علی
حسنین ارشد (درجہ سابعہ جامعۃ المدینہ فیضانِ فاروق اعظم سادہوکی لاہور ، پاکستان)
اسلام نے
انسانی زندگی کے ہر پہلو کو خوبصورتی سے بیان کیا ہے اور راستے کے حقوق کو ایک خاص
اہمیت دی ہے۔ ان حقوق کی وضاحت نبی کریم ﷺ کی مبارک احادیث میں موجود ہے۔ ذیل میں
راستے کے حقوق پر چند اہم احادیث کو عربی متن، اردو ترجمہ اور حوالہ کے ساتھ پیش
کیا جا رہا ہے:
(1)
راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا ایمان کا حصہ ہے: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ
اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: الإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ
أَوْ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً، فَأَفْضَلُهَا قَوْلُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ
اللَّهُ، وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ
مِنَ الإِيمَانِ ترجمہ: حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایمان کے ستر یا ساٹھ
سے زیادہ شعبے ہیں، سب سے افضل 'لا الہ الا اللہ' کہنا ہے اور سب سے ادنیٰ راستے
سے تکلیف دہ چیز ہٹانا ہے، اور حیا ایمان کا ایک حصہ ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب
الإیمان، باب شعب الإیمان، ج1، ص63، حدیث: 35)
(2)
راستے کے حقوق کی وضاحت: عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،
قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: إِيَّاكُمْ وَالْجُلُوسَ فِي الطُّرُقَاتِ. فَقَالُوا:
يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لَنَا بُدٌّ مِنْ مَجَالِسِنَا نَتَحَدَّثُ فِيهَا،
فَقَالَ: إِذَا أَبَيْتُمْ إِلَّا الْمَجْلِسَ، فَأَعْطُوا الطَّرِيقَ حَقَّهُ.
قَالُوا: وَمَا حَقُّ الطَّرِيقِ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: غَضُّ الْبَصَرِ،
وَكَفُّ الْأَذَى، وَرَدُّ السَّلَامِ، وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ، وَالنَّهْيُ
عَنِ الْمُنْكَرِ ترجمہ: حضرت ابو
سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: راستوں میں بیٹھنے
سے بچو۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم مجبور ہیں، یہ ہماری مجلسیں ہیں جہاں
ہم گفتگو کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر بیٹھنا ہی ہے تو راستے کا حق ادا کرو۔ صحابہ
نے عرض کیا: راستے کا حق کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نگاہ نیچی رکھنا، تکلیف نہ دینا،
سلام کا جواب دینا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔ (صحیح بخاری، کتاب
المظالم، باب الجلوس فی الطریق، ج2، ص882، حدیث: 2465)
(3)
راستے میں قضائے حاجت سے اجتناب: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ
رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: اتَّقُوا اللَّعَّانَيْنِ قَالُوا: وَمَا اللَّعَّانَانِ
قَالَ: الَّذِي يَتَخَلَّى فِي طَرِيقِ النَّاسِ، أَوْ فِي ظِلِّهِمْ ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ان دو لعنت والے کاموں سے بچو۔ صحابہ نے عرض کیا: وہ
کون سے کام ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: لوگوں کے راستے یا ان کے سائے میں قضائے حاجت
کرنا۔ (صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ، باب النہی عن التخلی فی الطرق، ج1، ص223، حدیث: 269)
(4)
راستے کی صفائی کا حکم: حضرت جابر
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اپنے صحن اور راستے کو صاف
رکھو اور یہودیوں کے ساتھ مشابہت نہ کرو۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الطہارۃ، باب فی
افنیۃ البیوت، ج1، ص330، حدیث: 728)
ان احادیث
مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ راستے کے حقوق ادا کرنا ایمان کا حصہ ہے اور یہ اللہ
کی رضا اور خوشنودی کا ذریعہ ہے۔ راستے کو صاف رکھنا، دوسروں کو تکلیف سے بچانا،
نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا، یہ سب وہ اعمال ہیں جن سے ایک پرامن اور
مہذب معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ آمین