اللہ تعالیٰ نے دنیا میں مختلف قوموں کی طرف نبی بھیجے، انبيائے کرام عليہم السّلام کے واقعات میں ہمارے لئے بہت سے درس و نصیحتیں ہیں، آئیے!حضرت آدم علیہ السّلام کے واقعے سے حاصل ہونے والی نصیحتیں پڑھ کر ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں:

اَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْ نَ(۳۳) ترجمۂ کنز الایمان: میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو۔فرشتوں نے جو بات ظاہر کی تھی وہ یہ تھی کہ انسان فساد انگیزی اور خون ریزی کرے گا اورجو بات چھپائی تھی وہ یہ تھی کہ خلافت کے مستحق وہ خود ہیں اور اللہ تعالیٰ ان سے زیادہ علم و فضل والی کوئی مخلوق پیدا نہ فرمائے گا۔آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فرشتوں کے علوم و کمالات میں زیادتی ہوتی ہے۔(تفسیر صراط الجنان، البقرہ: 33)

حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے شیطان مردود ہوا تھا لہٰذا وہ حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کو نقصان پہنچانے کی تاک میں رہا۔اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام اورحضرت حوا رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ جنت میں رہو اور جہاں دل کرے بے روک ٹوک کھاؤالبتہ اِس درخت کے قریب نہ جانا۔شیطان نے انہیں وسوسہ ڈالا اورکہنے لگا کہ تمہیں تمہارے رب پاک نے اس درخت سے اس لیے منع فرمایا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا تم ہمیشہ زندہ رہنے والے نہ بن جاؤاوراس کے ساتھ شیطان نے قسم کھاکر کہا کہ میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں۔اس پر انہیں خیال ہوا کہ اللہ پاک کی جھوٹی قسم کون کہا سکتا ہے، اس خیال سے حضرت حوا رضی اللہ عنہانے اس میں سے کچھ کھایا پھر حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کو دیا توانہوں نے بھی کھا لیا اور یہ خیال کیا کہ اللہ تعالیٰ کی ممانعت تحریمی نہ تھی بلکہ تنزیہی تھی یعنی حرام قرار دینے کیلئے نہ تھی بلکہ ایک ناپسندیدگی کا اظہار تھا۔یہاں حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام سے اجتہاد میں خطا ہوئی اور خطائے اجتہادی گناہ نہیں ہوتی۔چنانچہ شیطان کے دھوکے کی وجہ سے انہوں نے اس ممنوعہ درخت کا پھل کھا لیا اور پھل کھاتے ہی ان کے پردے کے مقام بے پردہ ہوگئے اور وہ اسے چھپانے کیلئے ان پر پتے ڈالنے لگے۔اس وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ کیا میں نے تمہیں اس درخت سے منع نہیں کیا تھا؟اور میں نے تم سے یہ نہ فرمایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔(تفسیر صراط الجنان، البقرہ:35، 36)

فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ ترجمۂ کنز الایمان:پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے۔

حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام نے اپنی دعا میں یہ کلمات عرض کئے:

رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (۲۳)ترجمۂ کنز الایمان:اے رب ہمارے ہم نے اپنا آپ برا کیاتو اگر تُو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم ضرور نقصان والوں میں ہوئے ۔

لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ترجمۂ کنز الایمان: ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا۔

حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے علمی فضل و کمال کو دیکھ کر فرشتوں نے بارگاہِ الٰہی میں اپنے عِجز کا اعتراف کیا اور اس بات کا اظہار کیا کہ ان کا سوال اعتراض کرنے کیلئے نہ تھا بلکہ حکمت معلوم کرنے کیلئے تھا اور اب انہیں اِنسان کی فضیلت اور اس کی پیدائش کی حکمت معلوم ہوگئی جس کو وہ پہلے نہ جانتے تھے۔اس آیت سے انسان کی شرافت اور علم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف تعلیم کی نسبت کرنا صحیح ہے اگرچہ اس کو معلم نہ کہا جائے گا کیونکہ معلم پیشہ ور تعلیم دینے والے کو کہتے ہیں۔(تفسیر صراط الجنان، البقرہ:32)

یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ ترجمۂ کنز الایمان:اے یعقوب کی اولاد۔

اسراء کا معنیٰ عبد یعنی بندہ اور اِیل سے مراد اللہ تو اسرائیل کا معنیٰ ہوا عبداللہ یعنی اللہ کا بندہ۔یہ عبرانی زبان کا لفظ ہے اور حضرت یعقوب عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کا لقب ہے۔(مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ:۴۰) دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے وہ عہد مراد ہے جواللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے ذریعے بنی اسرائیل سے لیاکہ میں آخری زمانے میں حضرت اسماعیل عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کی اولاد میں ایک نبی کوبھیجنے والاہوں تو جس نےان کی پیروی کی اور اس نور کی تصدیق کی جسے وہ لے کرآئے تو میں ا س کے گناہ بخش دوں گا اور اسے جنت میں داخل کروں گااور اسے دگنا ثواب عطا کروں گا۔(جلالین،البقرۃ، تحت الآیۃ:۴۰، ص۸-۹،خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ:۴۰،۱/۴۸،ملتقطاً-تفسیر صراط الجنان، البقرہ، آیت 40)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں قرآن پاک پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم