نصیحت سے مراد:وہ بات جس پر عمل کرنا مفید ہو اور صالحین سے بات ملی ہو یا ان کے واقعات سے اس بات کو اخذ کیا ہو۔قرآن سے کثیر نصیحت آپ کے واقعات سے حاصل ہوئی، جن میں سے چند یہ ہیں:

(1)ہر کام سے پہلے مشورہ لینا چاہیے : ہمیں حضرت آدم علیہ السلام کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ خلیفہ احکام و اوامر کے اجر اور دیگر تصرفات میں اصل کا نائب ہوتا ہے۔یہاں خلیفہ سے حضرت آدم علیہ السلام مراد ہیں۔ اگرچہ اور تمام انبیا بھی اللہ پاک کے خلیفہ ہیں ۔حضرت داود علیہ السلام کے حق میں فرمایا: یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِیْفَةً فِی الْاَرْضِ(پ23،صٓ:26)فرشتوں کو خلافتِ آدم کی خبر اس لیے دی گئی کہ وہ ان کے خلیفہ بنائے جانے کی حکمت دریافت کر کے معلوم کر لیں اور ان پر خلیفہ کی عظمت و شان ظاہر ہو کہ ان کو پیدائش سے قبل ہی خلیفہ کا لقب عطا ہوا اور آسمان والوں کو ان کی پیدائش کی بشارت دی گئی۔ (تفسیر خزائن العرفان،ص13) یہ اس آیت میں بیان ہوا ہے: وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ- ترجمہ کنز الایمان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔ (پالبقرۃ: 30 )

(2) علم خلوتوں اور تنہائیوں کی عبادت سے افضل ہے:یہ نصیحت یا مسئلہ ہمیں حضرت آدم علیہ السلام کے واقعات میں ایک آیت سے معلوم ہوا۔وہ کچھ اس طرح ہے کہ یعنی جب اللہ پاک نےفرشتوں سے یہ فرمایا کہ جب اس نے حضرت آدم علیہ السلام کو خلیفہ بنایا کہ اگر تم سمجھتے ہو کہ میں کوئی مخلوق تم سے زیادہ عالم پیدا نہ کروں گا اور خلافت کے ایک تم ہی مستحق ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ کیونکہ خلیفہ کا کام تصرف و تدبیر اور عدل و انصاف ہے اور یہ خلیفہ بننا اس کے بغیر ممکن نہیں ہوتا کہ خلیفہ کو ان تمام چیزوں کا علم ہو جن پر اس کو متصرف فرمایا گیا اور جن کا اس کو فیصلہ کرنا ہے۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ انبیا علیہم السلام ملائکہ سے افضل ہیں۔(تفسیر خزائن العرفان ،ص14)یہ اس آیت میں بیان ہوا ہے:فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۱) (پ1،البقرۃ:31) ترجمہ کنز الایمان:فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔ (3)تمام لغات اور زبانیں اللہ پاک کی طرف سے ہیں: جب فرشتوں نے کہا کہ ہمیں تو اتنا علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھایا تو اس سے ثابت ہوا کہ اللہ پاک کی طرف سے تمام علم آیا ہے اور اللہ پاک کے نام کی طرف تعلیم کی نسبت صحیح ہے۔لیکن اسے معلم نہ کہا جائے گا کیونکہ معلم پیشہ ور تعلیم دینے والے کو کہتے ہیں۔(تفسیر خزائن العرفان،ص 14 )قرآن کی اس آیت میں اس کا بیان ہے:قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ(۳۲) (1،البقرۃ:32)ترجمۂ کنزالایمان:بولے پاکی ہے تجھے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا بے شک تو ہی علم و حکمت والا ہے۔

(4)سجدۂ تحیت پہلی شریعت میں جائز تھا،شریعتِ محمدیہ میں منسوخ کیا گیا ہے۔یہ بات ہمیں حضرت آدم علیہ السلام کے اس واقعے سے حاصل ہوئی کہ اللہ پاک نے آپ کو تمام موجودات کا نمونہ اور عالم روحانی جسمانی کا مجموعہ بنایا اور فرشتوں کے لیے حصولِ کمالات کا وسیلہ بنایا تو انہیں حکم فرمایا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں کیونکہ اس میں حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت کا اعتراف تھا اور اپنی بات اَتَجْعَلُ فِیْهَاکی معذرت بھی ہے ۔مقربین ملائکہ سمیت تمام نے سجدہ کیا لیکن شیطان نے انکار کیا۔ بہرحال تمام فرشتوں کو اس کا حکم ہوا اور اس سے یہ بھی بات معلوم ہوئی کہ سجدے دو قسم کے ہیں:ایک سجدہ ٔعبادت اور دوسرا سجدۂ تعظیمی۔سجدۂ عبادت وہ ہے جو عبادت کی نیت سے ہو کسی کو معبود بنا کر کیا جائے اور تعظیمی سجدہ وہ ہوتا ہے جس سے مسجود کی تعظیم ہوتی ہے۔بہرحال پہلی امتوں میں سجدۂ تعظیمی جائز تھا اور امتِ محمدیہ میں یہ جائز نہیں اور یہ اس آیت میں بیان ہوا ہے۔(تفسیر صراط الجنان،ص25)وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-البقرۃ:34)ترجمہ کنزالعرفان: اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے علاوہ تمام نے سجدہ کیا۔

(5)تکبر نہایت ہی قبیح ہے،کبھی نوبت کفر تک لے جاتا ہے :حضرت آدم علیہ السلام کے ہی واقعے سے ایک اور نصیحت یہ بھی معلوم ہوئی کہ تکبر ایسا خطرناک عمل ہے کہ یہ بعض اوقات بندے کو کفر تک پہنچا دیتا ہے۔اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ تکبر کرنے سے بچے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تکبر حق کی مخالفت کرنے اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔( مسلم،ص 41 ،حدیث: 147 )حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:تکبر سے بچتے رہو کیونکہ اسی تکبر نے شیطان کو اس بات پر ابھارا تھا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرے۔(تاریخ ابن عساکر ، 49 /40) اللہ پاک سے دعا ہے جو ہم نے نصیحتیں پڑ ھیں ان پر ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ امین