حضرت آدم علیہ السّلام سب سے پہلے انسان اور تمام انسانوں کے باپ ہیں اسی لئے آپ کا لقب ابو البشر ہے۔

اللہ تعالیٰ نے خاص اپنے دست قدرت سے آپ کا جسم مبارک بنایا اور اس میں اپنی طرف سے ایک خاص روح پھونک کر پسند یدہ صورت پر پیدا فرمایا۔انہیں کائنات کی تمام اشیاء کے ناموں، ان کی صفات اور ان کی حکمتوں کا علم عطا فرمایا۔

فرشتوں نے ان کی علمی فضیلت کا اقرار کر کے انہیں سجدہ کیا جبکہ ابلیس سجدے سے انکار کر کے مردود ہوا۔حضرت آدم علیہ السّلام کثیر فضائل سے مشرف ہیں اور قرآن وحدیث میں آپ کا کثرت سے تذکرہ موجود ہے۔چنانچہ آپ علیہ السّلام کا اجمالی تذکرہ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر موجود ہے اور تفصیلی ذکر درج ذیل 7 سورتوں میں کیا گیا ہے:

(1) سورۂ بقرہ (2) سورۂ اعراف (3) سورۂ حجر (4) سورۂ بنی اسرائیل (5) سورۂ کہف (6) سورۂ طہ (7) سورۂ قصص

(1)ماتحت افراد سے مشورہ کرنے کی ترغیب: تخلیق آدم سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے مشورے کے انداز میں کلام فرمایا، اس میں ہمارے لیے یہ تعلیم ہے کہ ہم بھی کوئی اہم کام شروع کرنے سے پہلے اپنے ماتحت افراد سے مشورہ کر لیا کریں، اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ یا تو مزید کوئی اچھی رائے مل جائے گی جس سے کام اور زیادہ بہتر طریقے سے ہو جائے گا یا اس کام سے متعلق ماتحت افراد کے ذہن میں موجود خلش کا ازالہ ہو جائے گا۔

(2) علم کی فضیلت: حضرت آدم علیہ السّلام کو جو فرشتوں پر فضیلت عطا ہوئی اس کا ظاہری سبب آپ کا علم تھا، اس سےیہ بات معلوم ہوئی کہ علم خلوتوں اور تنہائیوں کی عبادتوں سے افضل ہے۔

(3)نامعلوم بات پر لاعلمی ظاہر کردی جائے: اشیاء کے نام معلوم نہ ہونے پر فرشتوں نے اپنی لاعلمی کا اعتراف کر لیا۔اس میں ہر صاحب علم بلکہ ہر مسلمان کے لیے یہ نصیحت ہے کہ جو بات معلوم نہ ہو اس کے بارے میں لاعلمی کا صاف اظہار کر دیا جائے، لوگوں کی ملامت سے ڈر کر یا عزت و شان کم ہونے کے خوف سے کبھی کوئی بات گھڑکر بیان نہ کرنی چاہئے۔

(4) حکمِ الٰہی کے مقابل قیاس کا استعمال: فرشتوں نے کسی پس و پیش کے بغیر حکمِ الٰہی پر فوری عمل کرتے ہوئے حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ کیا جبکہ شیطان نے حکمِ الٰہی کو اپنی عقل کے ترازو میں تولا، اسے عقل کے خلاف جانا اور اس پر عمل نہ کر کے بر بادی کا شکار ہوا۔اس سے معلوم ہوا کہ حکمِ الٰہی کو من و عن اور چوں چرا کئے بغیر تسلیم کرناضروری ہے۔حکمِ الٰہی کے مقابلے میں اپنی عقل استعمال کرنا، اپنی فہم و فراست کے پیمانے میں تول کر اس کے درست ہونے یانہ ہونے کا فیصلہ کرنا اور مخالف عقل جان کر عمل سے منہ پھیر لینا کفر کی دلدل میں دھکیل سکتا ہے۔

(5) تکبر کی مذمت:ابلیس سے سرزد ہونے والے گناہوں میں بنیادی گناہ تکبر تھا۔حدیث پاک میں ہے: تکبر حق بات کو جھٹلانےاور دوسروں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔تکبر کبیرہ گناہ ہے اور جس کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہ ہو گا اور متکبروں کو قیامت کے دن لوگ اپنے پاؤں سے روندیں گے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قصہ آدم سے حاصل ہونے والی نصیحتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