علی
شان عثمان (درجہ ثانیہ مرکزی جامعۃالمدینہ فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور ، پاکستان)
اسلام ایک
مکمل ضابطۂ حیات ہے۔اسلام نے بڑی ہی خوبصورتی کے ساتھ لوگوں کے حقوق بیان کیے ہیں
یہاں تک کہ راستے کے بھی حقوق بیان کیے ہیں کہ راستے میں کون سے کام کرنے چاہئیں
اور کن کاموں سے بچنا چاہیے تاکہ مسلمان ان کاموں کو کر کے پریشانی سے بچ سکیں۔
ذیل میں راستے
کے چند حقوق بیان کیے جاتے ہیں ۔
(1)
راستے کے حقوق: راستے سے تکلیف دہ
چیزیں ہٹانے، اس پر بیٹھنے سے منع کیا گیا ہے اور بد نظری سے بچنے کے لیے نگاہیں
نیچی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔حدیث مبارکہ میں ارشاد ہوتا ہے۔ وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ
الْخُدْرِيِّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:
«إِيَّاكُمْ وَالْجُلُوسَ بِالطُّرُقَاتِ» . فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللّٰهِ مَا
لَنَا مِنْ مَجَالِسِنَا بُدٌّ نَتَحَدَّثُ فِيهَا. قَالَ: «فَإِذَا أَبَيْتُمْ
إِلَّا الْمَجْلِسَ فَأَعْطُوا الطَّرِيقَ حَقَّهٗ» . قَالُوا: وَمَا حَقُّ
الطَّرِيقِ يَا رَسُولَ اللّٰهِ قَالَ: «غَضُّ الْبَصَرِ وَكَفُّ الْأَذٰى وَرَدُّ
السَّلَامِ، والأَمرُ بِالْمَعْرُوفِ، وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْكَرِ
روایت ہے حضرت
ابوسعید خدری سے وہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے راوی فرمایا: راستوں پر بیٹھنے سے
بچو ۔لوگوں نے عرض کیا یارسول الله ہم کو وہاں بیٹھنے کے سوا چارہ نہیں ہم وہاں
بات چیت کرتے ہیں۔ فرمایا: اگر بغیر بیٹھے نہ مانو تو راستہ کو اس کا حق دو، انہوں
نے عرض کیا کہ راستہ کا کیا حق ہے یارسول الله ، فرمایا نگاہ نیچے رکھنا،تکلیف دہ
چیز ہٹانا اور سلام کا جواب دینا اور اچھائیوں کا حکم دینا،برائیوں سے روکنا
(بخاری۔كتاب المظالم.بَاب: أَفْنِيَةِ الدُّورِ وَالْجُلُوسِ فِيهَا وَالْجُلُوسِ
عَلَى الصُّعُدَاتِ.ج2.ص870.حديث2333.(دار ابن كثير،دار اليمامۃدمشق)
(2)
قضائے حاجت نہ کرنا : راستے میں
گندگی سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے اس لیے راستے میں قضائے حاجت کرنے سے منع کیا گیا
ہے ۔ وَعَنْ
مُعَاذٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:اتَّقُوْا
الْمَلَاعِنَ الثَّلَاثَةَ: الْبَرَازَ فِي الْمَوَارِدِ، وَقَارِعَةِ الطَّرِيقِ،
وَالظِّلِّ روایت ہے حضرت معاذ سے
فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین لعنتی چیزوں سے
بچو،گھاٹوں،درمیانی راستہ اور سایہ میں پاخانہ کرنے سے۔ (ابو داؤد ۔کتاب
الطہارت۔باب المواضع التی نهى النبی صلى الله علیہ وسلم عن البول
فيها۔جلد1۔ص7۔حدیث 26۔المکتبۃ العسریۃ صيدا بيروت)
(3)
راستے سے موذی چیزیں ہٹانا: لوگوں
کو راحت پہنچانا ثواب کا باعث ہے راستے سے تکلیف دہ چیزیں ہٹانا بھی اسی میں داخل
ہے ۔ وَعَنْ
أَبِي بَرْزَةَ قَالَ: قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللّٰهِ! عَلِّمْنِي شَيْئًا
أَنْتَفِعْ بِهِ، قَالَ: اعْزِلِ الأَذَى عَنْ طَرِيقِ الْمُسْلِمِينَ روایت ہے حضرت ابو برزہ سے فرماتے ہیں میں نے
عرض کیا یا نبی ﷲ مجھے وہ بات سکھائیے جس سے نفع اٹھاؤں فرمایا مسلمانوں کے راستہ
سے موذی چیز ہٹا دو ۔ (مسلم، کتاب البر والصلة والآداب، باب فضل ازالۃ الاذى عن
الطريق، ج4، ص2021، حديث2618 مطبعۃ عيسی البابی الحبلی و شركاه.القاهره)
(4)
راستے سے پتھر اور کانٹے ہٹانا: راستے
سے پتھر اور کانٹے ہٹانا باعثِ ثواب ہے ۔ وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ
صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : خُلِقَ كُلُّ إِنْسَانٍ مِنْ بَنِي آدَمَ
عَلَى سِتِّينَ وَثَلَاثِ مِئَةِ مَفْصِلٍ، فَمَنْ كَبَّرَ اللَّه، وَحَمِدَ
اللّٰهَ، وَهَلَّلَ اللّٰهَ، وَسَبَّحَ اللّٰهَ ، وَاسْتَغْفَرَ اللّٰهَ ،
وَعَزَلَ حَجَرًا عَنْ طَرِيقِ النَّاسِ، أَوْ شَوْكَةً، أَوْ عَظْمًا،أَوْ أَمَرَ
بِمَعْرُوفٍ، أَوْ نَهٰى عَنْ مُنْكَرٍ عَدَدَ تِلْكَ السِّتِّينَ وَالثَّلَاثِ
مِئَةِ، فَإِنَّهُ يَمْشِي يَوْمَئِذٍ وَقَدْ زَحْزَحَ نَفْسَهُ عَنِ النَّارِ روایت ہے حضرت عائشہ سے فرماتی ہیں فرمایا رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ اولاد آدم میں ہر انسان تین سو ساٹھ جوڑوں پر پیدا
کیا گیا تو جو اللّٰہ کی تکبیر کہے،اس کی حمد کرے، تہلیل کرے،تسبیح پڑھے، اللہ سے
معافی چاہے،لوگوں کے راستہ سے پتھریا کانٹا یا ہڈی ہٹا دے یا اچھی بات کا حکم دے
یا برائی سے منع کرے ان تین سو ساٹھ کی گنتی کے برابر تو وہ اس دن چلے گا اس حال
میں کہ اپنی جان کو آگ سے دور کیا ہوگا۔ (مسلم، كتاب الزكوة.باب بيان ان اسم
الصدقۃ يقع على كل نوع من المعروف .ج2.ص298.حديث1007.مطبعۃ عيسی البابی الحبلی و
شركاه القاهره)