیتے ہیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔(پ10، التوبۃ:61)

ایک اور مقام پر اللہ پاک نے ایسے لوگوں پر لعنت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:

اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا(۵۷) ترجَمۂ کنز الایمان:بے شک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ نے ان کے لیے ذلّت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔(پ22، الاحزاب:57)

معلوم ہواکہ محبوبِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی گستاخی کرنے اور انہیں اذیّت پہنچانے والاآخرت میں دردناک عذاب کا مستحق ہے اوردنیا میں بھی اس کا انجام بھیانک ہوتا ہے۔

حضرت علیُّ المُرْتضیٰ شیر خدا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ محبوب کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے ایک موئے مبارک کو پکڑ کر ارشاد فرمایا: جس شخص نے میرے ایک بال کو تکلیف دی بے شک اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے اللہ پاک کو تکلیف دی اور جس نے اللہ پاک کو تکلیف دی اس پر زمین وآسمان کے بھرنے کے برابر خدا کی لعنت۔(کنزالعمال،کتاب الفضائل، باب فضائل النبی…الخ، 12/159، حدیث:35347)

اللہ پاک کے انبیا علیہم السلام کی گستاخی اتنا بڑا جرم ہے کہ جس کی سزا میں زندگی بھر کی عبادت و ریاضت برباد ہو جاتی ہے، ابلیس جیسے انتہائی عبادت گزار کا انجام اس کی عبرت انگیز مثال ہے۔

محبوبِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کائنات کی سب سے مکرّم ومُعَظّم ہستی ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں سب سے زیادہ مقبول و محبوب ہیں، ایسے میں اگر کوئی دُشْمنِ رسول، محبوبِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر طعنہ زنی کرے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ خالقِ کائنات پاک اس بات کو گوارا کرلے، وہ ہستی جنہیں حبیبِ خدا ہونے کا شرف حاصل ہو اس کے مُتَعَلِّق کسی بھی قسم کے نازیبا الفاظ استعمال کرنا یا انہیں کسی بھی طرح سے تکلیف پہنچانا، اللہ پاک کو ہرگز ہرگز پسند نہیں بلکہ ایسی جسارت کرنے والوں کو تو دردناک عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔

(4)پردہ کرنا: رب العالمین قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ(۳۵) ترجمۂ کنزالایمان: اس پیڑ کے پاس نہ جانا کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہوجاؤ گے۔(البقرہ: 35)

تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ شیطان کے دھوکے کی وجہ سے انہوں نے اس ممنوعہ درخت کا پھل کھا لیا اور پھل کھاتے ہی ان کے پردے کے مقام بے پردہ ہوگئے اور وہ اسے چھپانے کیلئے ان پر پتے ڈالنے لگے۔اس وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ کیا میں نے تمہیں اس درخت سے منع نہیں کیا تھا؟اور میں نے تم سے یہ نہ فرمایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے؟ اس کے بعد حکمِ الٰہی ہوا کہ تم زمین پر اترجاؤ۔اب تمہاری اولادآپس میں ایک دوسرے کی دشمن ہوگی اور تم ایک خاص وقت تک زمین میں رہوگے۔(صراط الجنان، جلد 1، سورۂ بقرہ، آیت نمبر 35)

حضرت آدم علیہ السّلام اور حضرت حوا رضی اللہ عنہا جب آپ دونوں مبارک ہستیوں سے لباس جدا ہوا تو آپ دونوں نے اپنے بدن کو پتوں کے ذریعے اپنے بدن کو چھپانا شروع کر دیا۔تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پوشیدہ اعضاء کا چھپانا انسانی فطرت میں داخل ہے۔اب جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ننگا ہونا انسانی فطرت ہے تو یہ ان نادنوں کی بھول ہے اور حضرت آدم علیہ السّلام کے اس عمل سے ان لوگوں کی فطرت مسخ ہو چکی ہے۔

