حضرت آدم علیہ السلام سب سے پہلے انسان اور تمام
انسانوں کے باپ ہیں۔آپ کا لقب ابو البشر ہے۔اللہ پاک نے خاص اپنے دستِ قدرت سے آپ
کا جسمِ مبارک بنایا اور اس میں اپنی طرف سے خاص روح پھونک کر پسندیدہ صورت پر پیدا
فرمایا۔فرشتوں نے ان کی عالمی فضیلت کا اقرار کر کے انہیں سجدہ کیا،جبکہ ابلیس
سجدے سے انکار کر کے مردود ہو گیا۔حضرت آدم علیہ السلام کثیر فضائل سے مشرف ہیں۔قرآن و حدیث میں آپ کا کثرت سے ذکر
موجود ہے۔جیسا کہ ارشادِ باری ہے:اِذْ قَالَ رَبُّكَ
لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ(۷۱)فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَ
نَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ(۷۲)فَسَجَدَ الْمَلٰٓىٕكَةُ
كُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَۙ(۷۳) ترجمہ:
جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ
میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ۔ پھر جب
میں اسے ٹھیک بنالوں اور اس میں اپنی خاص روح پھونکوں تو تم اس کے لیے سجدے
میں پڑجانا۔ تو تمام فرشتو ں نے اکٹھے سجدہ کیا ۔ سوائے ابلیس کے ۔اس نے
تکبر کیا اور وہ کافروں میں سے ہوگیا۔
ملائکہ نے جو سجدہ کیا وہ سجدۂ تعظیمی تھا۔ سجدے کی
دو قسمیں ہیں:(1)سجدۂ عبادت (2) سجدۂ
تعظیمی۔
عبادت کا سجدہ کسی کو معبود سمجھ کر کیا جاتا ہے اور تعظیم کا سجدہ وہ ہوتا
ہے جس سے سجدے کیے جانے والے کی تعظیم مقصود ہو۔سجدۂ عبادت اللہ پاک کے لیے خاص
ہے اور کسی کے لیے نہیں ہو سکتا اور نہ کسی کی شریعت میں کبھی جائز ہوا۔سجدۂ تعظیمی
پہلے شریعتوں میں جائز تھا لیکن ہماری شریعت میں منسوخ کر دیا گیا ہے اب سجدۂ تعظیمی
حرام ہے۔
فرشتوں نے کسی پس و پیش کے بغیر حکمِ الٰہی پر فوری
عمل کرتے ہوئے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا جبکہ شیطان نے حکمِ الٰہی کو اپنی
عقل کے ترازو میں تولا، اسے عقل کے خلاف جانا اور اس پر عمل نہ کر کے بربادی کا
شکار ہوا۔اس میں ہمارے لیے درس و نصیحت ہے کہ ہم بھی حکمِ الٰہی کو من وعن تسلیم
کر لیں۔کیونکہ حکمِ الٰہی کے مقابلے میں اپنی عقل استعمال کرنا،اپنی فہم و فہراست
کے بجائے قول کے درست ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنا اور مخالف جان کر عمل سے منہ
پھیر لینا کفر کی دلدل میں دھنساسکتا ہے۔
تکبر کی مذمت:ابلیس سے سرزد
ہونے والے گناہوں میں بنیادی گناہ تکبر ہے۔حدیثِ پاک میں ہے:تکبر حق بات کو
جھٹلانے اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔تکبر کبیرہ گناہ ہے۔جس کے دل میں رائی
کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا اور متکبروں کو قیامت کے
دن لوگ اپنے پاؤں سے روندیں گے۔اللہ پاک ہمیں اس سے محفوظ فرمائے ۔اٰمین
انبیائے کرام علیہم السلام کی گستاخی کا
حکم:انبیائے
کرام علیہم السلام کی گستاخی ایسا بڑا جرم ہے جس کی سزا میں زندگی بھر کی عبادت و
ریاضت برباد ہو جاتی ہے۔ابلیس جیسے انتہائی عبادت گزار کا انجام اس کی عبرت انگیز
مثال ہے۔
اللہ پاک قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى
الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ
صٰدِقِیْنَ(۳۱)قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا
عَلَّمْتَنَاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ(۳۲) (پ1،البقرۃ:
31-32)ترجمہ کنزالعرفان:اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھادئیے
پھر ان سب اشیاء کو فرشتوں کے سامنے پیش کرکے فرمایا: اگر تم سچے ہو تو ان کے نام
تو بتاؤ۔(فرشتوں نے)عرض کی: (اے اللہ!)تو پاک ہے ۔ہمیں تو صرف اتنا علم ہے جتنا تو
نے ہمیں سکھا دیا ، بے شک تو ہی علم والا، حکمت والا ہے۔
علم کی فضیلت:حضرت آدم علیہ
السلام کو فرشتوں پر فضیلت حاصل ہوئی ،اس
کا ظاہری سبب ان کا علم ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ علم تنہائیوں کی عبادت سے افضل ہے۔
نا معلوم بات پر لاعلمی ظاہر کر دی
جائے:چیزوں
کا نام نامعلوم ہونے پر فرشتوں نے اپنی لاعلمی کا اعتراف کر لیا۔اس میں ہر صاحبِ
علم بلکہ ہر مسلمان کے لیے یہ نصیحت ہے کہ جو بات معلوم نہ ہو اس کے بارے میں
لاعلمی کا اظہار کر دیا جائے، لوگوں کی ملامت سے ڈر کر یا عزت و شان کم ہونے کے
خوف سے کبھی کوئی بات من گھڑت بنا کر بیان نہ کی جائے۔