قرآنِ مجید میں بار بار اس مضمون کا بیان کیا گیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش مٹی سے ہوئی چنانچہ سورۂ ال عمرٰن میں ارشاد فرمایا :اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَؕ-خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ(۵۹) (پ3،ال عمرٰن:59) ترجمۂ کنزالعرفان: بےشک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی طرح ہے۔ اُسے مٹی سے پیدا کیا پھر اسے فرمایا”ہوجا“تو وہ ہوگیا۔

دوسری آیت میں اس طرح فرمایا: اِنَّا خَلَقْنٰهُمْ مِّنْ طِیْنٍ لَّازِبٍ(۱۱)(پ23،الصفت:11)بیشک ہم نے انہیں چپکنے والی مٹی سے بنایا۔

کہیں یہ فرمایا :وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍۚ(۲۶) (پ14،الحجر:26) ترجمہ کنزُالعِرفان:اور بیشک ہم نے انسان کوخشک بجتی ہوئی مٹی سے بنایا جو ایسے سیاہ گارے کی تھی جس سے بُو آتی تھی۔

قرآنِ مجید میں اللہ پاک نے حضرت حوا رضی اللہ عنہا کے بارے میں ارشاد فرمایا:وَّ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَ بَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِیْرًا وَّ نِسَآءًۚ- (پ4،النسآء:1)ترجمہ:اور اسی میں سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے کثرت سے مرد و عورت پھیلا دیئے۔

ضروری ہدایت:حضرت آدم و حوا رضی اللہ عنہا کی پیدائش کا واقعہ مضامینِ قرآنِ مجید کے عجائبات میں سے ہے جس کے دامن میں بڑی بڑی عبرتوں اور نصیحتوں کے گوہرِ آبدار کے انبار پوشیدہ ہیں۔جن میں سے چند یہ ہیں :

(1) اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے بنایا اور حضرت حوا رضی اللہ عنہا کو حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا فرمایا۔قرآنِ کریم کے اس بیان سے یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ اللہ پاک نے انسانوں کو چار طریقوں سے پیدا فرمایا ہے:

(1): مرد اور عورت دونوں کے ملاپ سے۔ جیسا کہ عام طور پر انسانوں کی پیدائش ہوتی ہے ۔چنانچہ قرآنِ مجید میں صاف صاف اعلان ہے:اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ ﳓ(پ29،الدھر:2) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ہم نے آدمی کو ملی ہوئی منی سے پیدا کیا۔

(2)تنہا مرد سے ایک انسان پیدا ہوا اور وہ حضرت حوا رضی اللہ عنہا ہیں کہ اللہ پاک نے ان کو حضرت آدم علیہ السلام کی بائیں پسلی سے پیدا فرما دیا ۔

(3)تنہا ایک عورت سے ایک انسان پیدا ہوئے اور وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں جو پاک دامن کنواری بی بی مریم کے شکم سے بغیر باپ کے پیدا ہوئے۔

(4)بغیر عورت و مرد کے بھی ایک انسان کو اللہ پاک نے پیدا فرما دیا اور وہ انسان حضرت آدم علیہ السلام ہیں کہ اللہ پاک نے ان کو مٹی سے بنا دیا۔

ان واقعات سے ان اسباق کی طرف راہ نمائی ہوتی ہے:

(1)اللہ پاک ایسا قادر و قیوم اور خالق ہے کہ انسانوں کو کسی خاص اور ایک ہی طریقے سے پیدا فرمانے کا پابند نہیں ہے بلکہ وہ ایسی عظیم قدرت والا ہے کہ وہ جس طرح چاہے انسانوں کو پیدا فرما دے۔چنانچہ مذکورہ بالا چار طریقوں سے اس نے انسانوں کو پیدا فرما دیا جو اس کی قدرت و حکمت اور اس کی عظیم الشان خلاقیت کا بہترین نمونہ ہے۔سبحان اللہ!اللہ پاک کی شانِ خالقیت کی عظمت کا کیا کہنا!جس خالقِ عالم نے عرش و کرسی اور لوح و قلم اور زمین و آسمان کو کُن فرما کر موجود فرما دیا اس کی قدرتِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ کے سامنے خلقتِ انسانی کی بھلا حقیقت و حیثیت ہی کیا ہے! لیکن اس میں کوئی شک نہیں کر پیدائشِ انسان اس قادرِ مطلق کا وہ پیدائشی شاہکار ہے کہ کائناتِ عالم میں اس کی کوئی مثال نہیں کیونکہ وجودِ انسان عالمِ خلق کی تمام مخلوقات کے نمونوں کا ایک جامع مرقع ہے۔مولائے کائنات،حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے کیا خوب ارشاد فرمایا کہ

اَتَحْسِبُ اِنَّکَ جِرْمٌ صَغِیْرٌ وَفِیْکَ اِنْطَوَی الْعَالَمُ الْاَکْبَرُ

یعنی اے انسان!کیا تو یہ گمان کرتا ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے؟حالانکہ تیری عظمت کا یہ حال ہے کہ تیرے اندر عالم اکبر سمٹا ہوا ہے۔

(2)اللہ پاک کی شانِ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُؕ (پ30،البروج:17)ہے یعنی (ہمیشہ) جو چاہے کرنے والا ہے ۔نہ کوئی اس کے ارادے میں دخل انداز ہو سکتا ہے، نہ کسی کی مجال ہے کہ اس کے کسی کام میں چون و چرا کر سکے، مگر اس کے باوجود حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش و خلافت کے بارے میں اللہ پاک نے فرشتوں کی جماعت سے مشورہ فرمایا۔اس میں یہ ہدایت کا سبق ہے کہ اللہ پاک جوسب سے زیادہ علم و قدرت والاہے اور فاعلِ مختار ہے جب وہ اپنے ملائکہ سے مشورہ فرماتا ہے تو بندے جن کا علم اور اقتدار و اختیار بہت ہی کم ہے تو انہیں بھی چاہیے کہ وہ جب کسی کام کا ارادہ کریں تو اپنے مخلص دوستوں اور صاحبانِ عقل ہمدردوں سے اپنے کام کے بارے میں مشورہ کر لیا کریں کہ یہ اللہ پاک کی سنت اور اس کا مقدس دستور ہے۔

(3) فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں یہ کہا کہ وہ فسادی اور خوں ریز ہیں۔لہٰذا ان کو خلافتِ الٰہیہ سے سرفراز کرنے سے بہتر یہ ہے کہ ہم فرشتوں کو خلافت کا شرف بخشا جائے،کیونکہ ہم ملائکہ خدا کی تسبیح و تقدیس اور اس کی حمد وثنا کو اپنا شعارِ زندگی بنائے ہوئے ہیں۔لہٰذا ہم ملائکہ حضرت آدم علیہ السلام سے زیادہ خلافت کے حق دار ہیں۔فرشتوں نے اپنی یہ رائے اس بنا پر دی تھی کہ انہوں نے اپنے اجتہاد سے یہ سمجھ لیا کہ پیدا ہونے والے خلیفہ میں تیں قو تیں اللہ پاک ودیعت فرمائے گا:ایک قوتِ شہویہ، دوسری قوتِ غضبیہ،تیسری قوتِ عقلیہ۔اور چونکہ قوتِ شہو یہ اور قوتِ غضبیہ ان دونوں سے لوٹ مار اور قتل و غارت وغیرہ قسم قسم کے فسادات رونما ہوں گے اس لئے فرشتوں نے اللہ پاک کے جواب میں یہ عرض کی کہ اے اللہ پاک ! کیا تو ایسی مخلوق کو اپنی خلافت سے سرفراز فرمائے گا جو زمین میں قسم قسم کے فساد برپا کرے گی اور قتل و غارت گری سے زمین میں خون ریزی کا طوفان لائے گی؟ اس سے بہتر تو یہ ہے کہ تو ہم فرشتوں میں سے کسی کو اپنا خلیفہ بنا دے کیونکہ ہم تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح پڑھتے ہیں اور تیری تقدیس اور پاکی کا چرچا کرتے رہتے ہیں۔ تو اللہ پاک نے یہ فرما کر فرشتوں کو خاموش کر دیا کہ میں جس مخلوق کو خلیفہ بنا رہا ہوں اس میں جو جو مصلحتیں اور جیسی جیسی حکمتیں ہیں ان کو بس میں ہی جانتا ہوں تم فرشتوں کو ان حکمتوں اورمصلحتوں کا علم نہیں ہے۔

