ظاہری اعمال کا باطنی اوصاف کے ساتھ خاص تعلق ہے، مگر باطن خراب ہو تو ظاہری اعمال بھی خراب ہوں گے اور اگر باطن درست ہو تو ظاہر بھی درست ہوتا ہے، باطنی گناہوں کا تعلق عموماً دل سے ہوتا ہے، لہذا دل کی اصلاح ضروری ہے، باطنی گناہوں میں سے بخل بھی ہے، جس کی مذمت قرآن اور حدیث سے ثابت ہے۔

بخل کے معنیٰ :بخل کے لغوی معنیٰ کنجوسی کے ہیں، جہاں خرچ کرنا شرعاً، عادتاًیا مروتاً لازم ہو،ہاں خرچ نہ کرنا بخل کہلاتا ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات، صفحہ 129،130)

فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم:

1۔ جس سے بچتے رہو، کیونکہ تم سے پہلی قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئیں، لالچ نہیں نے بخل پر آمادہ کیا تو وہ بخل کر نے لگے اور جب قطع رحمی کا خیال دلایا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم دیا تو وہ گناہ میں پڑ گئے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات، صفحہ 129، 130)

2۔ بخل اور بدخلقی یہ دو خصلتیں ایماندار میں جمع نہیں ہوتیں۔اکثر مفسرین نے فرمایایہاں سے زکوۃ کا نہ دینا مراد ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات، صفحہ 129)

3۔ جس کو اللہ نے مال دیا اور اس نے زکوۃ نہ دی تو روزِ قیامت وہ مال سانپ بن کر اس کو طوق کی طرح لیٹے گا اور یہ کہہ کر ڈستا جائے گا کہ میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔(باطنی بیماریوں کی معلومات، صفحہ 129)

4۔ اللہ پاک نے اس بات پر قسم یاد فرمائی ہے کہ جنت میں کوئی بخیل داخل نہ ہوگا۔

5۔ اس امت کے پہلے لوگ یقین اور زہد کے ذریعے نجات پائیں گے، جبکہ آخری لوگ بخل، خواہشات کے سبب ہلاکت میں مبتلا ہوں گے۔(فضائل صدقات)

سنا آپ نے! بخل کی کس قدر تباہ کاریاں ہیں، کیا یہ ہلاکت کم ہیں کہ اللہ پاک اس بات پر قسم یاد فرمائی ہے کہ جنت میں کوئی کنجوس شخص داخل نہ ہوگا، کیا اب بھی ہم بخل جیسی نحوست سے نہیں بچیں گے؟کیا اب بھی ہم کنجوسی سے کام لیں گے؟ کیا اب بھی بخل کے ذریعے اپنی ہلاکت کے اسباب پیدا کریں گے؟یاد رکھئے! بخیل شخص لوگوں کی نظر میں حقیر بن جاتا ہے اور معاشرے میں اسے عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا، بخیل شخص ابلیس لعین کو بہت پسند ہے۔

اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ وہ ہمیں گناہوں کے ساتھ باطنی گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور بخل جیسی بری عادت سے ہمیں محفوظ فرمائے۔آمین