تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں، جس کے جلال کا ادراک کرنے سے
تمام دل حیران ہیں اور اس کے انوار کی ادنی تجلی سے آنکھیں حیران ہیں اور اس کے وہ
دلوں کے پوشیدہ رازوں پر مطلع ہے اور سینوں میں مخفی امور کو جانتا ہے۔
حکایت: کہتے ہیں کہ بصرہ میں ایک بخیل مالدار
شخص تھا، اس کے ایک پڑوسی نے اس کی دعوت کی، اس کے سامنے ہانڈی میں بھنا ہوا گوشت
رکھا، اس نے اس میں سے بہت زیادہ کھالیا اور پھر پانی پینے لگا، یہاں تک کہ اس کا پیٹ پھول گیا اور وہ سخت تکلیف میں
مبتلا ہوگیا اور پیچ و تاب کھانے لگا، جب معاملہ بگڑ گیا تو ڈاکٹر کو اس کی حالت
بتائی گئی، اس نے کہا کوئی حرج نہیں، جو کچھ کھایا ہے اسے قے کر دو، اس نے کہا:ایسے
عمدہ گوشت کو کیسے قے کر دوں، موت قبول کر لوں گا، لیکن ایسا نہیں کروں گا۔
دیکھا آپ نے!بخیل یعنی کنجوس
کس قدر لالچی ہوتا ہے، اس کو موت تو گوارا ہے، لیکن دنیا کا مال چھوڑنا گوارا نہیں۔
بخل کی تعریف:بخل کے لغوی معنیٰ کنجوسی کے ہیں، جہاں خرچ کرنا شرعاً، عادتاًیا
مروتاً لازم ہو،ہاں خرچ نہ کرنا بخل کہلاتا ہے یا جس جگہ مال و اسباب میں خرچ کرنا
ضروری ہو، وہاں خرچ نہ کرنا یہ بھی بخل کہلاتا ہے۔
آیات مبارکہ: اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں
ارشاد فرماتا ہے:اور جن لوگوں کو نفس کے لالچ سے بچایا گیا، وہی لوگ کامیاب ہیں۔اور
وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ فضل میں بخل سے کام لیتے ہیں، وہ ہرگز یہ خیال
نہ کریں کہ یہ( ان کا بخل کرنا) ان کے حق میں بہتر ہے بلکہ یہ ان کے لئے برا ہے،
عنقریب قیامت کے دن انہیں اس چیز کا طوق پہنایا جائے گا، جس میں وہ بخل کرتے ہیں۔
1۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا:آدمی کے دو عادتیں بری ہیں، ایک بخیلی جو رُلانے والی ہے، دوسرا
بزدلی جو ذلیل کرنے والی ہے۔(ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فی الجراہ والجبن،3/18،
ح2511)
شرح:
اس حدیث مبارکہ میں آدمی کی دو بری عادتیں بتائی گئی ہیں، بخیلی یعنی
کنجوسی مطلب کے دنیا کے مال کی حرص کی حرص، یہ عادت انسان کو اللہ کی راہ میں خرچ
کرنے سے روکتی ہے، دوسری عادت بزدلی، بخیل انسان بزدل بھی ہوتا ہے کہ اس بات پر یقین
نہیں رکھتا، اگر اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا تو اللہ سے دگنا عطا کرے گا۔
2۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا:مالدار بخل کرنے کی وجہ سے بلا حساب جہنم میں داخل ہوں گے۔(فردوس
الاخبار، باب السین،1/444، ح3309)
شرح:
اس حدیث پاک میں بخل کے انجام کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ بخیل یعنی
کنجوسی کرنے والا بغیر حساب جہنم میں داخل کیا جائے گا۔
3۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کوئی بخیل
جنت میں نہیں جائے گا۔(معجم الاوسط، باب العین ومن اسمہ علی 3/125، ح4066)
شرح:
اس حدیث مبارک میں کنجوسی کرنے والے کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ
جنت میں داخل نہیں ہوگا۔
4۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا:بخیل اللہ سے دور ہے، جنت سے اور آدمیوں سے دور ہے، جبکہ
جہنم سے قریب ہے۔ (ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی السخاء 3/387، ح1968)
شرح:
اس حدیث مبارکہ میں بخیل کے چار نقصانات بتائے گئے ہیں، وہ یہ کہ بخیل
آدمی اپنی بری عادتوں کی وجہ سے اللہ عزوجل سے دور ہے، جنت سے دور ہے، لوگوں سے
دور ہے اور جہنم کے قریب ہے۔
5۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور پر نور صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا:بخل جہنم میں ایک درخت ہے، جو بخیل ہے اس نے اس کی ٹہنی پکڑ
لی ہے اور وہ ٹہنی اسے جہنم میں داخل کر دے گی۔(شعب الایمان الرابع والسبعون من
شعب الایمان 7/435، ح10877)
شرح:
اس حدیث مبارکہ میں بتایا گیا کہ جہنم میں ایک درخت ہے، جس کو بخل
کہا جاتا ہے، جو آدمی بخل کرتا ہے تو وہ اس کی ٹہنی پکڑ لیتا ہے ،وہ ٹہنی اسے جہنم
میں لے جاتی ہے۔
محترم قارئین کرام! بخل کا علاج یوں ہو سکتا ہے کہ بخل کے اسباب پر
غور کرکے انہیں دور کرنے کی کوشش کرے، اسے قناعت اور صبر کے ذریعے اور بکثرت موت کی
یاد اور دنیا سے جانے والوں کی حالت پر غور کرکے دور کرے، یونہی بخل کی مذمت پر
احادیث اور روایات کا مطالعہ کر کے غوروفکر کرنا بھی اس مہلک مرض سے نجات حاصل
کرنے کا سبب بن سکتا ہے ۔
ظاہری اعمال کا باطنی اوصاف کے ساتھ خاص تعلق ہے، مگر باطن خراب ہو
تو ظاہری اعمال بھی خراب ہوں گے اور اگر باطن درست ہو تو ظاہر بھی درست ہوتا ہے،
باطنی گناہوں کا تعلق عموماً دل سے ہوتا ہے، لہذا دل کی اصلاح ضروری ہے، باطنی
گناہوں میں سے بخل بھی ہے، جس کی مذمت قرآن اور حدیث سے ثابت ہے۔
بخل کے معنیٰ :بخل کے لغوی معنیٰ کنجوسی کے ہیں، جہاں خرچ کرنا شرعاً، عادتاًیا
مروتاً لازم ہو،ہاں خرچ نہ کرنا بخل کہلاتا ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات، صفحہ
129،130)
فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم:
1۔ جس سے بچتے رہو، کیونکہ تم سے پہلی قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئیں،
لالچ نہیں نے بخل پر آمادہ کیا تو وہ بخل کر نے لگے اور جب قطع رحمی کا خیال دلایا
تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم دیا تو وہ گناہ میں پڑ گئے۔(باطنی بیماریوں
کی معلومات، صفحہ 129، 130)
2۔ بخل اور بدخلقی یہ دو خصلتیں ایماندار میں جمع نہیں ہوتیں۔اکثر
مفسرین نے فرمایایہاں سے زکوۃ کا نہ دینا مراد ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،
صفحہ 129)
3۔ جس کو اللہ نے مال دیا اور اس نے زکوۃ نہ دی تو روزِ قیامت وہ مال
سانپ بن کر اس کو طوق کی طرح لیٹے گا اور یہ کہہ کر ڈستا جائے گا کہ میں تیرا مال
ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔(باطنی بیماریوں کی معلومات، صفحہ 129)
4۔ اللہ پاک نے اس بات پر قسم یاد فرمائی ہے کہ جنت میں کوئی بخیل
داخل نہ ہوگا۔
5۔ اس امت کے پہلے لوگ یقین اور زہد کے ذریعے نجات پائیں گے، جبکہ
آخری لوگ بخل، خواہشات کے سبب ہلاکت میں مبتلا ہوں گے۔(فضائل صدقات)
سنا آپ نے! بخل کی کس قدر تباہ کاریاں ہیں، کیا یہ ہلاکت کم ہیں کہ
اللہ پاک اس بات پر قسم یاد فرمائی ہے کہ جنت میں کوئی کنجوس شخص داخل نہ ہوگا، کیا
اب بھی ہم بخل جیسی نحوست سے نہیں بچیں گے؟کیا اب بھی ہم کنجوسی سے کام لیں گے؟ کیا
اب بھی بخل کے ذریعے اپنی ہلاکت کے اسباب پیدا کریں گے؟یاد رکھئے! بخیل شخص لوگوں
کی نظر میں حقیر بن جاتا ہے اور معاشرے میں اسے عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا،
بخیل شخص ابلیس لعین کو بہت پسند ہے۔
اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ وہ ہمیں گناہوں کے ساتھ باطنی گناہوں سے
بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور بخل جیسی بری عادت سے ہمیں محفوظ فرمائے۔آمین
اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:
ا۟لَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ وَ يَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَ
يَكْتُمُوْنَ مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ وَ اَعْتَدْنَا
لِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابًا مُّهِيْنًاۚ۳۷ ترجمہ کنزالایمان:وہ
لوگ جو خود بخل کرتے ہیں اور دیگر لوگوں کو بخل کا کہتے ہیں اور اللہ نے جو انہیں
اپنے فضل سے دیا ہے، اسے چھپاتے ہیں ان کے لئے شدید وعید ہے اور کافروں کے لئے ہم
نے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
تفسیر ابن کثیر میں ہے(اس آیت کے متعلق) ارشاد ہوتا ہے:کہ جو لوگ
اللہ کی خوشنودی کے موقع پر مال خرچ کرنے سے جی چراتے ہیں، مثلاً ماں ، باپ کو دینا،قرابت
داروں سے اچھا سلوک نہیں کرتے، یتیم مسکین پڑوسی، رشتے دار، غیر رشتے دار پڑوسی،
ساتھی مسافر، غلام اور ماتحت کو ان راہ ان
کی محتاجی کے وقت فی سبیل اللہ خرچ نہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
آئیے سب سے پہلے ہم یہ جانیں کہ بخل سے کیا مراد ہے، پھر اس کے
متعلق، اس کی مذمت پر احادیث مبارکہ ہیں، وہ پڑھ کر عبرت حاصل کریں گے۔
بخل کی تعریف:بخل کے لغوی معنیٰ کنجوسی کے ہیں اور جہاں خرچ کرنا شرعاً، عادتاً اور مروتاً لازم ہو، وہاں خرچ نہ یہ بھی
بخل ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات، صفحہ 128)
بخل کی مذمت پر آیات مبارکہ اور احادیث مبارکہ ہیں، آئیے ہم بخل کی
مذمت پر 5 احادیث مبارکہ جانتے ہیں۔
1۔بخاری شریف، حدیث 4383 میں ہے: کہ کون سی بیماری بخل کی بیماری سے
بڑھ کر ہے؟
2۔سنن ابی داؤد، حدیث 1698 میں ہے:کہ لوگو! بخیلوں سے بچو، اسی نے تم
سے اگلوں کو تاخت و تاراج کیا، اس کے باعث ان سے قطع رحمی اور فسق و فجور جیسے برے
کام نمایاں ہوئے۔
3۔باطنی بیماریوں کی معلومات، صفحہ 129، 130 پر موجود اس حدیث مبارکہ
یہ ہے کہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ،
راحتِ قلب و سینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:لالچ سے بچتے رہو، کیونکہ تم
سے پہلی قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئیں، لالچ نے انہیں بخل پر آمادہ کیا تو وہ
بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خیال آیا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا
حکم دیا تو وہ گناہ میں پڑ گئے۔(ابو داؤ، ح1698)
4۔فردوس الاخبار، حدیث 7106 میں ہے، فرمایا:اس امت کے پہلے لوگ یقین
اور زہد کے ذریعہ نجات پائیں گے، جبکہ آخری لوگ بخل اور خواہشات کے سبب ہلاکت میں
مبتلا ہوں گے۔
5۔کنزالعمال، کتاب الاخلاق، حدیث 7382 میں ہے، فرمایا:اللہ عزوجل نے اس
بات پر قسم یاد فرمائی ہے کہ جنت میں کوئی بخیل داخل نہ ہو گا۔
قارئین!ذرا ان مذکورہ بالا احادیث پر غور کرکے ان سے درسِ عبرت حاصل
کیجئے ذرا غور تو کیجئے کہ کیا یہ بات کہ اللہ عزوجل کی اس بات پر قسم یاد فر مائی
کہ بخیل جنت میں داخل نہ ہو گا، کیا یہ بات ڈرنے کے لئے کافی نہیں، ذرا غور کیجئے!
کہ کنجوسی کتنی بری صفت ہے، کنجوس شخص سے لوگ بھی دور ہو جاتے ہیں، لوگ کنجوس شخص
کو پسند نہیں کرتے، کنجوسی بہت بری صفت ہے۔
قارئین محترم!ذرا اپنے آپ پر غور کریں، اپنا احتساب کریں، اپنے آپ سے
سوال کریں کہ کہیں میں تو کنجوسی کی بری صفت میں مبتلا تو نہیں؟ اگر جواب ہاں میں
آئے تو مذکورہ بالا وعیدات سے خود کو ڈرائیں، کہ کیا اب بھی خود کو ہلاکت میں
ڈالوں گا؟ کیا اب بھی کنجوسی کرکے راہِ خدا میں مال دینے سے رکوں گا؟ کیا اب بھی میں
ان وعیدات کو پڑھنے کے بعد بھی بخل نہیں چھوڑوں گا؟
محترم قارئین! اللہ عزوجل سخی ہے اور سخاوت کو پسند فرماتا ہے، جبکہ
شیطان کنجوس شخص کو پسند فرماتا ہے، اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کو راضی کرنا ہے؟ کس
کا محبوب بننا ہے؟ آئیے سخی کی فضیلت پر ایک حدیث مبارکہ پڑھئے، تاکہ بخل سے بچنے
اور سخاوت کرنے کا ذہن ملے۔
سنن ترمذی کی حدیث 1969 میں ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت
کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:سخی اللہ عزوجل کے قریب ہے،
جنت سے قریب ہے، تمام لوگوں سے قریب ہے، جہنم سے دور اور کنجوس اللہ سے دور، جنت
سے دور، جہنم سے قریب اور جاہل سخی عابد
بخیل سے زیادہ اللہ کو پیارا ہے۔
تمام تعریفیں اللہ عزوجل کے لئے ہیں، جو اپنے کشادہ رزق کے باعث حمد
کے لائق ہے، وہ ناامیدی کے بعد تکلیف کو دور کرنے والا ہے، اس نے مخلوق کو پیدا کیا
اور انہیں وسیع رزق عطا فرمایا، دنیا کے فتنے بہت کثیر ہیں اور نہایت وسیع اور
فراخ ہیں، ان فتنوں میں سب سے بڑا فتنہ مال کا ہے، جو زیادہ آزمائش کا باعث ہے،
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مال کے فائدے بھی ہیں اور آفتیں بھی، جس کا انجام نقصان کے سوا
کچھ نہیں ہوتا۔
بخل کی تعریف: جہاں شرعاً یا عرف و عادت
کے اعتبار سے خرچ کرنا واجب ہو، وہاں خرچ نہ کرنا بخل(کنجوسی) ہے۔
1۔اللہ پاک نے بخل کو اپنے غضب سے پیدا کیا اور اس کی جڑ کو
زقوم(جہنم کے ایک درخت) کی جڑ میں راسخ کیا اور اس کی بعض شاخیں زمین کی طرف جھکا
دیں تو جو شخص بخل کی کسی ٹہنی کو پکڑ لیتا ہے، اللہ پاک اسے جہنم میں داخل فرما دیتا
ہے، سن لو! بے شک بخل نا شکری ہے اور ناشکری جہنم میں ہے۔
تشریح:
اس حدیث پاک میں بیان ہوا ہے کہ بخل جہنم میں ایک درخت ہے، جو بخیل
ہوا، اس نے اس درخت کی شاخ پکڑی کہ وہ اسے تب تک نہ چھوڑے گی، جب تک اسے جہنم میں
داخل نہ کر دے، انسان کے پاس جو مال ہے، وہ اس میں بخل کرتا ہے اور اس کی ناشکری
کرتا ہے اور ناشکری کرنے والا جہنم کا حقدار ہوتا ہے۔(کتاب البخلاء، وصف رسول اللہ
الخاءوالبخل، صفحہ 48، حدیث 17، الجفان والجابی)
2۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا:مالدار بخل کرنے کی وجہ سے بلا حساب جہنم میں داخل ہوں گے۔(فردوس
الاخبار، باب السین1/444، حدیث3309) اس حدیث پاک میں یہ بیان ہوا ہے، مالدار یعنی
جس کے پاس مال ہو گا، مگر وہ اس کو راہِ خدا میں خرچ کرنے میں بخل کرتا ہے تو وہ
بلا حساب یعنی اس کا کوئی حساب کتاب نہ ہوگا اور اسے جہنم میں داخل کر دیا جائے
گا۔
3۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی
اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کوئی بخیل جنت میں نہیں جائے گا۔(معجم الاوسط،
باب العین من اسمہ علی ، ج 3 ، ص 125 ، ح 4066)
تشریح:
اس حدیث میں بیان ہوا ہے کہ مالدار ہونے کے باوجود بخل کرنے والا حدیث
میں داخل نہیں ہوگا، یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو اتنا مال دیا، لیکن وہ مال و
دولت کی حرص اور دنیاوی محبت کی وجہ سے اللہ پاک(عزوجل)کی راہ میں خرچ نہیں کرتا،
اس میں بخل کرتا ہے تو ایسا شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا۔
4۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللّٰہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بخیل اللہ سے دور ہے، جنت سے اور آدمیوں سے دور، جبکہ جہنم کے قریب ہے۔(جامع ترمذی، کتاب البر و
الصلۃ ، باب ماجاء فی السخاء، ج 3، ص 387، ح 1968) اس حدیث کی شرح یہ ہے کہ بخل کرنے والا اللہ
عزوجل سے دور ہے، کیونکہ بخل اللہ عزوجل نے اپنے غضب سے پیدا کیا ہے، جب کہ یہ
اللہ سے دور ہے اور جنت سے بھی دور ہے اور آدمیوں سے دور ہے، جبکہ جہنم سے قریب ہے۔
5۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللّٰہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:آدمی کی دو عادتیں بری ہیں،بخیلی جو رولانے والی ہے،
بزدلی جو ذلیل کرنے والی ہے۔(ابو داؤد، کتاب جہاد، باب فی الجراۃ الجبن 18/3 ،ح
2511) اس حدیث کی شرح کچھ اس طرح ہے کہ آدمی کے اندر دو بری عادتیں پائی جاتی ہیں،
ایک بخل جس کی وجہ سے یہ اللہ عزوجل سے دور ہے اور جہنم کے قریب ہے اور یہ اسے
رلانے والی ہے اور دوسری بزدلی، جو انسان کو ذلیل کر دیتی ہے۔
اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی،
ہرگز اسے لئےاچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے
لئے برا ہے، عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہو گا۔
