اللہ عزوجل  ارشاد فرماتا ہے:

ا۟لَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ وَ يَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَ يَكْتُمُوْنَ مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ وَ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابًا مُّهِيْنًاۚ۳۷ ترجمہ کنزالایمان:وہ لوگ جو خود بخل کرتے ہیں اور دیگر لوگوں کو بخل کا کہتے ہیں اور اللہ نے جو انہیں اپنے فضل سے دیا ہے، اسے چھپاتے ہیں ان کے لئے شدید وعید ہے اور کافروں کے لئے ہم نے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

تفسیر ابن کثیر میں ہے(اس آیت کے متعلق) ارشاد ہوتا ہے:کہ جو لوگ اللہ کی خوشنودی کے موقع پر مال خرچ کرنے سے جی چراتے ہیں، مثلاً ماں ، باپ کو دینا،قرابت داروں سے اچھا سلوک نہیں کرتے، یتیم مسکین پڑوسی، رشتے دار، غیر رشتے دار پڑوسی، ساتھی مسافر، غلام اور ماتحت کو ان راہ ان کی محتاجی کے وقت فی سبیل اللہ خرچ نہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

آئیے سب سے پہلے ہم یہ جانیں کہ بخل سے کیا مراد ہے، پھر اس کے متعلق، اس کی مذمت پر احادیث مبارکہ ہیں، وہ پڑھ کر عبرت حاصل کریں گے۔

بخل کی تعریف:بخل کے لغوی معنیٰ کنجوسی کے ہیں اور جہاں خرچ کرنا شرعاً، عادتاً اور مروتاً لازم ہو، وہاں خرچ نہ یہ بھی بخل ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات، صفحہ 128)

بخل کی مذمت پر آیات مبارکہ اور احادیث مبارکہ ہیں، آئیے ہم بخل کی مذمت پر 5 احادیث مبارکہ جانتے ہیں۔

1۔بخاری شریف، حدیث 4383 میں ہے: کہ کون سی بیماری بخل کی بیماری سے بڑھ کر ہے؟

2۔سنن ابی داؤد، حدیث 1698 میں ہے:کہ لوگو! بخیلوں سے بچو، اسی نے تم سے اگلوں کو تاخت و تاراج کیا، اس کے باعث ان سے قطع رحمی اور فسق و فجور جیسے برے کام نمایاں ہوئے۔

3۔باطنی بیماریوں کی معلومات، صفحہ 129، 130 پر موجود اس حدیث مبارکہ یہ ہے کہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ، راحتِ قلب و سینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:لالچ سے بچتے رہو، کیونکہ تم سے پہلی قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئیں، لالچ نے انہیں بخل پر آمادہ کیا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خیال آیا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم دیا تو وہ گناہ میں پڑ گئے۔(ابو داؤ، ح1698)

4۔فردوس الاخبار، حدیث 7106 میں ہے، فرمایا:اس امت کے پہلے لوگ یقین اور زہد کے ذریعہ نجات پائیں گے، جبکہ آخری لوگ بخل اور خواہشات کے سبب ہلاکت میں مبتلا ہوں گے۔

5۔کنزالعمال، کتاب الاخلاق، حدیث 7382 میں ہے، فرمایا:اللہ عزوجل نے اس بات پر قسم یاد فرمائی ہے کہ جنت میں کوئی بخیل داخل نہ ہو گا۔

قارئین!ذرا ان مذکورہ بالا احادیث پر غور کرکے ان سے درسِ عبرت حاصل کیجئے ذرا غور تو کیجئے کہ کیا یہ بات کہ اللہ عزوجل کی اس بات پر قسم یاد فر مائی کہ بخیل جنت میں داخل نہ ہو گا، کیا یہ بات ڈرنے کے لئے کافی نہیں، ذرا غور کیجئے! کہ کنجوسی کتنی بری صفت ہے، کنجوس شخص سے لوگ بھی دور ہو جاتے ہیں، لوگ کنجوس شخص کو پسند نہیں کرتے، کنجوسی بہت بری صفت ہے۔

قارئین محترم!ذرا اپنے آپ پر غور کریں، اپنا احتساب کریں، اپنے آپ سے سوال کریں کہ کہیں میں تو کنجوسی کی بری صفت میں مبتلا تو نہیں؟ اگر جواب ہاں میں آئے تو مذکورہ بالا وعیدات سے خود کو ڈرائیں، کہ کیا اب بھی خود کو ہلاکت میں ڈالوں گا؟ کیا اب بھی کنجوسی کرکے راہِ خدا میں مال دینے سے رکوں گا؟ کیا اب بھی میں ان وعیدات کو پڑھنے کے بعد بھی بخل نہیں چھوڑوں گا؟

محترم قارئین! اللہ عزوجل سخی ہے اور سخاوت کو پسند فرماتا ہے، جبکہ شیطان کنجوس شخص کو پسند فرماتا ہے، اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کو راضی کرنا ہے؟ کس کا محبوب بننا ہے؟ آئیے سخی کی فضیلت پر ایک حدیث مبارکہ پڑھئے، تاکہ بخل سے بچنے اور سخاوت کرنے کا ذہن ملے۔

سنن ترمذی کی حدیث 1969 میں ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:سخی اللہ عزوجل کے قریب ہے، جنت سے قریب ہے، تمام لوگوں سے قریب ہے، جہنم سے دور اور کنجوس اللہ سے دور، جنت سے دور، جہنم سے قریب اور جاہل سخی عابد بخیل سے زیادہ اللہ کو پیارا ہے۔