سلمان
علی ( درجہ سابعہ جامعۃ المدینہ فیضانِ فاروقِ اعظم سادھوکی لاہور ، پاکستان)
اسلام ایک
ایسا دین ہے جو انسانوں کے باہمی تعلقات اور سماجی معاملات کو بہترین انداز میں
منظم کرتا ہے۔ راستے کے حقوق کا خیال رکھنا انہی اہم امور میں سے ہے۔ راستے کی
صفائی، دوسروں کو اذیت سے بچانا، اور راستے میں قضائے حاجت سے اجتناب ان حقوق میں
شامل ہیں۔ ان اصولوں پر عمل ایک پرامن اور مہذب معاشرے کی بنیاد ہے۔ راستے کے حقوق
کے متعلق احادیث نبویہ میں بھی اِس کی تربیت فرمائی گئی ہے جیسا کہ حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا :
(1)راستے
سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ایمان ہے: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ
رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ:الإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ أَوْ بِضْعٌ وَسِتُّونَ
شُعْبَةً، فَأَفْضَلُهَا قَوْلُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَأَدْنَاهَا
إِمَاطَةُ الأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الإِيمَانِ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ایمان کے ستر یا ساٹھ سے زیادہ شعبے
ہیں، سب سے افضل ”لا
الہ الا اللہ“ کہنا ہے اور سب سے
ادنیٰ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے، اور حیا ایمان کا ایک حصہ ہے۔ (صحیح
مسلم، کتاب الایمان، باب شعب الایمان، ج1، ص63، حدیث: 35)
(2)راستے
میں بیٹھنے سے اجتناب اور حقوق: عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِيَّاكُمْ
وَالْجُلُوسَ فِي الطُّرُقَاتِ.
فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لَنَا بُدٌّ مِنْ مَجَالِسِنَا
نَتَحَدَّثُ فِيهَا فَقَالَ: إِذَا أَبَيْتُمْ إِلَّا الْمَجْلِسَ، فَأَعْطُوا
الطَّرِيقَ حَقَّهُ قَالُوا: وَمَا حَقُّ الطَّرِيقِ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: غَضُّ
الْبَصَرِ، وَكَفُّ الْأَذَى، وَرَدُّ السَّلَامِ، وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ،
وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْكَرِ حضرت
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: راستوں میں
بیٹھنے سے بچو۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم مجبور ہیں، یہ ہماری مجلسیں
ہیں جہاں ہم گفتگو کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تمہیں بیٹھنا ہی ہے تو راستے کا
حق ادا کرو۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! راستے کا حق کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
نگاہ نیچی رکھنا، تکلیف نہ دینا، سلام کا جواب دینا، نیکی کا حکم دینا اور برائی
سے روکنا۔(صحیح بخاری، کتاب المظالم، باب الجلوس فی الطریق، ج2، ص882، حدیث: 2465)
(3)راستے
یا سایے میں قضائے حاجت سے اجتناب: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ
رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: اتَّقُوا اللَّعَّانَيْنِ قَالُوا: وَمَا اللَّعَّانَانِ
قَالَ: الَّذِي يَتَخَلَّى فِي طَرِيقِ النَّاسِ، أَوْ فِي ظِلِّهِمْ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ان دو لعنت والے کاموں سے بچو۔ صحابہ نے عرض کیا: وہ کون
سے کام ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: لوگوں کے راستے یا ان کے سائے میں قضائے حاجت کرنا۔ (صحیح
مسلم، کتاب الطہارۃ، باب النہی عن التخلی فی الطرق، ج1، ص223، حدیث: 269)
(4)راستے
کی صفائی کا حکم: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اپنے صحن اور راستے کو صاف رکھو اور یہودیوں کے ساتھ
مشابہت نہ کرو۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الطہارۃ، باب فی افنیۃ البیوت، ج1، ص330،
حدیث: 728)
راستے کے حقوق
اسلام کی جامع اور عملی تعلیمات کا حصہ ہیں جو فرد اور معاشرے کی بھلائی کے لیے
ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے راستے کی صفائی، تکلیف دہ چیزوں کو ہٹانے، اور نیکی کے فروغ پر
زور دے کر ان حقوق کی اہمیت واضح کی۔ ان اصولوں پر عمل سے نہ صرف سماجی ہم آہنگی
پیدا ہوتی ہے بلکہ اللہ کی رضا اور اجر بھی حاصل ہوتا ہے۔ یہ ہر مسلمان کی ذمہ
داری ہے کہ ان حقوق کو اپنائے اور دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرے۔