وہ مصلحتیں اور حکمتیں کیا تھیں؟ اس کا پورا علم تو صرف علام الغیوب ہی کو ہے مگر ظاہر طور پر ایک حکمت اور مصلحت یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کے بدن میں قوتِ شہو یہ وقوتِ غضبیہ کو فساد و خوں ریزی کا منبع اور سر چشمہ سمجھ کر ان کو خلافت کا اہل نہیں سمجھا مگر فرشتوں کی نظر اس پر نہیں پڑی کہ حضرت آدم علیہ السلام میں قوتِ شہویہ اور قوتِ غضبیہ کے ساتھ ساتھ قوتِ عقلیہ بھی ہے اور قوتِ عقلیہ کی یہ شان ہے کہ اگر وہ غالب ہو کر قوتِ شہو یہ اور قوتِ غضبیہ کو اپنا مطیع و فرمانبردار بنائے تو قوتِ شہویہ اورقوتِ غضبیہ بجائے فساد و خوں ریزی کے ہر خیر و خوبی کا منبع اور ہر قسم کی صلاح وفلاح کا سرچشمہ بن جایا کرتی ہیں۔یہ نکتہ فرشتوں کی نگاہ سے اوجھل رہ گیا۔اس لئے اللہ پاک نے فرشتوں کے جواب میں فرمایا:میں جو جانتا ہوں اس کو تم نہیں جانتے ۔فرشتے یہ سن کر خاموش ہو گئے۔

اس سے یہ ہدایت کا سبق ملتا ہے کہ چونکہ بندے اللہ پاک کے افعال،اس کے کاموں کی مصلحتوں اور حکمتوں سے کما حقہ واقف نہیں ہیں۔اس لئے بندوں پر لازم ہے کہ اللہ پاک کے کسی فعل پر تنقید و تبصرہ سے اپنی زبان کو روکے رکھیں اور اپنی کم عقلی و کوتاہ فہمی کا اعتراف کرتے ہوئے یہ ایمان رکھیں اور زبان سے اعلان کرتے رہیں کہ اللہ پاک نے جو کچھ کیا اور جیسا بھی کیا بہر حال وہی حق ہے اور اللہ پاک ہی اپنے کاموں کی حکمتوں اور مصلحتوں کوخوب جانتا ہے جن کا بندوں کو علم نہیں ہے۔

(4)اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علوم کی کثرت کو عبادت کی کثرت پر فضیلت حاصل ہے اور عالم کا ایک درجہ عابد سے بہت زیادہ بلند تر ہے۔حضرت آدم علیہ السلام کے علمی فضل و کمال اور بلند درجات کے اظہار و اعلان کے لئے اور ملائکہ سے اس کا اعتراف کرانے کے لئے اللہ پاک نے تمام فرشتوں کو حکم فرمایا کہ تمام فرشتے حضرت آدم علیہ السلام کے رو برو سجدہ کریں۔چنانچہ تمام ملائکہ نے حکمِ الٰہی کی تعمیل کرتے ہوئے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کر لیا اور وہ اس کی بدولت تقرب الی اللہ اور محبوبیتِ الٰہی کی بلند منزل پر فائز ہو گئے اور ابلیس چونکہ اپنے تکبر کی منحوسیت میں گرفتار ہو کر اس سجدے سے انکار کر بیٹھا تو وہ مردود ِبارگاہِ الٰہی ہو کر ذلت کے ایسے عمیق غار میں گر پڑا کہ قیامت تک وہ اس غار سے نہیں نکل سکتا اور ہمیشہ ہمیشہ دونوں جہاں کی لعنتوں کا حق دار بن گیا اور قہر و غضبِ جبار میں گرفتار ہو کر دائمی عذابِ نارکا سزاواربن گیا۔

(5) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی کے علم کو جانچنے اور علم کی قلت و کثرت کا اندازہ لگانے کے لئے امتحان کا طریقہ جو آجکل رائج ہے یہ اللہ پاک کی سنتِ قدیمہ ہے کہ خداوندِ عالم نے فرشتوں کے علم کو کم اور حضرت آدم علیہ السلام کے علم کو زائد ظاہر کرنے کے لئے فرشتوں اور حضرت آدم علیہ السلام کا امتحان لیا تو فرشتے اس امتحان میں ناکام رہ گئے اور حضرت آدم علیہ السلام کامیاب ہو گئے۔