یاد رکھیں! پردہ ایک ایسے قلعے کی طرح ہے جس میں ہر ایک کو داخلے کی اجازت نہیں ہوتی۔پردہ دراصل پرہیزگاری کی علامت ہے۔پردے کی برکت سےمعاشرے کو بدکاری کی آفت سے نجات ملتی ہے۔پردے کی برکت سے عبادت میں لذت حاصل ہوتی ہے۔

حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ حضرت سیِّدَتُنا اُمِّ خَلاد رضی اللہ عنہا کا بیٹا جنگ میں شہید ہو گیا تو آپ اپنے بیٹے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے چہرے پر نِقاب ڈالے باپردہ بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں حاضِر ہوئیں، اِس پر کسی نے حیرت سے کہا: اِس وقْت بھی آپ نے مُنہ پر نِقاب ڈال رکھا ہے؟ کہنے لگیں: میں نے بیٹا ضَرور کھویا ہے، (مگر) حیا نہیں کھوئی۔(سنن ابی داؤد،کتاب الجہاد،باب فضل قتال الخ، 3/9،حدیث:2488)

پردے کے چند فوائد: ٭ پردہ عزت کا محافظ ہے ٭پردے کی برکت سے دل کو پاکیزگی اور تقویٰ جیسی نعمتیں حاصل ہوتی ہیں ٭پردے سے حیا وغیرت جیسے اوصاف پیدا ہوتے ہیں ٭پردہ عفت و پاکدامنی کی نشانی ہے٭پردے کی برکت سے شیطانی وسوسے دور ہوتے ہیں جس کی وجہ سے تہمت،بہتان اور بدگمانی سے حفاظت رہتی ہے ٭پردہ حیا پیدا کرنے کا ذریعہ ہے اور حیا ایمان کا ایک شعبہ ہے۔

(5)گناہ کے بعد توبہ کرنا: اللہ پاک قرآنِ پاک میں ارشادفرماتا ہے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًاؕ-ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو! اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جو آگے کو نصیحت ہوجائے۔(پ28، التحریم: 8)

صدرالافاضل حضرتِ علّامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں: توبۂ صادِقہ جس کا اثر توبہ کرنے والے کے اَعمال میں ظاہر ہو، اُس کی زندگی طاعتوں اور عبادتوں سے معمورہو جائے اور وہ گناہوں سے مجتنب (یعنی بچتا) رہے۔امیر المؤمنین حضرتِ سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اور دوسرے اَصحاب نے فرمایا کہ توبۂ نصوح وہ ہے کہ توبہ کے بعد آدمی پھر گناہ کی طرف نہ لوٹے جیسا کہ نکلا ہوا دودھ پھر تھن میں واپس نہیں ہوتا۔(نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ106)

جب بندہ اچانک آنے والی موت کو یاد رکھے گا تو امید ہے اسے توبہ کا مدنی ذہن نصیب ہوگا۔اسی لیے حکمت ودانائی کے پیکر حضرت سیدنا حکیم لقمان رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو یہ نصیحت فرمائی: بیٹا! توبہ میں تاخیر نہ کرنا کیونکہ موت اچانک آتی ہے۔(احیاء العلوم،4/38)

روایت میں آیا ہے:دوزخیوں کی زیادہ چیخ وپکار توبہ میں ٹال مٹول کے سبب ہوگی۔(ایضاً)

حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام نے اپنی لغزش کے بعد جس طرح دعا فرمائی، اس میں مسلمانوں کے لیے یہ تربیت ہے کہ جب بھی کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اللہ پاک کی بارگاہ میں اپنے گناہ پر ندامت کا اظہار کریں اور مغفرت اور رحمت کا عاجزی سے گڑگڑا کر سوال کریں۔

اللہ پاک ہمیں ان نصیحتوں پر عمل کرنے توفیق عطا فرمائے اور ہمیں سچی پکی توبہ کرنے والوں میں شامل کرکے ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے، اٰمین۔