ذکرِ حضرت آدم سے 5 نصیحتیں از بنتِ مدثر عطاریہ،جامعۃ المدینہ صدر راولپنڈی
قرآنِ کریم میں احکامِ شرعیہ اور آئندہ وقوع پذیر
ہونے والے واقعات کے ساتھ ساتھ انبیائے کرام اور ان کی اُمتوں کا ذکر بھی موجود
ہے۔جن کو ذکر کئے جانے کی ایک حکمت قرآنِ کریم میں یوں بیان فرمائی گئی ہے: لَقَدْ كَانَ فِیْ قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّاُولِی الْاَلْبَابِؕ- (پ13،یوسف:111)ترجمہ:
بیشک ان رسولوں کی خبروں میں عقل مندوں کیلئے عبرت ہے۔
جن انبیائے کرام کا قرآنِ کریم میں واضح ذکر آیا ہے
انہی میں سے ایک حضرت آدم بھی ہیں۔آپ کی پیدائش کا واقعہ،فرشتوں کا آپ کو سجدہ
کرنے کا ذکر،شیطان کا سجدے سے انکار،آپ کا
جنت میں ٹھہرنا،پھر زمین پر تشریف لانا،قبولیتِ توبہ اور ہابیل و قابیل کا واقعہ قرآنِ کریم کی مختلف
سورتوں میں بیان فرمایا گیا ہے۔یہ سب واقعات درسِ نصیحت و عبرت پر مشتمل ہیں،ان سے حاصل ہونے والی 5
نصیحتیں درج ذیل ہیں:
1-علم کی فضیلت:اللہ
پاک فرماتا ہے:وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا(پ1،البقرۃ:31)ترجمہ: اور
اللہ پاکٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھادئیے ۔حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں پر
جو فضیلت عطا ہوئی اس کا ظاہری سبب علم
تھا۔معلوم ہوا!علم تنہائیوں کی عبادتوں سے افضل ہے۔
2-حکمِ الٰہی کے مقابل میں قیاس کا
استعمال:شیطان
نے خود کو آگ سے پیدا کئے جانے اور حضرت
آدم علیہ السلام کی مٹی سے پیدائش کے سبب آپ علیہ السلام کو سجدہ کئے جانے کے حکم
کو عقل کے ترازو میں تولا اور حکمِ خداوندی کو ماننے سے انکار کیا جس کے سبب مردود
اور لعنتی ہوا۔پتا چلا کہ احکامِ شریعت میں عقل کے گھوڑے دوڑانے کے بجائے بلا چوں
چراں عمل کیا جائے۔
3-بُرائی کے اسباب کی روک تھام:حضرت
آدم علیہ السلام کو جب جنت میں اتارا گیا تو شجرِ ممنوع کے متعلق فرمایا:وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ(پ1،البقرۃ:35)ترجمہ: البتہ
اس درخت کے قریب نہ جانا ۔
حالانکہ اصل مقصود درخت کا پھل کھانے سے ممانعت تھی۔اس
سے علمائے کرام نے یہ اخذ فرمایا ہے کہ برائی
سے روکنے کے لئے اس کے اسباب کی روک تھام کی جائے۔
4-خطا پر استغفار:حضرت
آدم علیہ السلام کی سیرت میں ایک ذکر کیا جانے والا قرآنی واقعہ آپ علیہ
السلام سے ہونے والی خطا بھی ہے۔حالانکہ
یہ خطائے اجتہادی تھی لیکن آپ علیہ السلام کی اس پر گریہ و زاری اور استغفار کو قرآنِ
کریم میں کئی مقامات پر بیان کیا گیا ہے:قَالَا
رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا
لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(۲۳)(پ8،الاعراف:23)ترجمہ:اے رب
ہمارے ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اور اگر تو نے ہماری مغفرت نہ فرمائی اور ہم
پر رحم نہ فرمایا تو ضرور ہم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔
اس میں آپ علیہ السلام کی اولاد کے لئے درس ہے کہ
ان سے اگر کوئی گناہ ہو جائے تو اللہ پاک کی بارگاہ میں گڑگڑا کر توبہ کریں۔
5-نفس کی خواہش کی پیروی کا وبال:حضرت
آدم علیہ السلام کی زندگی شریف ہی میں ہابیل و قابیل کا واقعہ پیش آیا،اس سے حاصل ہونے والا درس یہ ہے کہ نفس کی خواہش
کی پیروی انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی، اسی نے قابیل کو اپنی خواہش کے مطابق شادی
کے لئے اپنے بھائی کے قتل پر ابھارا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ اپنے والد حضرت آدم
علیہ السلام کے سمجھانے کے باوجود اپنے بھائی کو شہید کر کے قتل کے گناہ کو ایجاد
کیا۔اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام علیہم السلام کے مبارک ذکر سے ملنے والے درس پر
عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین