تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں، جس کے جلال کا ادراک کرنے سے تمام دل حیران ہیں اور اس کے انوار کی ادنی تجلی سے آنکھیں حیران ہیں اور اس کے وہ دلوں کے پوشیدہ رازوں پر مطلع ہے اور سینوں میں مخفی امور کو جانتا ہے۔

حکایت: کہتے ہیں کہ بصرہ میں ایک بخیل مالدار شخص تھا، اس کے ایک پڑوسی نے اس کی دعوت کی، اس کے سامنے ہانڈی میں بھنا ہوا گوشت رکھا، اس نے اس میں سے بہت زیادہ کھالیا اور پھر پانی پینے لگا، یہاں تک کہ اس کا پیٹ پھول گیا اور وہ سخت تکلیف میں مبتلا ہوگیا اور پیچ و تاب کھانے لگا، جب معاملہ بگڑ گیا تو ڈاکٹر کو اس کی حالت بتائی گئی، اس نے کہا کوئی حرج نہیں، جو کچھ کھایا ہے اسے قے کر دو، اس نے کہا:ایسے عمدہ گوشت کو کیسے قے کر دوں، موت قبول کر لوں گا، لیکن ایسا نہیں کروں گا۔

دیکھا آپ نے!بخیل یعنی کنجوس کس قدر لالچی ہوتا ہے، اس کو موت تو گوارا ہے، لیکن دنیا کا مال چھوڑنا گوارا نہیں۔

بخل کی تعریف:بخل کے لغوی معنیٰ کنجوسی کے ہیں، جہاں خرچ کرنا شرعاً، عادتاًیا مروتاً لازم ہو،ہاں خرچ نہ کرنا بخل کہلاتا ہے یا جس جگہ مال و اسباب میں خرچ کرنا ضروری ہو، وہاں خرچ نہ کرنا یہ بھی بخل کہلاتا ہے۔

آیات مبارکہ: اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:اور جن لوگوں کو نفس کے لالچ سے بچایا گیا، وہی لوگ کامیاب ہیں۔اور وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ فضل میں بخل سے کام لیتے ہیں، وہ ہرگز یہ خیال نہ کریں کہ یہ( ان کا بخل کرنا) ان کے حق میں بہتر ہے بلکہ یہ ان کے لئے برا ہے، عنقریب قیامت کے دن انہیں اس چیز کا طوق پہنایا جائے گا، جس میں وہ بخل کرتے ہیں۔

1۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:آدمی کے دو عادتیں بری ہیں، ایک بخیلی جو رُلانے والی ہے، دوسرا بزدلی جو ذلیل کرنے والی ہے۔(ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فی الجراہ والجبن،3/18، ح2511)

شرح:

اس حدیث مبارکہ میں آدمی کی دو بری عادتیں بتائی گئی ہیں، بخیلی یعنی کنجوسی مطلب کے دنیا کے مال کی حرص کی حرص، یہ عادت انسان کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے روکتی ہے، دوسری عادت بزدلی، بخیل انسان بزدل بھی ہوتا ہے کہ اس بات پر یقین نہیں رکھتا، اگر اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا تو اللہ سے دگنا عطا کرے گا۔

2۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مالدار بخل کرنے کی وجہ سے بلا حساب جہنم میں داخل ہوں گے۔(فردوس الاخبار، باب السین،1/444، ح3309)

شرح:

اس حدیث پاک میں بخل کے انجام کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ بخیل یعنی کنجوسی کرنے والا بغیر حساب جہنم میں داخل کیا جائے گا۔

3۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کوئی بخیل جنت میں نہیں جائے گا۔(معجم الاوسط، باب العین ومن اسمہ علی 3/125، ح4066)

شرح:

اس حدیث مبارک میں کنجوسی کرنے والے کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔

4۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بخیل اللہ سے دور ہے، جنت سے اور آدمیوں سے دور ہے، جبکہ جہنم سے قریب ہے۔ (ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی السخاء 3/387، ح1968)

شرح:

اس حدیث مبارکہ میں بخیل کے چار نقصانات بتائے گئے ہیں، وہ یہ کہ بخیل آدمی اپنی بری عادتوں کی وجہ سے اللہ عزوجل سے دور ہے، جنت سے دور ہے، لوگوں سے دور ہے اور جہنم کے قریب ہے۔

5۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بخل جہنم میں ایک درخت ہے، جو بخیل ہے اس نے اس کی ٹہنی پکڑ لی ہے اور وہ ٹہنی اسے جہنم میں داخل کر دے گی۔(شعب الایمان الرابع والسبعون من شعب الایمان 7/435، ح10877)

شرح:

اس حدیث مبارکہ میں بتایا گیا کہ جہنم میں ایک درخت ہے، جس کو بخل کہا جاتا ہے، جو آدمی بخل کرتا ہے تو وہ اس کی ٹہنی پکڑ لیتا ہے ،وہ ٹہنی اسے جہنم میں لے جاتی ہے۔

محترم قارئین کرام! بخل کا علاج یوں ہو سکتا ہے کہ بخل کے اسباب پر غور کرکے انہیں دور کرنے کی کوشش کرے، اسے قناعت اور صبر کے ذریعے اور بکثرت موت کی یاد اور دنیا سے جانے والوں کی حالت پر غور کرکے دور کرے، یونہی بخل کی مذمت پر احادیث اور روایات کا مطالعہ کر کے غوروفکر کرنا بھی اس مہلک مرض سے نجات حاصل کرنے کا سبب بن سکتا ہے ۔