محترم قارئین! اپنے آپ کو بخل یعنی کنجوسی کرنے سے بچائیں اور بخل کی
مذمت پر غور کرتے ہوئے اللہ عزوجل کی راہ میں خوش دلی سے خرچ کرنے کا ذہن بنائیں،
بخل کی مذمت کے بارے میں جوعذابات قرآن و حدیث میں بیان کئے گئے ہیں، ان پر غور کرکے
اپنے آپ کو بخل کرنے سے بچائیں اور اپنے اعمال کو نیکیوں والا بنائیں، کیونکہ
ہمارے ساتھ جو چیز جائے گی، وہ ہمارے اعمال ہی ہیں، چاہے وہ اچھے ہوں یا برے، مال
و دولت تو سب دنیا میں ہی رہ جائیں گے، یہ فقط دنیا کا سازوسامان ہیں، اللہ عزوجل
کی راہ میں خوش دلی سے اپنے مال کو خرچ کریں، بخل ہلاک کرنے والا مرض ہے، بخل بعض
اوقات کئی گناہوں کا سبب بن جاتا ہے، لہذا ہر مسلمان کو اس سے بچنا لازم ہے۔
اس میں مبتلا ہونے کے بعض اسباب مال کی محبت اور لمبی امید کا ہونا
ہے، ان سے بچنے کے لئے قبروآخرت کو کثرت سے یاد کیجئے کہ میرا مال قبر میں میرے کسی
کام نہیں آئے گا، ان شاءاللہ دل سے مال و دولت کی محبت دور ہوگی، بخل کے بارے میں
تفصیلی معلومات کے لئے احیاء العلوم، جلد سوم، صفحہ 698 تا819 کا مطالعہ کیجئے۔
بخل کی
مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ از بنت عبد الرؤف، ساؤتھ امریکہ سرینام
ظاہری باطنی افعال:انسانی زندگی دو قسم کے افعال سے
مرکب ہے جن میں ایک ظاہری اور دوسرا باطنی ہے اور انہی پر جزاء و سزا کا دارو مدار
ہے جہاں انسان اپنے ظاہری بدن کی نگہداشت اسکی تزئین و آرائش کا بہت اہتمام کرتا
ہے ایسے ہی باطنی صفائی اور پاکیزگی سے غفلت برتنا انتہائی نا مناسب ہے۔ جس طرح ظاہری بدن کے لیےعبادات لازم ہیں اسی
طرح باطن کو بھی گناہوں سے بچا کر روح کی پاکیزگی کا اہتمام کر نا بہت ضروری ہے لہذا
ظاہر اور باطن دونوں کا مساوی ہو نا لازم و ملزوم ہے اور اس کے لیےظاہر اور باطن
دونوں طرح کے افعال کا علم حاصل کرنا انتہائی اہم اور فرض علوم میں سے ہے تاکہ
ظاہری بدن کو گناہوں سے بچانے کے ساتھ باطنی بیماریوں سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکےانہی باطنی امراض میں
سے ایک بخل بھی ہے۔
بخل کیا ہے؟ بخل ایک قلبی اور باطنی بیماری ہے۔ بخل کا لغوی معنیٰ کنجوسی کرنا ہے۔ اصلاحی طور پر جس موقع پر خرچ
کرنا شرعی یا ،عادی اعتبار سے یا مروتاً ضروری ہو وہاں خرچ نہ کرنا بخل ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات بحوالہ حدیقہ
الندیہ ج2 ص27)
بخل کے متعلق آیات: رب کریم عزوجل ارشادِ فرماتا ہے:
ترجمہ کنزالایمان۔جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی
ہرگز اسے اپنے لئے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لئے برا ہے عنقریب وہ جس میں بخل
کیا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہوگا اور اللہ ہی وارث ہے آسمانوں اور زمین کا اور
اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔ (پ 4 ، آل عمران: 180)
دیگر
آیات و احادیث میں بھی بخل کی شدید مذمت کی
گئی ہے ، یہی وہ مذموم عادت ہے جس کے باعث آدمی اپنے خالق و مالک اپنے پروردگار کے
عطا کئے ہوئے رزق کو اسی کی مکرم و معظم بارگاہ میں پیش کرنے سے کتراتا ہے زکوٰۃ ،فطرہ،
قربانی دیگر مالی عبادات کو بوجھ سمجھتا ہے، غریبوں اور ضرورت مندوں حتی کی اپنے
قریبی رشتہ داروں کی بھی خیرخواہی سے جان چھڑاتاہے نہ صرف یہ بلکہ اسکی بارگاہ میں
حاضر ہونے یعنی حج جیسی عالیشان عبادت سے بھی خود محروم رکھتا ہے جس کے لیے لاکھوں عشاق تڑپتے ہیں۔ اکثر علماء کا موقف یہ ہے کہ بخل کا مطلب اپنے
فرائض واجبات ادا نہ کرنا ہے۔ (تفسیر خزائن العرفان از مفتی نعیم الدین مرادآبادی )
ایک
اور مقام پر اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے
ترجمۂ
کنزُالعِرفان:ہاں ہاں یہ جو تم لوگ ہو تم بلائے جاتے ہو تاکہ تم اللہ کی راہ میں
خرچ کرو تو تم میں کوئی بخل کرتا ہے اور جو بخل کرے وہ اپنی ہی جان سے بخل کرتا ہے
اور اللہ بے نیاز ہے اور تم سب محتاج ہو اور اگر تم منہ پھیرو گے تو وہ تمہارے سوا
اور لوگ بدل دے گا پھر وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔
بخل کے متعلق احادیث : اسی طرح بخل کی مذمت میں کئی
احادیث بھی موجود ہیں چند احادیث ملاحظہ فرمائیں:
1-حضرت
ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا
ارشاد عبرت بنیاد ہے بندے کی دوخصلتیں بری ہیں: بخیلی جو رلانے والی ہے، بزدلی جو ذلیل کرنے والی ہے۔ (ابو
داؤد ،کتاب الجہاد ،باب الجرأۃوالجبن، 3/18، حدیث2511)
2-ایک
حدیث میں ارشاد فرمایا: دولت مند کنجوس بغیر حساب کے جہنم میں داخل ہوں گے۔ (فردوس
الاخبارباب السین، 1/444،حدیث 3309)
3-حضرت
عبداللہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
کوئی بخیل جنت میں نہیں جائے گا۔ (معجم الاوسط ،باب السین ،من اسمہ علی، حدیث 4066)
4-حضرت
ابو ہریرہ سے روایت ہے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بخل کرنے والا
رب کریم عزوجل سے دور ہے ،جنت سے اور آدمیوں سے دور ہے اور جہنم سے قریب ہے۔ (ترمذی
، کتاب البروالصلۃ،باب ما جآء فی السخاء، حدیث1968)
5-حضرت
ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
بخل جہنم میں ایک درخت ہے ،جس نے بخل کیا اس نے اسکی شاخ پکڑ لی اور وہ اسے جہنم میں
داخل کیے بغیر نہ چھوڑے گی۔ (شعب الایمان ، اربع والسبعون من شعب الایمان ، 7/435
حدیث 10877)
ان
روایات سے بخل کی خرابیوں اور نحوستوں کا پتا چلتا ہے اور جس چیز کی خرابی اور
فساد زیادہ ہو اسکے علاج کی بھی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور علاج لے لیے اسباب کا
جاننا بھی انتہائی اہم ہے۔
کیمیائے
سعادت میں امام عزالی نے بخل کے علاج کے متعلق فرمایا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ مال کی محبت ہے نیز لمبی
زندگی کی امید اور نفسانی خواہشات ہیں ۔اسکا علاج قناعت ،صبر اورموت کی یاد، بخل مذمت
اور سخاوت کے فضائل کا مطالعہ کرتے رہنا بھی ہے۔ اس پر عمل کی برکت سے بخل کے مہلک
مرض سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے
اللہ پاک
نے مال کو ایک حکمت اور مقصد کیلئے پیدا فرمایا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس سے مخلوق کی
ضروریات پوری ہوں لہذا مال ہونے کے باوجود اسے ضروریات میں خرچ نہ کرنا بخل ہے۔ اب
سوال یہ ہے کہ خرچ کرنے کی واجب مقدار کیا ہے جسے خرچ نہ کرنے سے انسان بخل (کنجوسی)
میں مبتلا ہوجاتا ہے؟ تو جواب یہ ہے کہ اس کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جو شریعت کی طرف
سے واجب ہے مثلا زکوة، فطرہ، عشر وغیرہ اور دوسری وہ جو عادت اور مروت کی وجہ سے واجب
ہے جیسے دوست احباب اور عزیز رشتہ داروں پر خرچ کرنا۔ تو جو شخص ان قسموں میں سے کسی
جگہ خرچ نہ کرے، وہ بخیل یعنی کنجوس کہلائے گا۔ (احیاء علوم الدین، کتاب ذمّ البخل
وذمّ حبّ المال، بیان حدّ السخاء والبخل وحقیقتہما، ۳ / ۳۲۰،
ملخصاً)
خیال رہے
کہ جہاں خرچ کرنا شرعاً واجب ہو وہاں بخل کرنا زیادہ مذموم اور عذابِ الہی کا باعث
ہے۔
قرآن پاک اور احادیث
مبارکہ میں متعدد مقامات پر بخل کی مذمت کی گئی ہے۔ یہاں ذیل میں بخل کی مذمت پر مشتمل
5 فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم درج کیے جاتے ہیں:
1_بخیل
اللہ سے دور ہے، جنت سے دور ہے، لوگوں سے دور ہے، آگ کے قریب ہے اور یقیناً جاہل سخی
کنجوس عابد سے افضل ہے۔ (ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی السخاء، ۳ / ۳۸۷، الحدیث: ۱۹۶۸)
2_بخل
سے بچو کیونکہ بخل نے تم سے پہلے والوں کو ہلاک کردیا۔ اسی بخل نے انہیں خونریزی کرنے
اور حرام کو حلال ٹھہرانے پر آمادہ کیا۔ (مسلم، کتاب البر و الصلة و الآداب، باب تحریم
الظلم، ص ١٣٩۴، حدیث ٢۵٧٨)
3_مالدار
بخل کرنے کی وجہ سے بلا حساب جہنم میں داخل ہوں گے۔ (فردوس الاخبار، باب السین، ۱ / ۴۴۴، الحدیث: ۳۳۰۹)
4_اللہ
پاک نے فرمایا: مجھے اپنی عزت، عظمت اور جلال کی قسم! لالچی اور بخیل جنت میں داخل
نہیں ہوگا۔ (کنز العمال، کتاب الاخلاق، الباب الثانی فی الاخلاق و الافعال المذمومة،
١٨٢/٣، حدیث ٧۴٠۴)
5_اللہ
پاک اس شخص کو ناپسند فرماتا ہے جو زندگی بھر بخل اور مرتے وقت سخاوت کرے۔ (کنز العمال،
کتاب الاخلاق، الباب الثانی فی الاخلاق و الافعال المذمومة، ١٨٠/٣، حدیث ٧٣٧٣)
جب بخل اس قدر
مذموم صفت ہے تو بندے کو چاہئے کہ بخل کے اسباب پر غور کرکے انہیں دور کرنے کی کوشش
کرے، جیسے بخل کا بہت بڑا سبب مال کی محبت ہے، مال سے محبت نفسانی خواہش اور لمبی عمر
تک زندہ رہنے کی امید کی وجہ سے ہوتی ہے، اسے قناعت اور صبر کے ذریعے اور بکثرت موت
کی یاد اور دنیا سے جانے والوں کے حالات پر غور کر کے دور کرے۔ یونہی بخل کی مذمت اور
سخاوت کی فضیلت، حُبّ مال کی آفات پر مشتمل اَحادیث و روایات اور حکایات کا مطالعہ
کر کے غورو فکر کرنا بھی ان شاء اللہ اس مُہلِک مرض سے نجات حاصل کرنے میں معاون ثابت
ہو گا۔ (کیمیائے سعادت، رکن سوم، اصل ششم، علاج بخل، ۲ / ۶۵۰-۶۵۱،
ملخصاً)
اللہ پاک ہمیں
بخل اور کنجوسی سے بچنے اور اپنی راہ میں خوشدلی کے ساتھ خرچ کرنے کی سعادت نصیب فرمائے۔
آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
بخل بھی
کبیرہ گناہوں میں سے ہے اس کا تعلق دل سے ہے کیونکہ لالچ دل سے پیدا ہوتا ہے اور لالچ
دل کے پھندے میں ہے، اللہ پاک نے بخل کا ذکر قرآن پاک میں واضح طور پہ 10 مقامات پہ
ارشاد فرما یا اورضمناً 6 مقامات پہ چنانچہ
رب کریم ارشاد فرماتا ہے:
هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ١ۚ
فَمِنْكُمْ مَّنْ يَّبْخَلُ١ۚ وَ مَنْ يَّبْخَلْ فَاِنَّمَا يَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِهٖ١ؕ
ترجمہ
کنزالعرفان: ہاں ہاں یہ جو تم بلائے جاتے ہو تاکہ تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو تم میں کوئی بخل کرتا ہے اور
جو نکل کرے وہ اپنی ہی جان دے نکل کرتا ہے (پ 26، محمد: 38)
اسی طرح
بکثرت احادیث میں بخل کی سخت مذمت فرمائی گئی
ہے۔
سب سے
پہلے لفظ بخل کا مطلب سمجھئے تاکہ اس گناہ کو جڑ سے ختم کرنے میں مزید آسانی ہو لغت
میں بخل کنجوسی کو کہتے ہیں اور اصطلاح میں اس سے مراد جہاں خرچ کرنا شرعاً،عادتًا
یا مروتاً لازم ہو وہاں خرچ نہ کرنا بخل کہلاتا ہے یا جس جگہ مال و اسباب خرچ کرنا
ضروری ہو وہاں خرچ نہ کرنا یہ بھی بخل ہے(الحدیقة الند ية، الخلق السابع والعشرون - الخ،ج2ص 27،مفردات الفاظ
القرآن، 109)
اب اس
ضمن میں 5فرامین مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ
وسلم ملاحظہ فرمائیے:
1- بخیل
دھوکے باز اور بد اخلاق جنت میں نہیں جائیں گے (المسند للامام احمد بن حنبل،مسند ابی
بکر الصدیق، 1/20،حدیث13)
2-اللہ
پاک تین قسم کے لوگوں کو ناپسند فرماتا ہے، بوڑھا زانی،احسان جتانے والا بخیل،اور متکبر
فقیر [مساوی الاخلاق للخرائطی،باب ما جاء فی الزنا من التغلیظ، ص212،حدیث 505 (بتغیر)
]
3-مومن
میں دو عادتیں جمع نہیں ہو سکتیں ایک بخل اور دوسری بد اخلاقی(سنن الترمذی،کتاب اکبر
والصلہ،باب ما جاء فی البخل،3/387حدیث1969)
4-اللہ
پاک اس شخص کو ناپسند فرماتا ہے جو زندگی بھر بخل اور مرتے وقت سخاوت کرے(کنزالعمال،
کتاب الاخلاق، الباب الثانی فی الاخلاق والافعال المذمومة 3/180,حدیث7373)
5-ظلم
سے بچو کیونکہ ظلم قیامت کے دن اندھیروں میں ہوگااور کنجوسی سے بچو کیونکہ کنجوسی نے
تم سے پہلے والوں کو ہلاک کر دیا کنجوسی نے انہیں رغبت دی کہ انہوں نے خون ریزی کی،حرام
کو حلال جانا٢ (مرأة المناجيح ص85) مفتی احمد یار خان علیہ رحمةُ اللهِ المنّان کنجوسی
سے بچو۔۔۔الخ کے تحت فرماتے ہیں کہ عربی میں شُحّ، بخل سے بد تر ہے بُخْل یہ ہے کہ
اپنا مال کسی کو نہ دینا اور شُحّ یہ ہے کہ اپنا مال بھی نہ دینا اور دوسرے کے مال پہ بھی ناجائز قبضہ کرنا غرضیکہ شُحّ بخل،حرص اور ظلم کا مرکب ہے اسی لیےبخل دنگا فساد، قتل و غارت گری اور قطع رحمی کی بنیادی
وجہ ہے ۔
اپنے ظاہر
و باطن کو مزید پاک و صاف کرنے کے لیے ان کتابوں کا مطالعہ لازمی فرمائیے :
باطنی
بیماریوں کی معلومات، احیاء العلوم جلد 3، جہنم میں لے جانے والے اعمال،ظاہری گناہوں
کی معلومات* اللہ کریم اس بد ترین بیماری سے ہمارے دلوں کو تاابد محفوظ فرمائے اور
راہ خدا میں دل کھول کر خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
تعریف: جہاں خرچ کرنا واجب ہے، وہاں خرچ
نہ کرنا یہ بخل ہے اور جہاں خرچ نہ کرنا واجب ہے، وہاں خرچ کرنا اسراف ہے۔
بخل انتہائی
بدترین خصلت ہے، یہ بدترین خصلت ہزاروں نیکیوں سے محروم کر دینے والی ہے، دنیا میں
کنجوسی کا انجام، ذلت و خواری اور طرح طرح کی تکالیف سے ہیں اور آخرت میں اللہ
تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہے۔
بخل کے درجات: بخل کے تین درجے ہوتے ہیں، پہلے درجے میں
خرچ کرنا شرعاً واجب ہوتا ہے، مثلاً زکوۃ، صدقے، فطر ،قربانی، حج، کفار کے مقابلے میں
خرچ کرنا، اہل و عیال کی ضروریات پر خرچ کرنا، جو ان موقعوں پر خرچ نہ کرے، سب سے بڑا
بخیل اور پرلے درجے کا کنجوس ہے۔دوسرا وہ شخص جو اپنے دوستوں، رشتہ داروں پر خرچ نہیں
کرتا، ہمسائیوں پر خرچ نہیں کرتا، عرف عادت کے اعتبار سے واجب ہے ان پر خرچ کرے، نہیں
کرتا بخیل ہے، مگر اس کا درجہ پچھلے والے سے کم ہے۔تیسرے درجے کا بخیل شخص وہ ہے کہ
فرائض و واجبات کی ادائیگی میں خرچ کرتا ہے، لیکن نفلی صدقات، فقراء و مساکین اور فلاحی
کاموں میں خرچ نہیں کرتا، استطاعت کے باوجود، وسعت کے اپنا ہاتھ روک رکھتا ہے، کنجوس
ہے مگر پہلے دو درجوں سے کم درجے کا۔
فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم:
1۔ اللہ
عزوجل زندگی میں بخل اور موت کے وقت سخاوت کرنے والے شخص کو ناپسند کرتا ہے۔
2۔ دو
خصلتیں یعنی عادتیں مؤمن میں اکٹھی نہیں ہو سکتیں، وہ بخل اور بداخلاقی ہے۔(ترمذی3/387،
حدیث1969)
3۔ انسان
کا بدترین خلق بری عادت اور گھبراہٹ پیدا کرنے والا بخل ہے، کسی کو دینے سے دل گھبراتا
ہو اور بے شرمی والی بزدلی۔(ابوداؤد3/8،حدیث2511)
4۔ اللہ
عزوجل نے اس بات پر قسم یاد فرمائی ہے کہ جنت میں کوئی کنجوس داخل نہ ہوگا۔(معجم اوسط
3/125،حدیث4066)
5۔بخل
سے بچو کہ بخل نے اگلوں کو ہلاک کیا، اسی بخل نے انہیں خون بہانے اور حرام کو حلال ٹھہرانے پر آمادہ کیا۔(مسلم شریف، ص1069،
حدیث2578)
مندرجہ
بالا احادیث کے ذریعے بخل کے دینی اور دنیاوی نقصانات کا پتہ چلتا ہے کہ کنجوسی ایک
نحوست ہے، جو ربّ تعالی کی سخت ناراضگی کا باعث ہے، یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل نہ
ہو گا، بخل کی مذمت میں قرآن پاک میں بھی اللہ پاک نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
بخل کا علاج: دنیاوی خواہشات
اور امیدوں کی کمی یہ بخل کا علاج ہے، انسان اپنی خواہشات کی وجہ سے مال سے محبت کرتا
ہے، قناعت اختیار کرنی چاہئے، جو مل جائے اس پر راضی رہنا چاہئے، موت کو یاد کرنا چاہئے
کہ موت کسی بھی وقت آ جائے تو جمع کیا ہوا مال، گن گن کر رکھا ہوا مال اس کے کس کام
کا؟؟؟ ایک علاج یہ بھی ہے کہ بخل کنجوسی کے متعلق قرآن و حدیث اور حکایات پڑھی جائیں،سخاوت
کا بیان پڑھا جائے، سخاوت کے فضائل پر غور کیا جائے، بخل کا ایک علاج یہ بھی ہے کہ
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نجات پانے کی دعا کرے، ان شاء اللہ وہ مالک و مولا کرم فرمائے
گا، بخل کی عادتِ بد کو ختم کرے گا اور انشاء اللہ عزوجل سخاوت کی سعادت مقدر بن جائے
گی۔
میرا
دل پاک ہو سرکار دنیا کی محبت سے
مجھے
ہوجائے نفرت کاش آقا مال و دولت سے
بخل کی
مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم بخل کا
تعلق ایک باطنی بیماری سے ہے ۔ بخل کرنے والا اللہ پاک کی ناراضگی اور اس کے غضب کو
دعوت دیتا ہے اور ساتھ ہی اپنے آپ کو رب کریم کی رحمت سے دور کرتا ہے، جس طرح کسی چیز
کی اہمیت کو جاننے کے لیے اس کا بنیادی علم حاصل کرنا ضروری ہے اس طرح ہی کسی چیز کے
مذموم ہونے کے لیے اس کی معلومات کا جاننا ضروری ہے لہذا پہلے بخل کے کے معنیٰ جان لیتے ہیں۔ جہاں شرعاً یا عرف و عادت کے اعتبار سے خرچ کرنا
واجب ہو وہاں خرچ نہ کرنا 'بخل'ہے۔ (صراط الجنان،سورۃ آل عمران،آیت 118)
بخل کی
مذمت 5 احادیث کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں:
1- اللہ
پاک نے بخل کو اپنے غضب سے پیدا کیا اور اس کی جڑ کو زقوم کی جڑ میں راسخ کیا اور اس
کی بعض شاخیں زمین کی طرف جھکا دیں تو جو شخص بخل کی کسی ٹہنی کو پکڑ لیتا ہے اللہ
پاک اسے جہنم میں داخل فرما دیتا ہے ۔سن لو بے شک بخل ناشکری ہے اور شکری جہنم میں
ہے۔ (ظاہری گناہوں کی معلومات، ص،113) زقوم ۔۔جہنم میں ایک درخت ہے ۔
2- تین
چیزیں ہلاکت میں ڈالنے والی ہیں •بخل جس کی پیروی کی جائے •نفسانی خواہش جس کی اطاعت
کی جائے •انسان کا اپنے آپ کو اچھا جاننا۔ (احیاء العلوم جلد 3)
3- دو
خصلتیں کسی مومن میں جمع نہیں ہو سکتیں بخل اور بد خلقی(تفسیر صراط الجنان ،سورۃ النساء
،آیت 37)
4- بخل
آگ میں ایک درخت ہے،جو بخیل ہوا،اس نے اس کی شاخ پکڑی وہ اسے نہ چھوڑے گی یہاں تک کہ
آگ میں داخل کرے گی۔ (فیضان زکٰوۃ،ص13)
5- مال
دار بخل کی وجہ سے بلا حساب جہنم میں داخل ہوں گے (ماہنامہ خواتین ،شمارہ جون 2022،ص31)
بخل کے
جہاں اخروی نقصانات ہے وہی بخیل کو دنیا میں بھی رسوا ہونا پڑتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا
ہوتا ہے کہ اس مذموم بیماری سے کس طرح چھٹکارا حاصل ہو لہذا بخل کے لیے ان کو زیر غور
رکھے ۔ •سب سے پہلے تو بخل کے اسباب پر نظر رکھے ۔ •بخل تو مال کی محنت کے سبب پیدا
ہوتا ہے لہذا قبر و آخرت کو کثرت سے یاد کرے تاکہ دل سے مال کی محبت دور ہو۔ سخاوت کے فضائل کا مطالعہ کرنے سے بہت امید ہے کہ
اس بیماری سے آزادی حاصل ہو۔ •یہ بات ذہن نشین
کر لیں کہ راہ خدا مال مال خرچ کرنے سے کم نہیں بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس
ہلاکت خیز بیماری سے اپنی خفاظت میں رکھے اور ہمیں اپنا مال راہ خدا میں خرچ کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اللہ پاک قرآن
مجید میں ارشاد فرماتا ہے:وَ لَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ
بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ هُوَ خَيْرًا لَّهُمْ١ؕ بَلْ هُوَ شَرٌّ
لَّهُمْ١ؕ سَيُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ١ؕ وَ لِلّٰهِ مِيْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ
اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ ترجمہ کنزالایمان:اور جو بخل کرتے ہیں
اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی، ہرگز اسے لئےاچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لئے برا ہے،
عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہو گا اور اللہ ہی
وارث ہے آسمانوں اور زمین کا اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔(پ 4 ، آل عمران: 180)
اعلی
حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی
راہ میں مال خرچ کرنے میں بخل کرنے والوں کے بارے میں شدید وعید بیان کی گئی ہے
اور اکثر مفسرین نے فرمایا کہ یہاں بخل سے زکوۃ کا نہ دینا مراد ہے۔
کثیر
احادیث میں بھی بخل کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے۔
1۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس کو اللہ عزوجل نے مال دیا اور اس
نے زکوۃ ادا نہ کی، روزِ قیامت وہ مال سانپ بن کر اس کو طوق کی طرح لپٹے گا اور یہ
کہہ کر ڈستا جائے گا کہ میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔(بخاری1/474، الحدیث1403)
2۔حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:آدمی
کی دو عادتیں بری ہیں،بخیلی جو رولانے والی ہے، بزدلی جو ذلیل کرنے والی ہے۔(ابو
داؤد، کتاب جہاد، 18/3 ،ح 2511)
3۔حضرت
جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ظلم
سے بچو، کیونکہ ظلم قیامت کے دن تاریکیوں کی شکل اختیار کرے گا اور بخل سے بچو، کیونکہ
بخل نے ان لوگوں کو ہلاک کیا، جو تم سے پہلے تھے، بخل نے انہیں ایک دوسرے کا خون
بہانے پر ابھارا اور بخل کی وجہ سے وہ حرام چیزوں کو حلال سمجھنے لگے۔(مسلم شریف،
الحدیث2578)
4۔حضرت
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا:کوئی بخیل جنت میں نہیں جائے گا۔(معجم الاوسط، ج 3 ، ص 125 ، ح 4066)
5۔حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا:بخل جہنم میں ایک درخت ہے، جو بخیل ہے اس نے اس کی ٹہنی پکڑ لی ہے، وہ ٹہنی
اُسے جہنم میں داخل کئے بغیر نہ چھوڑے گی۔(شعب الایمان 7/435، الحدیث10877)
بخل
ہلا ک کرنے والا مرض ہے، بخل کئی گناہوں کا سبب بنتا ہے، تنگدستی بخل کی وجہ سے آتی
ہے، بخل کرنا ناجائز ہے، آخرت میں پکڑ کا سبب ہے، مسلمان کو اس سے بچنا لازمی ہے، آئیے قرآن میں ربّ نے بخل
کے بارے میں کیا فرمایا، پڑھئے: وَ لَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ
بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ هُوَ خَيْرًا لَّهُمْ١ؕ بَلْ هُوَ شَرٌّ
لَّهُمْ١ؕ سَيُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ١ؕ(پ 4
، آل عمران: 180) ترجمہ کنزالایمان:اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں
اپنے فضل سے دی، ہرگز اسے لئےاچھا نہ سمجھیں
بلکہ وہ ان کے لئے برا ہے، عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا
طوق ہو گا ۔ (لباب الاحیاء، ص 266)
جبکہ
بخل کے مقابلہ میں سخاوت ہے اور سخاوت کے بے شمار فضائل قرآن و حدیث میں بیان
ہوئے، جان لیجئے جب بندے کے پاس مال نہ ہو تو قناعت کرے اور اگر مال موجود ہو تو ایثار
کرے اور سخاوت سے کام لے، بخل نہ کرے، بخل کس کو کہتے ہیں؟ دیکھئے۔۔
تعریف:جہاں
بھی شرعی طور پر یا عرف و عادت کے اعتبار سے خرچ کرنا واجب ہوتا ہے، وہاں خرچ نہ کرنا بخل کرنا ہے، یعنی
کنجو سی ہے، جیسے صدقہ، فطرہ، وغیرہ میں خرچ کرنا، زکوۃ دینا، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں کنجوسی
کرنا۔(فرض علوم سیکھئے، ص722)
احادیث طیبہ:
1۔ بخل
سے بچو، کیونکہ اسی نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا، ان کو ایک دوسرے کا خون
بہانے اور حرام چیزوں کو حلال ٹھہرانے پر برانگیختہ کیا۔(لباب الاحیاء، صفحہ 266)
2۔ اللہ
تعالیٰ بخیل کی زندگی اور سخی کی موت کو ناپسند فرماتا ہے۔
3۔ اللہ
تعالیٰ نے قسم کھائی ہے کہ بخیل کو جنت میں نہیں بھیجے گا۔(مکاشفۃالقلوب، باب بخل،
ص179)
4۔ اللہ
پاک نے بخل کو اپنے غضب سے پیدا کیا اور اس کی جڑ کو زقوم(جہنم کے ایک درخت) کی جڑ
میں راسخ کیا اور اس کی بعض شاخیں زمین میں جھکا دیں تو جو شخص بخل کی کسی ٹہنی کو
پکڑ لیتا ہے، اللہ پاک اسے جہنم میں داخل کر لیتا ہے، سن لو! بیشک بخل ناشکری ہے
اور ناشکری جہنم میں ہے۔(فرض علوم سیکھئے، ص721)
5۔ دو
عادتیں مؤمن میں جمع نہیں ہوسکتیں، بخل اور بد خلقی۔
درس:
پیاری اسلامی بہنو!بخل نہ کیجئے، اس سے ربّ ناراض ہوتا ہے، یہ ایک بری صفت ہے، مال
و دولت جب ربّ کا دیا ہوا ہے، اگر اس نے مال دیا ہے تو اس کی راہ میں خرچ کرتے
ہوئے نہ گھبرایئے، کنجوسی سے جان چھڑائیں، خوب اللہ کی راہ میں خرچ کریں، غریب رشتہ
داروں کو بھی نہ بھولیں، خرچ کریں، اجر کمائیں۔
اللہ
کسی کی نیکی ضائع نہیں کرتا اور بڑھ چڑھ کر راہِ خدا میں خرچ کریں۔
ہلاکت
میں ڈالنے والے امور میں سے ایک اَمر مَذموم، بری خصلت اور باطنی بیماریوں میں سے ایک
بیماری بخل بھی ہے ۔جہاں شرعًا (جیسے زکوة،صدقہ فطر وغیرہ )یا عُرْف و عَادَت کے اعتبار
سے (جیسے دوست احباب رشتہ دار وغیرہ پر ) خرچ کرنا واجب ہو وہاں خرچ نہ کرنا بخل کہلاتا
ہے ۔(احیاء العلوم،٣٢٠/٣)
یہ غصب
الٰہی کو دعوت دیتی ہے اور بندے کو جہنم سے قریب کر دیتی ہے۔چنانچہ اللہ عزوجل نے قرآن
پاک میں بخیل کے لیئے یوں وعید بیان فرمائی ہے؛(ترجمہ کنز العرفان )اور جو لوگ اس چیز
میں بخل کرتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ہے وہ ہرگز اسے اپنے لئے اچھا نہ
سمجھیں بلکہ یہ بخل ان کے لئے برا ہے۔ عنقریب قیامت کے دن ان کے گلوں میں اسی مال کا
طوق بنا کر ڈالا جائے گا جس میں انہوں نے بخل کیا تھا۔ (آل عمران :180) ۔چنانچہ حضور
ﷺ نے اس مذموم صفت سے اللہ کی پناہ طلب کی
اور کثرت سے اسکی مذمت بھی فرمائی چنانچہ اسی سے متعلق 5 احادیث درج ذیل ہیں :
1۔مالدار
بخل کرنے کی وجہ سے بالا حساب جہنم میں داخل ہوں گے۔ (فردوس الاخیار،باب السین،
٤٤٤/١،ح: ٣٣٠٩)
٢۔ بخيل الله سے دور
ہے،جنت سے اور آدمیوں سے دور ہے،جبکہ جہنم کے قریب ہے۔(ترمذی،کتاب البر الخ،باب ماجاء
فی سخاء،٣٨٧/٣،ح؛٣٣٠٩)
٣۔ بخل
جہنم میں ایک درخت ہے۔جو بخیل ہے اس نے اس ٹہنی پکڑ لی ہے، وہ ٹہنی اسے جہنم میں داخل
کیے بغیر نہ چھوڑے گی۔(شعب الایمان، الرابع و سبعون میں شعب الایمان، ٤٣٥/٧،ح: ١٠٨٧٧)
٤۔ دو خصلتیں ایسی
ہیں جو جو دونوں ایک ساتھ مومن میں جمع نہیں ہوں گی ایک کنجوسی اور دوسری بداخلاقی۔(جامع
ترمذی، کتاب البر والصلة،باب ماجاء فی البخل،٣٨٧/٣،ح١٩٦٩)اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ
یہ دونوں بری خصلتیں مؤمن میں ایک ساتھ نہیں پائی جائیں گی ۔اور اگر تم کسی ایسے کو
دیکھو کہ وہ بخیل اور بداخلاق دونوں ہے تو سمجھ لو اسکے ایمان میں کچھ فتور ضرورہے
اور یہ کامل درجہ کا مسلمان نہیں۔(جنتی زیور،ص:112)
٥۔ ہر
صُبح جب بندگانِ خدا بیدار ہوتی ہیں تو دو فرشتے اُترتے ہیں،ان میں سے ایک کہتا ہے
یا اللہ!خرچ کرنے والے کو اسکا بدل عطا فرما اور دوسرا کہتا ہے یا اللہ! بخیل کا مال
تباہ و برباد کردے۔(ریاض الصالحين، باب الکرم والجود والانفاق الخ ،ح٥٥١)ہمیں چاہیے
کہ ہم اس قبیح بیماری سے بچیں اور اللہ پاک کے مقرب بندوں کی صفت سخاوت کو اختیار کریں
اور بخل سے بچنے کے لیئے اس کے اسباب کی طرف غور کریں اور اپنے آپکو اللہ پاک کے غضب
سے ڈراتے ہوئے ، سخاوت کے فضائل و جزاء خود کو یاد دلائیں۔ اللہ پاک ہمیں بخل سے پناہ
عطاء فرمائے ۔آمین