اللہ کریم نے سب سے پہلے اپنے نور سے اپنے حبیب نبیِ کریم ﷺ کے نورکو پیدا فرمایا۔پھر اللہ کریم نے زمین وآسمان بنانے سے پہلے فرشتوں کو پیدا فرمایا۔ سب سے پہلے انسان اللہ پاک کے پیارے بنی حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور آپ پہلے رسول بھی ہیں جو شریعت لے کر اپنی اولاد کی طرف مبعوث فرمائے گئے۔ حضرت آدم علیہ السلام کی نہ ماں ہیں نہ باپ۔اللہ کریم نے حضر ت  آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا فرمایا ۔ حضرت آدم علیہ السلام کی کنیت ابو محمد یا ابو البشر اور آپ کا لقب خلیفۃُ اللہ ہے۔آپ نے نو سو ساٹھ برس کی عمر پائی اور بوقتِ رخصت آپ کی اولاد کی تعداد ایک لاکھ ہو چکی تھی۔آئیے!حضرت آدم علیہ اسلام کے قرآنی واقعات کو پڑھتی ہیں اور ان سے نصیحت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں دلچسپ معلومات:

(1)تکبر کا انجام :اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کو تمام جہاں کے لئے نمونہ بنایا اور فرشتوں کو حکم دیا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں۔تمام فرشتوں نے سجدہ کیا لیکن شیطان نے سجدہ کرنے سے منع کر دیا اور تکبر کرتے ہوئے یہ سمجھتا رہا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام سے افضل وبرتر ہے۔ شیطان کے اس غلط عقیدے ،حکم ِالٰہی سے انکار اور تعظیمِ نبی سے تکبر کی وجہ سے کافرہوگیا۔جیسا کہ ارشادِ باری ہے:وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) (پ1،البقرۃ :34)ترجمہ کنز العرفان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ سجدہ کرو تو ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا۔ اس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور کافر ہو گیا۔

اس آیتِ مبارکہ سے ہمیں درس ملتا ہے کہ تکبر کتنا مذموم وصف ہے کہ ہزاروں برس کا عبادت گزار اور فرشتوں کا استاد کہلانے والا ابلیس بھی اس کی وجہ سے بارگاہِ الٰہی میں مردود ٹھہرا۔لہٰذاہمیں تکبر کرتے ہوئے اپنے آپ کو لوگوں سے برتر و افضل نہیں سمجھنا چاہیے۔ (صراط الجنان)

(2)مشورے کی اہمیت:حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے اللہ پاک نے مشورے کے انداز میں فرشتوں سے کلام فرمایا۔چناچنہ ارشادِ باری ہے: وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ-(پ1،البقرۃ:30)ترجمہ كنز العرفان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایامیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں ۔

اس آیتِ مبارکہ سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ اگر ہم بھی کوئی اہم کام شروع کرنے سے پہلے ماتحتوں سے مشورہ کر لیا کریں تو اس کا یہ فائدہ ملے گا کہ کوئی اچھی رائے مل جائے گی جس سے وہ کام اور اچھے طریقے سے ہو جائے گا یا اس کام سے متعلق ماتحتوں کے ذہن میں کوئی خلش ہو تو وہ دور ہو جائے گی۔ (سیرت الانبیاء)

(3)دعا و استغفار:جب حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا رضی اللہ عنہا جنت میں تھے تو شیطان نے ان کو وسوسے میں ڈالا کہ وہ اس درخت کا پھل کھالیں جس درخت کے پھل کو کھانے سے اللہ پاک نے منع فرمایا تھا۔شیطان نے اللہ پاک کی قسم کھا کر کہا کہ آپ اس درخت کا پھل کھائیں گے تو فرشتہ بن جائیں گے۔لہٰذا آپ نے شیطان کی قسم کا یقین کرتے ہوئے پھل کھا لیا تو اللہ پاک نے انہیں جنت سے زمین پر اتارنے کا حکم دیا،اس کے بعد حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا رضی اللہ عنہا نے اللہ پاک کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کا اہتمام کیا۔چنانچہ ارشادِ باری ہے :قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(۲۳) (پ8،الاعراف :23)ترجمہ کنز العرفان:دونوں نے عرض کی:اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اور اگر تو نے ہماری مغفرت نہ فرمائی اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ضرور ہم نقصان والوں میں سے ہو جائیں گے ۔

حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی لغزش کے بعد جس طرح دعا فرمائی اس میں مسلمانوں کے لیے یہ تربیت ہے اگر مسلمانوں سے کوئی گناہ ہو جائے تو اس پر نادم ہو کر اللہ پاک سے توبہ و استغفار کریں۔ (صراط الجنان)

(4)نا معلوم باتوں پر خاموش رہنا :اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کو تمام اشیا اور چیزوں کے نام سکھائے ۔ اللہ پاک نے فرشتوں سے فرمایا:اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ(پ1،البقرۃ: 31) ترجمہ:ان کے نام تو بتاؤ۔

اشیا کے نام معلوم نہ ہونے پر فرشتوں نے اپنی لاعلمی کا اعتراف کر لیا۔چنانچہ ارشادِ باری ہے:قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ(۳۲) (پ1،البقرۃ: 32)ترجمہ کنز العرفان:(فرشتوں نے)عرض کی:(اے اللہ!)تو پاک ہے۔ہمیں تو صرف اتنا علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا دیا ، بے شک تو ہی علم والا، حکمت والا ہے۔

اس میں ہر صاحبِ علم بلکہ ہر مسلمان کے لیے یہ نصیحت ہے کہ جو بات معلوم نہ ہو اس کے بارے میں لاعلمی کا صاف اظہار کر دیا جائے۔ لوگوں سے ڈر کر یا عزت کم ہونے کے ڈر سے کوئی بات اپنی طرف سے بیان نہیں کرنی چاہیے۔ (سیرت الانبیاء )

(5)مقامِ فکر:ابلیس کے اتنے جرائم کے اظہار کے باوجود ابلیس کو مہلت و اختیار دینا اور اسے ختم نہ کرنا انسان کے امتحان اور آزمائش کے لیے ہے۔چنانچہ ارشادِ باری ہے:قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَۙ(۸۲) اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِیْنَ(۸۳) (پ23،صٓ:82،83)ترجمہ کنز العرفان:اس نے کہا:تیری عزت کی قسم ضرور میں ان سب کو گمراہ کر دوں گا مگر جو ان میں تیرے چنے ہوئے بندےہیں ۔

ہمیں اس آیتِ مبارکہ سے درس ملتا ہے کہ اپنی ذات اور اعمال پر سوچنا چاہیے کہ اپنے ایمان و عمل کے اعتبار سے اس آزمائش میں ہم کامیاب ہو رہی ہیں یا شیطان کے بہکاوے میں آکر نا کامیابی کے گڑھے میں گر رہی ہیں۔ (صراط الجنان) اللہ پاک ہمیں حضرت آدم علیہ السلام کے ان قرآنی واقعات کو پڑھ کر سمجھ کر نیکیاں کرنے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین