اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کو تمام اشیا کے
نام سکھائے ،پھر سب اشیا ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا:
اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۱)
اگر تم سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ ۔(پ1، البقرۃ:31)
علم کی فضیلت:اس آیت میں
اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کے
فرشتوں پرافضل ہونے کا سبب’’ علم‘‘ ظاہر فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ علم تنہائیوں
کی عبادت سے افضل ہے۔
(1) حضرت آدم علیہ
السلام کو اللہ پاک نے اپنا خلیفہ بنایا اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ فرشتوں سے
افضل ہیں، کیونکہ ہر شخص یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ بادشاہ کے نزدیک لوگوں میں
سب سے بڑے مرتبے والا وہ ہوتا ہے جو ولایت اور تصرف میں بادشاہ کا قائم مقام ہو۔
(2) حضرت آدم علیہ
السلام فرشتوں سے زیادہ علم رکھنے والے ہیں اور جسے زیادہ علم ہو وہ افضل ہوتا ہے۔
اللہ پاک نے فرشتوں کو یہ حکم دیا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں۔اس سے
معلوم ہوا کہ وہ فرشتوں سے افضل ہیں۔کیونکہ سجدے میں انتہائی عاجزی ہوتی ہے اور کسی
کے سامنے انتہائی عاجزی وہی کرے گا جو اس سے کم مرتبے والا ہو۔
(3)حضرت حذیفہ بن
یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبیِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے زیادہ ہے اور تمہارے دین کی
بھلائی تقویٰ (اختیار کرنے میں ) ہے۔ (معجم اوسط،3 / 92،حدیث:3920)
(4)حضرت آدم علیہ
السلام نے جان بوجھ کر ممنوعہ درخت سے نہیں کھایا بلکہ اس کی وجہ اللہ پاک کا
حکم یاد نہ رہنا تھا اور جو کام سہواً ہو وہ نہ گناہ ہوتا ہے اور نہ ہی اس پر کوئی
مُؤاخذہ ہوتا ہے۔
(5) ہر شخص شیطان
سے ہوشیار رہے کہ حضرت آدم علیہ السلام معصوم تھے اور جنت محفوظ جگہ تھی پھر بھی
ابلیس نے اپنا کام کردکھایا، تو ہم لوگ کس شمار میں ہیں !
فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ
كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْهِؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۳۷) (پ1،البقرۃ:
37)ترجمہ کنزالایمان: پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی
توبہ قبول کی بیشک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔
نبیِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:جب حضرت آدم علیہ
السلام سے اجتہادی خطا ہوئی تو(عرصۂ دراز
تک حیران و پریشان رہنے کے بعد )انہوں نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی:اے میرے
رب!مجھے محمد ﷺ کے صدقے میں معاف فرمادے۔اللہ پاک نے فرمایا:اے آدم!تو نے محمد (ﷺ)کو
کیسے پہچانا؟ حالانکہ ابھی تو میں نے اسے پیدا بھی نہیں کیا! حضرت آدم علیہ
السلام نے عرض کی:اے اللہ پاک!جب تو نے مجھے پیدا کر کے میرے اندر روح ڈالی اور میں
نے اپنے سر کو اٹھایا تو میں نے عرش کے پایوں پر’’لَا اِلٰہَ
اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ‘‘لکھا دیکھا،تو میں نے جان لیا
کہ تو نے اپنے نام کے ساتھ اس کا نام ملایا ہے جو تجھے تمام مخلوق میں سب سے زیادہ
محبوب ہے۔اللہ پاک نے فرمایا:اے آدم! تو نے سچ کہا۔بیشک وہ تمام مخلوق میں میری
بارگاہ میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔تو اس کے وسیلے سے مجھ سے دعا کر میں تجھے معاف
کردوں گا اور اگر محمد(ﷺ) نہ ہوتے تو میں تجھےپیدا نہ کرتا۔(مستدرک،3 /517،حدیث:4286)