ظاہری باطنی افعال:انسانی زندگی دو قسم کے افعال سے مرکب ہے جن میں ایک ظاہری اور دوسرا باطنی ہے اور انہی پر جزاء و سزا کا دارو مدار ہے جہاں انسان اپنے ظاہری بدن کی نگہداشت اسکی تزئین و آرائش کا بہت اہتمام کرتا ہے ایسے ہی باطنی صفائی اور پاکیزگی سے غفلت برتنا انتہائی نا مناسب ہے۔ جس طرح ظاہری بدن کے لیےعبادات لازم ہیں اسی طرح باطن کو بھی گناہوں سے بچا کر روح کی پاکیزگی کا اہتمام کر نا بہت ضروری ہے لہذا ظاہر اور باطن دونوں کا مساوی ہو نا لازم و ملزوم ہے اور اس کے لیےظاہر اور باطن دونوں طرح کے افعال کا علم حاصل کرنا انتہائی اہم اور فرض علوم میں سے ہے تاکہ ظاہری بدن کو گناہوں سے بچانے کے ساتھ باطنی بیماریوں سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکےانہی باطنی امراض میں سے ایک بخل بھی ہے۔

بخل کیا ہے؟ بخل ایک قلبی اور باطنی بیماری ہے۔ بخل کا لغوی معنیٰ کنجوسی کرنا ہے۔ اصلاحی طور پر جس موقع پر خرچ کرنا شرعی یا ،عادی اعتبار سے یا مروتاً ضروری ہو وہاں خرچ نہ کرنا بخل ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات بحوالہ حدیقہ الندیہ ج2 ص27)

بخل کے متعلق آیات: رب کریم عزوجل ارشادِ فرماتا ہے: ترجمہ کنزالایمان۔جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ہرگز اسے اپنے لئے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لئے برا ہے عنقریب وہ جس میں بخل کیا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہوگا اور اللہ ہی وارث ہے آسمانوں اور زمین کا اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔ (پ 4 ، آل عمران: 180)

دیگر آیات و احادیث میں بھی بخل کی شدید مذمت کی گئی ہے ، یہی وہ مذموم عادت ہے جس کے باعث آدمی اپنے خالق و مالک اپنے پروردگار کے عطا کئے ہوئے رزق کو اسی کی مکرم و معظم بارگاہ میں پیش کرنے سے کتراتا ہے زکوٰۃ ،فطرہ، قربانی دیگر مالی عبادات کو بوجھ سمجھتا ہے، غریبوں اور ضرورت مندوں حتی کی اپنے قریبی رشتہ داروں کی بھی خیرخواہی سے جان چھڑاتاہے نہ صرف یہ بلکہ اسکی بارگاہ میں حاضر ہونے یعنی حج جیسی عالیشان عبادت سے بھی خود محروم رکھتا ہے جس کے لیے لاکھوں عشاق تڑپتے ہیں۔ اکثر علماء کا موقف یہ ہے کہ بخل کا مطلب اپنے فرائض واجبات ادا نہ کرنا ہے۔ (تفسیر خزائن العرفان از مفتی نعیم الدین مرادآبادی )

ایک اور مقام پر اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے

ترجمۂ کنزُالعِرفان:ہاں ہاں یہ جو تم لوگ ہو تم بلائے جاتے ہو تاکہ تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو تم میں کوئی بخل کرتا ہے اور جو بخل کرے وہ اپنی ہی جان سے بخل کرتا ہے اور اللہ بے نیاز ہے اور تم سب محتاج ہو اور اگر تم منہ پھیرو گے تو وہ تمہارے سوا اور لوگ بدل دے گا پھر وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔

بخل کے متعلق احادیث : اسی طرح بخل کی مذمت میں کئی احادیث بھی موجود ہیں چند احادیث ملاحظہ فرمائیں:

1-حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد عبرت بنیاد ہے بندے کی دوخصلتیں بری ہیں: بخیلی جو رلانے والی ہے، بزدلی جو ذلیل کرنے والی ہے۔ (ابو داؤد ،کتاب الجہاد ،باب الجرأۃوالجبن، 3/18، حدیث2511)

2-ایک حدیث میں ارشاد فرمایا: دولت مند کنجوس بغیر حساب کے جہنم میں داخل ہوں گے۔ (فردوس الاخبارباب السین، 1/444،حدیث 3309)

3-حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی بخیل جنت میں نہیں جائے گا۔ (معجم الاوسط ،باب السین ،من اسمہ علی، حدیث 4066)

4-حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بخل کرنے والا رب کریم عزوجل سے دور ہے ،جنت سے اور آدمیوں سے دور ہے اور جہنم سے قریب ہے۔ (ترمذی ، کتاب البروالصلۃ،باب ما جآء فی السخاء، حدیث1968)

5-حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بخل جہنم میں ایک درخت ہے ،جس نے بخل کیا اس نے اسکی شاخ پکڑ لی اور وہ اسے جہنم میں داخل کیے بغیر نہ چھوڑے گی۔ (شعب الایمان ، اربع والسبعون من شعب الایمان ، 7/435 حدیث 10877)

ان روایات سے بخل کی خرابیوں اور نحوستوں کا پتا چلتا ہے اور جس چیز کی خرابی اور فساد زیادہ ہو اسکے علاج کی بھی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور علاج لے لیے اسباب کا جاننا بھی انتہائی اہم ہے۔

کیمیائے سعادت میں امام عزالی نے بخل کے علاج کے متعلق فرمایا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ مال کی محبت ہے نیز لمبی زندگی کی امید اور نفسانی خواہشات ہیں ۔اسکا علاج قناعت ،صبر اورموت کی یاد، بخل مذمت اور سخاوت کے فضائل کا مطالعہ کرتے رہنا بھی ہے۔ اس پر عمل کی برکت سے بخل کے مہلک مرض سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے