بخل
ہلاکت و بربادی میں ڈالنے والا سبب ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ بخل کیا ہے، اس کی تعریف
کیا ہے؟اور کس سبب سے آدمی بخیل کہلاتا ہے؟ تو لہٰذا بخل کے لغوی معنیٰ کنجوسی کے ہیں اور بخیل وہ شخص ہے کہ جس جگہ مال
و اسباب خرچ کرنا ضروری ہو، وہاں خرچ نہ کرے، خرچ کرنے میں کنجوسی کرے تو وہ شخص
بخیل کہلاتا ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،
ص128)
انسان
کے پاس مال آتا ہے اور وہ اسے خرچ کرنے میں کنجوسی کرتا ہے تو مال کو روکنے کے سبب
سے اس شخص کو بخیل قرار دے دیا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں بخل کرنے والوں کی مذمت کا
ذکر ہوا ہے، بخل کی مذمت کا اندازہ اس آیت مبارکہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ نے
قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:
ترجمہ
کنزالایمان:اور جو بخل کرے، وہ اپنی ہی جان پر بخل کرتا ہے۔(پ 26، محمد: 38)
اس آیت
مبارکہ کی تفسیر میں ہے کہ یاد رکھو!اگر تم اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم سے منہ پھیرو گے تو وہ تمہیں ہلاک کر دے گا اور وہ تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو
پیدا کردے گا، پھر وہ تم جیسے نافرمان نہ ہوں گے، بلکہ انتہائی اطاعت گزار،
فرمانبردار ہوں گے۔
5 فرامین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم:
1۔بخیل
دھوکےباز، خیانت کرنے والا اور بد اخلاق جنت میں نہیں جائے گا۔(المسند، امام احمد
بن حنبل، مسند ابی بکر صدیق، حدیث نمبر 13)
2۔سخاوت
جنت میں اُگنے والا ایک درخت ہے، لہذا سخی جنت میں جائے گا، بخل جہنم میں اُگنے
والا درخت ہے، لہذا بخیل جہنم میں جائے گا۔(کنزالعمال، کتاب الزکوۃ، حدیث
نمبر16203)
3۔اللہ
عزوجل اس شخص کو ناپسند فرماتا ہے، جو زندگی بھر بخل اور مرتے وقت سخاوت کرے۔(احیاء
العلوم، جلد سوم، صفحہ نمبر 764، فرمان نمبر 19)
4۔جاہل
سخی اللہ عزوجل کو عبات گزار بخیل سے زیادہ محبوب ہے۔(شعب الایمان، باب فی الجود والسخاء،ح10847)
5۔کسی
بندے کے دل میں بخل اور ایمان جمع نہیں ہو سکتے۔(سنن النسائی، کتاب الجہاد، باب الفضل
من المال فی سبیل اللہ، ح3108)
بخل کا دینی و دنیاوی نقصان: دینی نقصان: بخل کرنے والا مال
خرچ کرنے کے ثواب سے محروم ہوجاتا ہے اور نہ خرچ کرنے کے وبال میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
دنیاوی نقصان:بخل کرنے کی وجہ سے آدمی مال کی برکت
سے محروم ہو جاتا ہے۔(تفسیر سورہ محمد، آیت نمبر 38، پارہ 26)
بخل کا علمی و عملی علاج: علمی علاج:بخل کا علمی علاج سے مراد یہ
ہے کہ بخل کے نقصان اور سخاوت کے فائدے کی پہچان حاصل کریں۔
عملی علاج:بخل کا عملی علاج سے مراد یہ ہے کہ تکلف کر کے سخاوت
کرے اور مال خرچ کرے۔(احیاءالعلوم، جلد سوم، صفحہ نمبر 788 تا 789)
اللہ
کریم ہمیں اپنی راہ میں مال خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور بخل جیسی بد ترین باطنی بیماری سے محفوظ
فرمائے۔آمین
درود پاک کی فضیلت: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تمہارا مجھ پر درود پاک پڑھنا تمہاری
دعاؤں کا محافظ، ربّ کی رضا کا باعث اور تمہارے اعمال کی پاکیزگی کا سبب ہے۔(حدائق
بخشش، صفحہ 266)
بخل
بذاتِ خود قابلِ مذمت ہے، پہلی قومیں بھی بخل کی وجہ سے ہلاک ہوئیں، اسی وجہ سے
بخل سے بچنے کی تلقین کی جاتی رہتی ہے۔
بخل:عدم
انفاق مال یعنی مال کو خرچ نہ کرنے کو بخل کہتے ہیں۔بخل کی ایک اور طرح تعریف کی
جاتی ہے، بخل کے لغوی معنیٰ کنجوسی کے ہیں
اور جہاں خرچ کرنا شرعاً، عادتاً اور
مروتاً لازم ہو، وہاں خرچ نہ کرنا بخل کہلاتا ہے یا جس جگہ مال و اسباب خرچ کرنا
ضروری ہو، وہاں خرچ نہ کرنا بھی بخل ہے۔
مفہوم آیات مبارکہ:ترجمہ کنزالایمان:عنقریب وہ جس میں بخل
کیا تھا، قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہوگا۔(پ 4، آل عمران: 180)
ترجمہ
کنزالایمان:اور وہ جس نے بخل کیا اور بے پرواہ بنا اور سب سے اچھی کو جھٹلایا تو
بہت جلد ہم اسے دشواری مہیا کر دیں گے اور اس کا مال اسے کام نہ آئے گا، جب ہلاکت
میں پڑے گا۔(پارہ30، واللیل: 8 تا11)
ان آیات
مبارکہ سے معلوم ہوا کہ بخل کس قدر بری چیز ہے کہ اس کے سبب دشواری کا سامنا کرنا
پڑے گا اور انسان ہلاکت کا شکار ہوگا۔
مفہوم حدیث مبارکہ:
1۔نبی
پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بخل سے بڑھ کر کون سی بیماری ہو سکتی ہے؟
2۔نبی
پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ظلم سے بچو، بلاشبہ ظلم قیامت کے دن اندھیریاں ہوگا اور بخل سے بچو کہ بخل نے اگلوں کو ہلاک کیا،
اسی بخل نے انہیں خون بہانے اور حرام کو حلال ٹھہرانے پر آمادہ کیا۔
3۔حضور
پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تین چیزیں ہلاکت میں ڈالنے والی ہیں، بخل
جس کی پیروی کی جائے، نفسانی خواہش جس کی اطاعت کی جائے،(اس سے مراد وہ نفسانی
خواہش ہے، جس میں حکمِ شریعت کو ملحوظ نہ رکھا جائے)، انسان کا اپنے آپ کو اچھا
جاننا۔(76 کبیرہ گناہ، صفحہ 233تا 235)
4۔حضرت
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کئی مساکین شمار کئے یا کئی صدقات
گنوائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عائشہ! دو اور گنو نہیں، ورنہ
تمہیں بھی گن گن کر دیا جائے گا۔
اسی
طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(اسماء) دو اور باندھ باندھ کر مت
رکھو، ورنہ تم پر بھی( تمہارا رزق) باندھ دیا جائے گا۔
5۔رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور فرمایا:اپنے آپ کو حرص و بخل سے بچاؤ، تم
سے پہلے کے لوگ اسی وجہ سے ہلاک ہوئے، حرص
نے ان کو حکم دیا تو وہ بخل کرنے لگے، قطع رحمی کا حکم دیا تو قرابت توڑ لی اور بدکاری کا حکم دیا تو بدکاری کرنے لگے۔
بخیلی
ایک نحوست ہے، باندھ باندھ کر مت رکھو کا مطلب یہی ہے کہ بخل سے کام نہ لو، کیونکہ
بعض اوقات خرچ کرنے کی بہت حاجت ہوئی ہے، لیکن انسان اپنی بخل کی مذموم عادت کی
وجہ سے ضروری مقامات اور اوقات میں بھی خرچ نہیں کرتا اور نقصان اٹھاتا ہے، اس کے
ساتھ ساتھ آخرت میں بھی اس کے لئے ہلاکت کا سامان ہو جاتا ہے۔
لہذا
انسان کو چاہئے کہ وہ عند الضرورت خرچ کرے، تاکہ دنیوی بھی نقصان نہ ہو اور آخرت
کے نقصان سے بھی بچا جا سکے، اس کے علاوہ یہ کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے بیش
بہا فضائل ہیں تو جب ان فضائل پر نگاہ ہوگی تو بخل سے جان چھڑانے میں کافی مدد مل
سکے گی۔
اللہ
پاک اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہمیں بخل سے بچتے ہوئے اس کی راہ
میں صدقات ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
تعریف: جہاں شرعاً یا
عرف و عادت کے اعتبار سے خرچ کرنا واجب ہو، وہاں خرچ نہ کرنا بخل ہے، یعنی زکوۃ،
صدقہ، فطرہ وغیرہ میں خرچ کرنا شرعاً خرچ کرنا کہلاتا ہے اور دوست احباب ، رشتہ داروں پر خرچ کرنا عرف و عادت کے اعتبار
سے خرچ کرنا کہلاتا ہے۔
مذمت: بہت سی آیات،
حدیث، روایات میں بخل کی مذمت کا ذکر آیا ہے اور شدید مذمت بیان کی گئی ہے، چنانچہ
احادیث ملاحظہ کیجئے:
1۔حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:آدمی
کی دو عادتیں بری ہیں،1بخیلی، جو رلانے
والی ہے،2بزدلی، جو ذلیل کرنے والی ہے۔( ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فی الجراة
والجبن، 3/ 18 ،حدیث: 2511)
2۔حضور
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:بخل سے بچو، کیونکہ اسی نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا، ان کو ایک
دوسرے کا خون بہانے اور حرام چیزوں کو حلال ٹھہرانے پر براَنگیختہ کیا۔(احیاء
العلوم کا خلاصہ، باب بخل اور حبِ مال کی مذمت، صفحہ 266)
3۔نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مالدار بخل کرنے کی وجہ سے بلاحساب جہنم
میں داخل ہوں گے۔(فردوس الاخبار، باب السین 1/444، ح3309)
4۔نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بخل جہنم میں ایک درخت ہے، جو بخیل ہے اس
نے اس کی ٹانگیں پکڑ لی ہیں، وہ ٹہنی اسے
جہنم میں داخل کئے بغیر نہ چھوڑے گی۔(صراط الجنان، جلد دوم، پارہ 4، آیت 180،
ص105، سورہ آل عمران)
5۔حضرت
ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بخل کرنے
والے اور خیرات کرنے والے کی مثال ان دو شخصوں کی طرح ہے، جن کے بدن پر لوہے کی زِرہیں
ہوں اور ان کے دونوں ہاتھ سینے کے ساتھ گلے سے بندھے ہوئے ہوں، جب خیرات کرنے والا
کوئی خیرات کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ زِرہ ڈھیلی ہو جاتی ہے اور بخیل جب خیرات کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی
زِرہ کا ہر حلقہ اپنی جگہ پر سخت ہو جاتا
ہے۔(صراط الجنان، جلد 8، پارہ 23، سورہ یاسین، صفحہ 262، حدیث 2)
اس
مثال کا حاصل یہ ہے کہ سخی آدمی جب خیرات کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا سینہ
کشادہ ہو جاتا ہے اور خرچ کرنے کے لئے اس کا ہاتھ کھل جاتا ہے، جبکہ بخیل شخص جب خیرات
کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا سینہ تنگ ہو جاتا ہے اور اس کے ہاتھ بندھ جاتے ہیں۔
اللہ
تعالیٰ مسلمانوں کو راہِ خدا میں خرچ کرنے اور بخل سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
تمہیدی گفتگو:بخل ایک نہایت قبیح اور مذموم فعل ہے،
نیز بخل بسا کا دیگر کئی گناہ کا بھی سبب بن جاتا ہے، اس لئے ہر مسلمان کو اس سے
بچنا لازم ہے۔
بخل کی تعریف: بخل کے لغوی معنیٰ کنجوسی کے ہیں اور جہاں خرچ کرنا شرعاً، عادتاً اور مروتاً لازم ہو، وہاں خرچ نہ کرنا
بخل کہلاتا ہے یا جس جگہ مال و اسباب خرچ کرنا ضروری ہو، وہاں خرچ نہ کرنا یہ بھی
بخل ہے۔
بخل کی مذمت کے متعلق 5 احادیث:
1۔اللہ
پاک نے بخل کو اپنے غضب سے پیدا کیا اور اس کی جڑ کو زقوم(جہنم کے ایک درخت) کی جڑ میں راسخ کیا، اس کی بعض شاخیں زمین کی طرف جھکادیں تو جو شخص کی بخل کی کسی
ٹہنی کو پکڑ لیتا ہے، اللہ پاک اسے جہنم میں داخل فرما دیتا ہے، سن لو! بے شک بخل
ناشکری ہے اور نا شکری جہنم میں ہے۔(کتاب البخلاء، وصف رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم والسخا والبخل، ص48، حدیث17)
شرح: اس
حدیث مبارکہ میں بخل کی مذمت کرتے ہوئے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم بخل کی حقیقت بیان
کرتے ہیں اور آخر میں بخل کرنے والے کا انجام بیان فرمایا کہ بخل نا شکری ہے اور
نا شکری جہنم میں ہے۔
2۔حضرت
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ظلم
سے بچو، کیونکہ ظلم قیامت کے دن تاریکیوں کی شکل میں ہوگا اور کنجوسی سے بچو، کیونکہ
کنجوسی نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاکت کا شکار کیا اور اس نے انہیں (ایک دوسرے کا)
خون بہانے پر ابھارا اور انہوں نے حرام چیزوں کو حلال قرار دیا۔(ریاض الصالحین،
باب 361 بخل اور کنجوسی کی ممانعت، صفحہ 357، حدیث 566)
شرح:اس
حدیث مبارکہ میں بخل سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے، کیونکہ یہ پہلے لوگوں کی ہلاکت کا
سبب ہے۔
3۔حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا:آدمی کی دو عادتیں بُری ہیں،بخیلی جو رلانے والی ہے، بزدلی جو ذلیل کرنے
والی ہے۔(ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب ففی الجراۃ والجبن،18/3 ،ح 2511)
شرح:مندرجہ
بالا حدیث مبارکہ میں انسان کی دو بڑی خصلتوں کا بیان ہے، جن میں سے ایک بخل ہے،
جو انسان کو رلا نے والا ہے۔
4۔حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مالدار
بخل کرنے کی وجہ سے بلا حساب جہنم میں داخل ہوں گے۔(فردوس الاخبار، باب السین،1/444،
حدیث 3309)
شرح: ذکر
کردہ حدیث مبارکہ میں بخل کی تباہ کاری بیان کی گئی ہے کہ بخل کرنے والا مالدار
اپنے بخل کرنے کی وجہ سے حساب کتاب کے بغیر جہنم میں داخل کیا جائے گا۔
5۔حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بخیل اللہ عزوجل سے دور ہے، جنت
سے اور آدمیوں سے دور ہے، جبکہ جہنم سے قریب ہے۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما
جاء فی السخا،387/3 ،ح 1968)
شرح:اس
حدیث مبارکہ میں بخل کرنے والے کے لئے اس کے بخل کے سبب دنیوی اور اخروی نقصانات بیان
ہیں، سب سے بڑھ کر یہ کہ بخیل اللہ عزوجل سے دور ہوتا ہے، اخروی اعتبار سے جنت اور دنیوی اعتبار سے انسانوں سے دور ہو
جاتا ہے۔
بخل سے بچنے کا درس: بخل کے اسباب پر غور کریں اور اس کے
علاج کے لئے کمر بستہ ہو جائیں، بخل کا علاج یوں بھی ممکن ہے کہ بخل کے اسباب پر
غور کرکے دور کرنے کی کوشش کریں، جیسے بخل کا بہت بڑا سبب مال کی محبت ہے، مال کی
محبت نفسانی خواہش اور لمبی عمر تک زندہ رہنے کی امید کی وجہ سے ہوتی ہے، لہذا اسے
قناعت اور بکثرت موت کی یاد سے دور کیا جاسکتا ہے، یونہی بخل کی مذمت اور سخاوت کی
فضیلت پر مبنی احادیث، روایات اور حکایات کا مطالعہ کریں کہ یہ بھی اس جان لیوا
مرض سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
اختتام: سب بحث کا حاصل یہ ہے کہ بخل ایک مہلک مرض ہے، لہذا
اس سے بچنے ہی میں عافیت ہے، اللہ پاک ہم سب کو اس بری خصلت سے بچائے۔آمین
میری پیاری
اسلامی بہنو! بخل کا علم حاصل کرنا بہت ضروری ہے، بخل ہلاکت ہے، بخل اتنا آگیا ہے بندے
دین کے لیے خرچ نہیں کرتے۔مال میں بخل کرنا۔پیاری بہنو ہمارے دلوں میں اتنا بخل آگیا
ہے کہ ہم ضروت مندوں کی مددنہیں کرتے کہی ختم نہ ہوجائے۔ بخل
ایک بہت بری بیماری ہے اس سے ہمیں خود بھی بچنا ہے اور اپنوں کوبھی اس بیماری سے بچاناہے۔
ان شاء اللہ۔
بخل کی مذمت: اللہ تعالیٰ بخل کی مذمت فرماتا ہے:ترجمہ
کنزالایمان۔بےشک اللہ کو خوش نہیں آتاکوئی اترانے والا بڑائی مارنے
والا جو آپ بخل کریں اور اوروں سے بخل لے لیے کہیں اور اللہ نے جو انہیں اپنے فضل سے
دیا ہے اسے چھپائیں۔ (النسا:
٣٦۔٣٧)
بخل یہ
ہے کہ خود کھائے دوسرے
کو نہ شان نزول۔یہ آیت یہود کے حق میں نازل
ہوئی جو سید عالمﷺ کی صفت بیان کرنے میں بخل کرتے اور چھپاتے اس سے معلوم ہوا کہ علم
کو چھپانا مذموم ہے ۔
بخل کی مذمت کے متعلق 5 احادیث:
1۔ ایسا کوئی دن نہیں جس میں بندے سویرا کریں اور دو فرشتے
نہ اتریں جن میں سے ایک تو کہتا ہے: الٰہی !سخی کو زیادہ اچھا عوض دے اود دوسرا کہتا
ہے الٰہی !بخیل کو بربادی دے۔۔۔اس حدیث کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: سخی کے کیے دعا اور کنجوس کے لیے بددعا روزانہ فرشتوں کے منہ
سے نکلتی ہے جو یقینا قبول ہے۔
2- سخی اللہ کے قریب ہے۔جنت کے قریب ہے۔کوگوں کے قریب
ہے۔آگ سے دور ہے۔۔اور کنجوس اللہ سے دور ہے۔۔جنت سے دور ہے۔لوگوں سے دور ہے۔آگ کے قریب
ہے اور یقیناجاہل سخی کنجوس عابد سے افضل ہے۔ ۔۔حکیم الامت رحمۃ اللہ تعالیٰ اس حدیث
کی شرح میں فرماتے ہیں: یہاں مرقات نے فرمایا
کہ حقیقی سخی وہ ہے جو غنی پر اللہ تعالیٰ کی رضا کو ترجیح دے۔
3۔ ظلم
سے بچو کیونکہ ظلم قیامت کے دن اندھیریاں ہوگا ۔کنجوسی سے بچو کیونکہ کنجوسی نے تم
سے پہلے والوں کو ہلاک کردیا کنجوسی نے انہیں رغبت دی کہ انہوں نے خون ریزی کی اور حرام حلال جانا ۔حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالیٰ
علیہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: بخل اپنا مال کسی کو نہ دیناہے۔ بخل ۔حرص اور
ظلم کامجموعہ ہے ۔
4۔ مومن
میں دو خصلتیں کبھی جمع نہیں ہوتیں کنجوسی اور بدخلقی۔ حکیم الامت مفتی احمد یار خان
رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں۔یعنی ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی کامل
مومن بھی ہو اور ہمیشہ کا بخیل بھی اتفاقا کبھی اس سے بخل یا بد خلقی صادر ہو جائے تو فورا
وہ پشیمان بھی ہو جاتا ہے۔
5۔ جنت
میں نہ تو فریبی آدمی جائے گا نہ کنجوس نہ
احسان جتانےوالا ۔۔۔اس حدیث کی شرح میں مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے
ہیں جو ان عیبوں پر مر جائے وہ جنتی نہیں
کیونکہ وہ منافق ہے۔
درس: میری
میٹھی اور پیاری اسلامی بہنو! ان سب احادیث سے یہ درس ملتا ہے کہ بخل ایک وہ بیماری
ہے کہ جو ہمیں جنت سے دور کر دیتی ہے۔ اس بیماری کا علاج کرنا چاہے کہ جو احادیث بخل کی مذمت اور سخاوت کی مدحت میں
وارد ہیں ان میں غور کرے اور کنجوسی کرنے پر جس عذاب سے ڈرایاگیا ہے اسے بھی یاد رکھے۔تاکہ
ہم بخل سے بچ کر سخاوت کرنے والی بن جائے۔ یہ نہیں ہے کہ
ہمارے پاس مال تو ہےراہ خدا میں خرچ نہیں کرتی
ہے۔لیکن ہم زکوة میں بھی بخل کر تی ہے زکوة میں بھی کنجوسی نہیں کرنی چاہیے زکوة ہم
پر فرض ہے۔
پیاری
اسلامی بہنو! بخیل شخص دراصل اپنا ہی نقصان کرتا یے۔ کیونکہ راہ خداﷻ میں خرچ کیا ہوا
مال بلاشبہ دنیا میں برکت اور آخرت میں اجرو ثواب کی صورت میں نفع بخش ہوتا ہے جبکہ
بخیل ان دونوں برکت و ثواب سے محروم رہتا ہے۔ میری اسلامی بہنو حقوق واجبہ ادا کرنے
میں بخل کرتے ہوئے مال جمع
کرتے رہنے کادرد ناک عذاب ہے۔
اللہ
کی راہ میں جو مال خرچ کریں اس کی برکتیں دنیا وآخرت میں ظاہر ہوتی ہیں بخیل شخص ان
سے محروم رہتا ہے۔ شیطان مردود وسوسے ڈالتا ہے کہ خرچ کرو گے تو ختم ہو جائے گا،لوگوں
کو کِھلاؤ گے تو خود کیا کھاؤ گے؟ اس طرح وَسوسوں سے انسان کو بُخل پر اُکساتا ہے۔
بُخل یہ ہے کہ خود کھائے دوسرے کو نہ دے۔ (ضیائے صدقات* ص99)
حق یہ
ہے کہ جہاں خرچ کرنا واجب ہو وہاں خرچ نہ کرنا بُخل ہے اور جہاں خرچ نہ کرنا واجب ہو
وہاں خرچ کرنا فضول خرچی اور اِسراف ہے۔ (جہنم میں لے جانے والے اعمال* ج1,ص561)
بخل بہت
مَذموم فعل ہے۔آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مذمت فرمائی ہے؛فرمایا: ایسا کوئی
دن نہیں جس میں بندے سویرا کریں اور دو فرشتے نہ اتریں جن میں سے ایک تو کہتا ہے:الہی
سَخی کو اور زیادہ اچھا عِوض دے اور دوسرا کہتا ہے:الہی بخیل کو بربادی دے۔ یعنی سخی کے لیے دعا کنجوس کے لیے بد دعا روزانہ
فرشتوں کے منہ سے نکلتی ہےجو یقیناً قبول ہے، خیال رہے کہ خَلَف مطلقاً عوض کو کہتے
ہیں دنیوی ہو یا اخروی، حِسی ہو یا مَعنوی مگر تَلَف دنیوی اور حسی بربادی کو کہا جاتا
ہے،اللہ فرماتا ہے: ترجمہ كنزالایمان:اور جو چیز تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو وہ اس
کے بدلے اور دے گا۔ (السبا : 39) (مرآۃ المناجیع شرح مشکاۃ المصابیح ج3، ص69, 70) (ضیائے
صدقات ص106,107)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنّت میں نہ تو
فریبی آدمی جائے گا نہ کنجوس نہ احسان جتانے والا۔ (سنن الترمذی،کتاب البر الصلة،باب ماجاءفی البخیل،الحدیث:1964,ج3,ص94)(مشکاة
المصابیح،کتاب الزکاة،باب الانفاق و کراھیةالامساک،الحدیث:1873،ج1,ص335) (ضیائے صدقات
ص128) یعنی جو ان عیبوں پر مر جائے وہ جنتی نہیں کیوں کہ وہ منافق ہے مومن میں اولاً
تو یہ عیب ہوتے نہیں اور اگر ہوں تو اللہ مرنے سے پہلے توبہ نصیب کر دیتا ہے یہ مطلب
بھی ہو سکتا ہے کہ ایسا آدمی جنّت میں پہلے نہ جائے گا،اِحسان جتانے سے طَعنہ دینا
مراد ہے ورنہ بعض صورتوں میں احسان جتانا عِبادت ہے جبکہ اس سے سامنے والے کی اِصلاح
مَقصود ہو۔ (مرآۃ المناجیع شرح مشکاۃ المصابیح ج 3،ص76,77)(ضیائے صدقات ص129)
آقا کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:سخِی اللہ سے قریب ہے جنّت سے قریب ہے، لوگوں سے قریب
ہے،آگ سے دور ہے اور کنجوس اللہ سے دور ہے،جنّت سے دور ہے،لوگوں سے دور ہے،آگ کے قریب
ہے اور یقیناً جاہل سخی کنجوس عابِد سے افضل ہے۔ ۔جو شخص عابِد ہو مگر ہو کنجوس کہ
نہ زکٰوۃ دے نہ صدقات واجبہ ادا کرے وہ یقیناً سخی جاہِل سے بدتر ہو گا ۔ بُخل بہت
سے فِسق پیدا کردیتا ہے۔اور سَخاوت بہت خوبیوں کا تُخَم ہے بلکہ وہ عابِد بھی کامل
نہیں کیوں کہ عبادت مالی یعنی زکٰوة وغیرہ ادا نہیں کرتا،صرف جسمانی عبادت ذکروفکر
پرقناعت کرتا ہےجس میں کچھ خرچ نہ ہو۔ (مرآۃ
المناجیع* ج 3،ص77,78،الحدیث1869)
ایک جگہ
فرمایا:ظلم سے بچو کیوں کہ ظلم قِیامت کے دن اندھیریاں ہو گا اور کنجوس سے بچو کیوں
کہ کنجوسی نے تم سے پہلے والوں کو ہلاک کردیا کنجوسی نے انہیں رغبت دی کہ انہوں نے
خون ریزی کی حرام کو حلال جانا۔ عربی میں شُح بُخل سے بدتر ہے،بخل اپنا مال کسی کو
نہ دینا اور شُح اپنا مال نہ دینا اور دوسرے کے مال پر ناجائز قبضہ کرنا ہے۔غرض کہ
شح بُخل،حِرص اور ظُلم کا مجموعہ ہے اس لیے یہ فتنوں فساد ،خون ریزی وقطع رحمی کی جڑ
ہے۔ جب کوئی دوسروں کا حق ادا نہ کرے بلکہ ان کے حق اور چھننا چاہے تو خواہ مخواہ فساد
ہوگا۔ (مرآۃ المناجیع ج 3،ص75,الحدیث1865)
آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مومن میں دو خصلتیں کبھی جمع نہیں ہوتیں کنجوسی اور بد خلقی۔
یعنی ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی کامل مومن بھی ہو اور ہمیشہ کا بخیل اور بد خُلق بھی،اگر
اتفاقاً کبھی اس سے بخل یا بد خُلقی صادِر ہو جائے تو فورًا وہ پَشِیمان بھی ہوجاتا
ہے اس کے ایک معنیٰ یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ
مومن نہ بخیل ہوتا ہے نہ بد خلق،جس دل میں ایمان کامل جاگزِیں ہو تو اس دل سے یہ دونوں
عیب نکل جاتے ہیں(لمعات) (مرآۃ المناجیع ج 3،ص78,الحدیث1872)
محترم
پیاری بہنو! ہمیں چاہیے کہ سخاوت اور راہِ خدا میں خرچ کرنے کے فضائل پڑھیں،خرچ کرنےمیں
اعتدال کریں؛نہ تو بخل کریں کہ عذاب کا باعث بنے اور نہ اتنا زیادہ خرچ کریں کہ خود
فقیر ہو جائیں۔اللہ ہمیں بخل سے بچائے اور اپنی راہ
میں اچھی نیتوں کے ساتھ خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
بجاہِ خَاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم۔ ۔
سب چیزوں
کا اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے، اسی نے اپنے بندوں کو ہر چیز سے نوازا ہے لیکن استعمال
کرنے کی بھی اسی ذات نے تحدید فرمائی ہے، جس میں اس کی پابندی اور تابعداری ضروری ہے۔
اس لیے اس کے دیئے ہوئے مال میں نہ کنجوسی کی کوئی گنجائش ہے اور نہ اسراف کی۔ کنجوسی
صرف مال پہ ہی نہیں ہوتی بلکہ محبت اور شفقت کے اظہار میں، مسکراہٹ بکھیرنے میں، تسلی
و تشفی دینے میں، گویا بخیل دینے کے ہر عمل سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے۔ عمر گزرنے
کے ساتھ انسان کے بہت سے عیوب چھٹ جاتے ہیں لیکن بخل پہلے سے بڑھ کر جوان ہوتا ہے۔
بخیل کی مثال اس پیاسے اونٹ کی ہے جس کی پیٹھ پر پانی لدا ہو۔
بُخْل
کے لغوی معنیٰ کنجوسی کے ہیں اور جہاں خرچ
کرنا شرعاً،عادتاً یا مروّتاً لازم ہو وہاں خرچ نہ کرنا بُخْل کہلاتا ہے، یا جس جگہ
مال و اسباب خرچ کرناضروری ہو وہاں خرچ نہ کرنا یہ بھی بُخْل ہے۔ (باطنی بیماریوں کی
معلومات،صفحہ۱۲۸)
بخل فقر
کے راستہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ فقر عشق ہے اور عشق قربانی مانگتا ہے اس لیے
بخیل اپنے بخل کی وجہ سے اس راستے پر نہیں چل سکتا یہ ایک مزاجی کیفیت کا نام ہے ۔
جس شخص کو یہ بیماری لگ جاتی ہے، وہ خود دنیا کی ساری چیزوں کا مالک بن کر رہنا چاہتا
ہے۔ اس کے دل و دماغ میں خودغرضی اور خودنمائی سمائی ہوئی ہوتی ہے۔ اسے صرف اپنی ذات
سے محبت ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے اس کے ہر رویے سے تنگی جھلکتی ہے۔ مزاج و طبیعت میں
بخل نظر آتا ہے۔ اس مزاجی کیفیت کی جھلک کبھی مال و دولت میں دکھائی دیتی ہے، کبھی
علم و فن میں اس کا رنگ ظاہر ہوتا ہے اور کبھی
اخلاق و عادات اور رویے میں اس کی آہنگ سنی جاتی ہے۔
ایک مقولہ
ہے کہ سخی شخص کے دشمن بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں جبکہ بخیل کی اولاد بھی اس سے
بغض رکھتی ہے۔ بخل نہایت بری عادت ہے۔ یہ کم عقلی کی علامت ہے۔ بخیل انسان اللہ کے
ہاں ناپسندیدہ شخص ہے۔ یہ ایک ایسی بد خصلت ہے جو انسان کی زندگی کے کسی ایک پہلو ہی
پر اثر نہیں ڈالتی بلکہ اس کی سوچ اور عمل دونوں پر حاوی ہو جاتی ہے۔ بخل انسان کو
اس طرح جکڑ لیتا ہے کہ وہ تمام عمر اس کے اثر سے نہیں نکل پاتا۔ بخل انسانی صفات میں
کمی اور حیوانی صفات کے غالب آجانے کی دلیل ہے۔ جب وہ مال کا بندہ بن جاتا ہے تو نہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی رہتا ہے اور نہ مخلوق۔
بخل کے بارے میں تنبیہ:بخل ایک نہایت ہی قبیح اور مذموم فعل ہے،
نیز بخل بسا اوقات دیگر کئی گناہوں کا بھی سبب بن جاتا ہے اس لیے ہر مسلمان کو اس سے
بچنا لازم ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۳۰)
بخیل شخص
کے اخلاق، معاملات اور رویے میں بھی تنگی کا ہی مظاہرہ ہوتا ہے۔ وہ شفقت، ہمدردی، احسان،
رواداری،حُسنِ سلوک جیسے اوصاف سے عاری دکھائی دیتا ہے۔ دوسروں کو پھلتا پھولتا، خوش
حال اور مسکراتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا۔ اس کی ذات سے دوسروں کو زحمت ہی ملتی ہے۔ اسے پھول سے الجھن ہوتی ہے، وہ راستوں
میں کانٹے ڈالنے کا ہی کام کرتا ہے۔ اللہ تبارک
و تعالیٰ نے اس رویے پر ہلاکت کی وعید سنائی ہے۔ارشادِ ربانی ہے: ’’ پھر تباہی ہے ان
نمازیوں کے لئے جو اپنی نمازوں میں غافل رہتے ہیں اور جو دکھاوا کرتے ہیں اور چھوٹی
چھوٹی معمولی چیزوں کو مانگنے پر نہیں دیتے۔ (الماعون: ۴ - ۷)
بخل کی مذمت پر 5 احادیثِ مبارکہ:
(1)
رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک نے اس بات پر قسم یادفرمائی ہے کہ جنت ميں کوئی
بخیل داخل نہ ہو گا۔ (کنزالعمال،کتاب الاخلاق،قسم الاقوال،جزء ۳،۲/۱۸۱،حدیث:۷۳۸۲)
(2)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد
فرمایا کہ’’جس کو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مال دیا اور اس نے زکوٰۃ ادا نہ کی، روز قیامت
وہ مال سانپ بن کر اس کو طوق کی طرح لپٹے گااور یہ کہہ کر ڈستا جائے گا کہ میں تیرا
مال ہوں ، میں تیرا خزانہ ہوں۔ ( بخاری، کتاب الزکاۃ، باب اثم مانع الزکاۃ، ۱ / ۴۷۴ ، الحدیث : ۱۴۰۳)
(3)خاتم
النبیین رحمتہ اللعالمین حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے ارشاد فرمایا کہ دو بھوکے بھیڑیے
بکریوں کے ریوڑ میں گھس کر اتنا نقصان نہیں کرتے جتنی مال و جاہ کی چاہت انسان کا دین
برباد کر دیتی ہے۔ (ترمذی)
(4)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے ، حضور پر نور ﷺ نے ارشاد
فرمایا ’’بخل جہنم میں ایک درخت ہے، جو بخیل ہے اُس نے اس کی ٹہنی پکڑ لی ہے، وہ ٹہنی
اُسے جہنم میں داخل کیے بغیر نہ چھوڑے گی۔ ( شعب الایمان، الرابع و السبعون من شعب
الایمان، ۷ / ۴۳۵ ، الحدیث : ۱۰۸۷۷)
(5)
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ بندوں پر کوئی صبح نہیں آتی مگر اس میں دو فرشتے
نازل ہوتے ہیں، ان میں سے ایک کہتا ہے کہ اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدل عطا
فرما اور دوسرا کہتا ہے اے اللہ! بخل کرنے والے کو تباہی عطا کر۔ (صحیح بخاری1356)
بخل کا
علاج یوں ممکن ہے کہ بخل کے اسباب پر غور کر کے انہیں دور کرنے کی کوشش کرے ،جیسے بخل
کا بہت بڑا سبب مال کی محبت ہے ، مال سے محبت نفسانی خواہش اور لمبی عمر تک زندہ رہنے
کی امید کی وجہ سے ہوتی ہے، اسے قناعت اور صبر کے ذریعے اور بکثر ت موت کی یادا ور
دنیا سے جانے والوں کے حالات پر غور کر کے دور کرے ۔ یونہی بخل کی مذمت اور سخاوت کی
فضیلت، حُبّ مال کی آفات پر مشتمل اَحادیث و روایات اور حکایات کا مطالعہ کر کے غورو
فکر کرنا بھی اس مُہلِک مرض سے نجات حاصل کرنے میں ممد و معاون ثابت ہو گا ۔
سخاوت
اور بخل دو دریا ہیں جو ایک دوسرے کے متوازی بہتے ہیں۔ سخاوت کا دریا اگرچہ ٹھنڈے اور
شریں پانی کا ہے لیکن اس کے اندر اور کناروں پر بہت ہی کم لوگ نظر آتے ہیں۔ یہ خوش
بخت لوگ ہیں۔ اس کے برعکس بخل کے دریا کا پانی کھارا اور بدذائقہ ہے لیکن اس کے اندر
اور کناروں پر لوگوں کا جمِ غفیر ہے۔ یہ مادہ پرست بدبخت لوگ ہیں۔ حاصل بحث یہ کہ بخل
(کنجوسی) کی راہ اختیار نہ کی جائے اور دل کھول کر اللہ پاک کی بارگاہ میں مال خرچ کیا جائے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے جو دعائیں مانگی ہیں، ان میں سے
ایک یہ بھی ہے کہ ’’ اے اللہ مجھے بخیل ہونے سے بچا۔‘‘ (صحیح بخاری)
اللہ تعالیٰ
ہمیں شیطان کے شر اور نفس کی چالبازیوں سے اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین
بخل کے
لغوی معنیٰ کنجوسی کے ہیں اور جہاں خرچ کرنا
شرعاً ، عادتاً یا مروتاً لازم ہو وہاں خرچ نہ کرنا بخل کہلاتا ہے، یا جس جگہ مال و
اسباب خرچ کرناضروری ہو وہاں خرچ نہ کرنا یہ بھی بخل ہے۔ ( باطنی بیماریوں کی معلومات ، ص۱۲۸ )
بخل کی مذمت پر 5 احادیثِ مبارکہ:
1۔اس
امت کے پہلے لوگ یقین اور زہد کے ذريعے نجات پائيں گے جب کہ آخری لوگ بخل اور خواہشات
کے سبب ہلاکت میں مبتلا ہوں گے ۔ (فردوس الاخبار ،۲/۳۷۴ ،
حدیث:۷۱۰۶ )
2۔اللہ پاک نے اس بات پر قسم یاد فرمائی ہے
کہ جنت ميں کوئی بخیل داخل نہ ہو گا ( کنزالعمال
، کتاب الاخلاق ، قسم الاقوال ، جزء ۳ ، ۲/۱۸۱ ، حدیث :۷۳۸۲ )
3۔حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے
ہیں کہ ایک بار میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا ،
حضور ﷺ ، بیت اللہ شریف کی دیوار کے سایہ میں تشریف فرما تھے ، مجھے دیکھ کر حضور انور
صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : رب کعبہ کی قسم وہ لوگ بڑے خسارے میں ہیں ، میں
نے عرض کی ، میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ، کون لوگ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جن کے پاس مال
زیادہ ہو ، مگر وہ لوگ ( خسارے میں نہیں ہیں )جو اس طرح ( خرچ )کریں اپنے دائیں سے
، اپنے بائیں سے ، آگے سے ، پیچھے سے ، لیکن ایسے افراد ہیں بہت کم ۔ ( صحیح بخاری
، صحیح مسلم ، مشکوٰۃ )
4۔خلیفہ
ء رسول ﷺ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا جنت میں نہ تو دھوکہ باز داخل ہو گا ، نہ بخیل
اورنہ صدقہ کر کے احسان جتانے والا ۔ ترمذی
5۔حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی
ہے سخی انسان اللہ تعالیٰ سے قریب ہے ، جنت سے قریب ہے ، انسانوں سے قریب ہے ، ( جب
کہ )جہنم سے دور ہے اور بخیل انسان اللہ کریم سے دور ہے ، جنت سے دور ہے ، انسانوں
سے دور ہے اور جہنم سے قریب ہے ، بے شک جاہل سخی اللہ کے نزدیک عابد بخیل سے زیادہ
محبوب ہے ۔ سنن ترمذی
بخل
کے لغوی معنیٰ کنجوسی، تنگدلی، جائز ضروریات
پر خرچ کرنے سے گریز کرنا، لالچ، طمع و حرص بھی اسی معنیٰ میں آتا ہے۔
بخل کی تعریف: جہاں خرچ کرنا شرعاً، عادتاً اور مروتاً لازم ہو، وہاں خرچ نہ کرنا
بخل کہلاتا ہے یا جس جگہ مال و اسباب خرچ کرنا ضروری ہو، وہاں خرچ نہ کرنا یہ بھی
بخل کہلاتا ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات، صفحہ 128، مکتبہ العلمیہ)
بخل کی
مذمت میں اللہ کریم نے قران کریم میں ارشاد فرمایا ہے:
آیات
قرآنیہ: اَلشَّيْطٰنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَ
يَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَآءِ١ۚ ترجمہ کنزالایمان:شیطان تمہیں محتاجی کا اندیشہ
دلاتا ہے اور وہ تمہیں برائی کا حکم دیتا ہے۔(پ3، البقرہ:286)
آئیے
بخل کی مذمت پر پانچ فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ملاحظہ فرمائیے اور بخل جیسی
عادت سے بچنے کی کوشش کی جائے۔
1۔حضور
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:بخل سے بچو، کیونکہ اسی نے تم
سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا، ان کو ایک دوسرے کا خون بہانے اور حرام چیزوں کو حلال
ٹھہرانے پر ابھارا ہے۔(صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب التحریم الظلم، ح2576)
2۔حضرت
محمد مصطفی، امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک نے بخل کو اپنے
غضب سے پیدا کیا اور اس کی جڑ کو زقوم(یعنی جہنم کے ایک درخت) کی جڑ میں راسخ کیا
اور اس کی بعض شاخیں زمین کی طرف جھکا دیں، تو جو شخص بخل کی کسی ٹہنی کو پکڑ لیتا
ہے تو اللہ کریم اسے جہنم میں داخل فرما دیتا ہے، سن لو! بے شک بخل ناشکری ہے اور
ناشکری جہنم میں ہے۔( کتاب البخلاء وصف الرسول صلی اللہ علیہ وسلم سخا وبخل،صفحہ
48، حدیث نمبر 17)
3۔حضرت
سیدنا عیسی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:بخیل، مکار، خیانت کرنے والا اور بد اخلاق
جنت میں نہیں جائیں گے۔(لباب الاحیاء، بخل اور حب مال کی مذمت،صفحہ 266، باب27)
4۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اولاد بخل، بزدلی اور جہالت میں مبتلا
کرنے والی ہے۔(سنن ابی ماجہ، ابواب الادب، باب برالوالد والاحسان، ح3666)
5۔نبی
مکرم، شاہِ بنی آدم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:زیادہ مال والے ہلاک ہوگئے،
سوائے اس کے جو اللہ کے بندوں میں کثرت سے اپنا مال خرچ کرے اور وہ تھوڑے ہیں۔(المسندامام
احمد بن حنبل، مسند ابی ھریرہ، جلد 3، ح8091)
خلاصہ کلام: بخل مال کی محبت سے پیدا ہوتا ہے، لہٰذا بخل سے
بچنے کے لئے سخاوت کرے، اپنے مال کو آخرت کے لئے لگا دے کہ جہاں مال ہوتا ہے، وہی
انسان کا دل ہوتا ہے، جو اللہ کی راہ میں مال خرچ کرے گا، تو آخرت کی طرف فکر لگ
جائے گی اور دنیا ومال کی محبت دل سے نکل جائے گی اور اسی طرح بخل کی بری عادت سے نجات
مل جائے گی۔
بخل کی تعریف: بخل کے لغوی معنیٰ کنجوسی کے ہیں اور جہاں خرچ کرنا شرعاً،عادتاً یاہو
مروّتاً لازم وہاں خرچ نہ کرنا بُخْل کہلاتا ہے، یا جس جگہ مال و اسباب خرچ کرناضروری
ہو وہاں خرچ نہ کرنا یہ بھی بُخْل ہے۔ (حرص، ص۴۲ملتقطاً) (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۲۸)
اللہ قرآن
پاک میں ارشاد فرماتاہے:وَ لَا
يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ هُوَ
خَيْرًا لَّهُمْ١ؕ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ١ؕ سَيُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ
يَوْمَ الْقِيٰمَةِ١ؕ وَ لِلّٰهِ مِيْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ
خَبِيْرٌ
(پ۴، آل عمران: ۱۸۰)
ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے
دی ہرگز اسے اپنے لئے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لئے برا ہے عنقریب وہ جس میں بخل
کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہو گا اور اللہ ہی وارث ہے آسمانوں اور زمین
کا اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔‘‘
صدر الافاضل
حضرتِ علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی’’خزائن العرفان‘‘ میں اس آیت
مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : ’’بخل کے معنٰی میں اکثر علماء اس طرف گئے ہیں کہ واجب
کا ادا نہ کرنا بخل ہے اسی لئے بخل پر شدید وعیدیں آئی ہیں چنانچہ اس آیت میں بھی
ایک وعید آرہی ہے ترمذی کی حدیث میں ہے بخل اور بدخلقی
یہ دو خصلتیں ایماندار میں جمع نہیں ہوتیں۔ اکثر مُفَسِّرِین نے فرمایا کہ یہاں
بخل سے زکوٰۃ کا نہ دینا مراد ہے۔‘‘ مزید فرماتے ہیں : ’’بخاری شریف کی حدیث میں ہے
کہ جس کو اللہ نے مال دیا اور اس نے زکوٰۃ ادا نہ کی روز قیامت وہ مال سانپ بن کر اُس
کو طوق کی طرح لپٹے گااور یہ کہہ کر ڈستا جائے گا کہ میں تیرا مال ہوں میں تیرا خزانہ
ہوں۔‘‘(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۲۸،۱۲۹)
بخل ہلاکت کا سبب ہے: حضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن عمرو رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ سرکار مدينہ، راحت قلب و سينہ صَلَّی اللہُ تَعَا
لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے
پہلی قوميں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئيں ، لالچ نے انہيں بُخْل پر آمادہ کيا تو وہ بُخْل
کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خيال دلايا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم
ديا تو وہ گناہ ميں پڑ گئے۔‘‘ (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۲۹،۱۳۰)
بخل کے بارے میں تنبیہ: بخل ایک نہایت ہی قبیح اور مذموم فعل ہے،
نیز بخل بسا اوقات دیگر کئی گناہوں کا بھی سبب بن جاتا ہے اس لیے ہر مسلمان کو اس سے
بچنا لازم ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۳۰)
بخل کےپانچ اسبا ب اور ان کا علاج :
1۔ بخل
کاپہلا سبب تنگ دستی کاخوف ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اس بات کو ہمیشہ ذہن میں رکھے
کہ راہ خدا میں مال خرچ کرنے سے کمی نہیں آتی بلکہ اِضافہ ہوتا ہے۔
2۔بخل
کا دوسرا سبب مال سے محبت ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ قبر کی تنہائی کو یاد کرے کہ
میرا یہ مال قبر میں میرے کسی کا م نہ آئے گابلکہ میرے مرنے کے بعد ورثاء اسے بے دردی
سے تصرف میں لائیں گے۔
3۔بخل
کا تیسرا سبب نفسانی خواہشات کا غلبہ ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ خواہشات نفسانی کے
نقصانات اور اُس کے اُخروی انجام کا باربار مطالعہ کرے۔ اس سلسلے میں امیر اہل سنت
کارسالہ’’ گناہوں کا علاج ‘‘پڑھنا حد درجہ مفیدہے۔
4۔بخل
کا چوتھا سبب بچوں کے روشن مستقبل کی خواہش ہے۔اس کا علاج یہ ہےکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ
پر بھروسہ رکھنے میں اپنے اعتقاد ویقین کو مزید پختہ کرے کہ جس ربّ عَزَّ وَجَلَّ نے
میرا مستقبل بہتر بنایا ہے وہی ربّ عَزَّ وَجَلَّ میرے بچوں کے مستقبل کو بھی بہتر
بنانے پر قادر ہے۔
5۔بخل
کا پانچواں سبب آخرت کے معاملے میں غفلت ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اس بات پر غور
کرے کہ مرنے کے بعد جو مال ودولت میں نے راہِ خدا میں خرچ کی وہ مجھے نفع دے سکتی ہے،لہٰذا
اس فانی مال سے نفع اٹھانے کے لیے اسے نیکی کے کاموں میں خرچ کرنا ہی عقل مندی ہے۔ (احیاء العلوم،ج۳،ص۷۸۴ تا۷۸۷ملتقطا) (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۳۱،۱۳۲)
بخل کی مذمت پر 2 احادیثِ مبارکہ
آئیے!بخل
کی مذمّت پر 2 احادیثِ مُبارَکہ سنئے اور اس باطنی بیماری سے بچنے کی کوشش کیجئے
، چنانچہ
(1)پیارے
آقاﷺ نے فرمایا :اس اُمت کے پہلے لوگ یقین اور زُہد کے ذريعے نجات پائيں گے جبکہ آخری
لوگ بخل اور خواہشات کے سبب ہلاکت میں مبتلا ہوں گے۔(فردوس الاخبار،۲/۳۷۴ ،حدیث:۷۱۰۶)
(2)
پیارے
آقاﷺ نے فرمایا:اللہ پاک نے اس بات پر قسم
یادفرمائی ہے کہ جنت ميں کوئی بخیل داخل نہ ہو گا۔(کنزالعمال،کتاب الاخلاق،قسم الاقوال،جزء
۳،۲/۱۸۱،حدیث:۷۳۸۲)
معزز قارئین!سُنا
آپ نے کہ بخل کی کس قدر تباہ کاریاں ہیں ،کیا
یہ ہلاکت کم ہے کہ اللہ پاک نے اس بات پر قسم ذِکر فرمائی ہے کہ جنت میں کوئی کنجوس شخص داخل
نہ ہو گا۔کیا اب بھی ہم بخل جیسی نحوست سے
نہیں بچیں گے؟کیا اب بھی ہم کنجوسی سے کام
لیں گے؟کیا اب بھی بخل کے ذریعے اپنی ہلاکت کے اسباب خود ہی پیدا کریں گے؟ کیا اب بھی
صدقہ و خیرات سے جی چُرائیں گے ؟یاد رکھئے! بخیل شخص لوگوں کی نظروں میں حقیر بن جاتا ہے اور معاشرے) (Societyمیں اسے عزّت کی
نگاہ سے نہیں دیکھا جاتااور ایسا کنجوس شخص ابلیس لعین کو بہت پسند ہے۔ چنانچہ
حضرتِ
یحییٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے ابلیس سے پوچھا:تجھے
کونسا آدمی پسنداور کونسا ناپسند ہے؟ ابلیس نے کہا:مجھے مومن بخیل پسند ہے مگر گنہگار
سخی پسند نہیں ؟ آپ عَلَیْہِ الصلوٰۃو السَّلَام نے پوچھا: وہ کیوں؟ ابلیس نے کہا:اس لئے کہ بخیل(کنجوس)
کو تو اس کا بخل ہی لے ڈُوبے گا مگر فاسق سخی کے متعلق مجھے یہ خطرہ ہے کہ کہیں اللہ تَعَالی اس کے گناہوں کو اس کی سخاوت کے باعث معاف نہ فرمادے۔ پھر ابلیس
جاتے ہوئے کہتا گیا کہ اگر آپ پیغمبر نہ ہوتے تو میں(راز کی یہ باتیں )کبھی نہ بتلاتا۔ (مکاشفۃ
القلوب ،ص ۱۸۱)
معزز قارئین!
سُنا آپ نے کہ بخیل (کنجوس)شخص شیطان کو بہت
پسند ہے کہ ایسے شخص پر ابلیس کو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی بلکہ اس شخص کا بخل ہی اسے لے ڈُوبتا ہے ۔ کنجوسی کئی دِینی اور
دُنیوی نقصانات کا سبب بنتی ہے۔
بخل کے دِینی نقصانات: آئیے!کنجوسی کے چند دِینی نُقصانات سُنئے اور اس عادتِ بَد سے چُھٹکارا
پانے کی نِیَّت بھی کیجئے ،چُنانچہ
(1)بخل(یعنی کنجوسی ) کرنے والاکبھی کامل مومن
نہیں بن سکتا بلکہ کبھی بخل ایمان سے بھی روک
دیتا ہے اور انسان کو کُفر کی طرف لے جاتا ہے ،جیسے قارون کو اس کے بُخل نے اسلام قبول
کرنے سے روک دیا۔(2) بخل کرنے والا گویا کہ
اس درخت کی شاخ پکڑ رہا ہے جو اسے جہنم کی آگ میں داخل کر کے ہی چھوڑے گی۔(3)بخل کی وجہ سے جنّت میں داخل ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔ (4)بخل کرنے والا
مال خرچ کرنے کے ثواب سے محروم ہوجاتا اور نہ خرچ کرنے کے وبال میں مبتلا ہو جاتا ہے۔(5)بخل کرنے والا حرص جیسی خطرناک
باطنی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے اور اُس پر مال جمع کرنے کی دُھن سوار ہو جاتی ہے
اورا س کیلئے وہ جائز ناجائز تک کی پروا کرنا چھوڑ دیتا ہےاور اس کے علاوہ بھی بہت
سے دِینی نقصانات ہیں۔(صراط الجنان ،۹/۳۳۳)
بخل کے دُنیوی نقصانات : آئیے!اب اِس بخل
کی وجہ سے ہونے والے دُنیوی نقصانات کے متعلق
سُنتے ہیں۔
(1)بخل(یعنی
کنجوسی)آدمی کی سب سے بدتر(بُری)خامی ہے۔(2)بخل ملامت اور رُسوائی کا ذریعہ ہے۔ (3)بخل(کنجوسی)
خونریزی(قتل و غارت) اور فساد کی جڑ اور ہلاکت وبربادی کا سبب ہے۔ (4)بخل (کنجوسی)ظلم
کرنے پر اُبھارتا ہے۔(5)بخل کرنے سے رشتہ داریاں ٹُوٹتی ہیں ۔(6) بخل کرنے کی وجہ سے آدمی مال کی برکت سےمحروم ہوجاتا ہے۔(صراط الجنان ،۹/۳۳۳)
صَلُّوْا
عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
بُخْل
سے بچئے!بعض نادان دنیاوی مال و دولت کے اتنے حریص ہوتے ہیں کہ راہِ خدا میں صدقہ و خیرات کا نام سُنتے ہی دُور
بھاگتے ہیں اور کنجوسی کی حد پار کرتے ہوئے
اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرنا تو دُور کی بات اپنی ذات اور اپنے گھر والوں کی ضروری حاجات بھی مرے دل سے پوری کرتے ہیں،ایسے لوگوں کے
دل و دماغ پر ہر وقت دنیاوی مال و دولت جمع
کرنے کا جنون سوار رہتا ہے اور پھر یہی بخل و حرص آہستہ آہستہ انہیں سرکش اور یادِ خُداوندی سے غافِل کردیتی ہے ۔قرآنِ
پاک میں مالداروں اور صاحبِ ثروت لوگوں کو
راہِ خدا میں خرچ کرنے اور بُخْل سے بچنے کی ترغیب دلائی گئی ہے ،چنانچہ پارہ 26
سورۂ محمد آیت نمبر 38 میں ارشادِ باری تعالیٰ
ہے:
هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ١ۚ
فَمِنْكُمْ مَّنْ يَّبْخَلُ١ۚ وَ مَنْ يَّبْخَلْ فَاِنَّمَا يَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِهٖ١ؕ
وَ اللّٰهُ الْغَنِيُّ وَ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ١ۚ وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا
يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ١ۙ ثُمَّ لَا يَكُوْنُوْۤا اَمْثَالَكُمْ (پ۲۶، محمد:۳۸) ترجمۂ کنزالایمان:ہاں ہاں یہ جو تم ہو
بلائے جاتے ہو کہ اللہ کی راہ میں خَرْچ کرو
تو تم میں کوئی بخل کرتا ہے اور جو بخل کرے وہ اپنی ہی جان پر بخل کرتا ہے اوراللہ بے نیاز ہے اور تم سب محتاج اور اگر تم منہ پھیرو
تو وہ تمہارے سِوا اور لوگ بدل لے گا پھر وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔
صَلُّوْا
عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
انسان کی ہلاکت: معزز قارئین!جو
لوگ کنجوسی سے کام لیتے ہوئے راہِ خُدا میں
مال خرچ کرنے کے بجائے جمع کرنے میں لگے رہتے ہیں وہ دنیاوی نقصانات کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی خسارہ اُٹھائیں گے ۔
اللہ عزوجل
ہمیں بخل جیسی باطنی بیماری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
حضرت یحیٰی
ابن ذکریا علیٰ نبینا و علیہما السلام نے شیطان کو دیکھا اور اس سے معلوم فرمایا تیرا
بڑا دشمن کون ہے؟اور طرح سب سے بڑھ کر دوست کون ہے؟ اس نے جواب دیا : زاہد کنجوس و
بخیل میرا سب سے بڑھ کر دوست ہے کیونکہ وہ مشقت و محنت اٹھاتا ہے اور بندگی بجا لاتا
ہے لیکن اس کا بخل اس کی عبادت کو تباہ کر دیتا ہے اور ناچیز بنا دیتا ہے اور فاسق
سخی میرا سب سے بڑا دشمن ہے کیونکہ وہ اچھا کھاتا ہے اور اچھا پہنتا ہے اور اچھے طریقے
سے زندگی گزارتا ہے مجھے خطرہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی سخاوت کی وجہ سے اس پر رحم فرمائے اور اسے
توبہ کی توفیق عنایت فرما دے۔
پیاری
اسلامی بہنو! کون بخیل ہے اور کون سخی؟اس کا علم ہونا ضروری ہے کیونکہ ایک آدمی خود
کو سخی تصور کرتا ہو لیکن یہ بہت ممکن ہے ۔دوسرے لوگ اسے بخیل جانتے ہوں لہذا اس بخل
کی حقیقت کو سمجھنا اور جاننا چاہیے تاکہ لوگ اس بڑے اور عظیم مرض کو سمجھ سکیں۔
یہ جاننا
ضروری ہے کہ دنیا میں ایسا کوئی آدمی نہیں ہے کہ جو کچھ بھی اس سے مانگا جائے وہ دے
دے تو اگر نہ دے تو اس سبب سے اسے بخیل سمجھا جاتا ہے تو پھر تو دنیا کے سب لوگ ہی بخیل ہوں گے حالانکہ ایسا قطعاً نہیں۔اکثر
لوگوں کا یہ خیال ہے اور اس بات پر متفق ہیں کہ جو آدمی وہ شے جو شرعاً واجب ہوتی ہے
وہ نہ دے اور اگر دے لیکن بغیر تقاضے کے نہ دے تو وہ بھی بخیل ہے ۔
اس معاملے
میں علمائے کرام
نے بخل کی مختلف تعریفات ذکر فرمائی ہیں:
بخل کی تعریف:بخل کے لغوی معنٰی
کنجوسی کے ہیں ۔
اصطلاحی
معنیٰ: جہاں خرچ کرنا شرعاً،عادتاً یا مروّتاً لازم ہو وہاں خرچ نہ کرنا بُخل کہلاتا
ہے یا جس جگہ مال و اسباب خرچ کرنا ضروری ہو وہاں خرچ نہ کرنا یہ بھی بخل ہے۔(بحوالہ
الحدیقۃ الندیۃ،الخلق السابع والعشرون ۔۔۔۔۔الخ،ج 2،ص 27،مفردات الفاظ القران109)
بعض علماء
نے بخل کی تعریف یہ بیان فرمائی:بخل یہ ہے کہ انسان حاجت وضرورت
کے مقام پر بھی موجودہ چیز کو استعمال نہ کرے،چاہے وہ چیز مال ہو،یا علمِ دین،یا کچھ
اور مثلاً اپنی ضرورت سے زیادہ مال موجود ہے لیکن اس کے باوجود کسی ضرورت مند کو نہ
دینا یا حالتِ بیماری وغیرہ میں اپنی یا اپنے گھر والوں کی ذات پر مال کی محبت کی بناء
پر کچھ خرچ نہ کرنا چاہے تکلیف کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو ۔
حکمت الہی
کا منشایہ ہے کہ عطا کیا جائے تو نہ دینا بخل
کی علامت ہے اور دینے کے قابل وہ شے ہے جسے دینے کا شریعت میں مروت حکم ہے شرعی واجبات
تو معلوم اور متعین ہیں لیکن مروت کے واجبات اور اس کے تقاضے لوگوں کے احوال اور مقدار
بخل کے لحاظ سے متفادت ہیں،کیونکہ بہت سی نیکیاں ایسی ہیں جو عادتاً تو انگر کے ساتھ
بھری ہیں لیکن وہی اگر کسی غریب نادار کے ساتھ کی جائیں افضل و اعلیٰ ہے بیوی بیٹے
کے ساتھ نامناسب ہیں اور دیگر لوگوں کے ساتھ مناسب ہیں اور دوستوں کے ساتھ ناروا ہیں
اور بیگانوں اور پرائے لوگوں سے نامناسب
ہیں کچھ نیکیاں مردوں کے ساتھ نا درست ہیں لیکن وہی عورت کے ساتھ صحیح ہیں اس کی توضیح
یہ ہے ۔کوئی آدمی جو مال جمع کرنا چاہے اور ایک ایسی ضرورت پیش آجائے جو مال
جمع کرنے سے زیادہ اہم ہو تو اس حالت میں مال صرف نہ کرنا بخل ہے اور جب مال جمع کرنا
یا اس کو روک رکھنا لازمی ہو تو تب اس کا صرف کرنا اسراف (فضول خرچی)ہے اور دونوں صورتیں
بری ہیں (یعنی بخل و اسراف) یا کوئی مہمان آ گیا اور اس کے ساتھ یہ عذر کرنا کہ زکوٰۃ
کا روپیہ ادا کر دیا ہے۔مہمان کی مہمان نوازی نہ کرنا،غیر مناسب اور بخل کی نشانی قرار
پائے گا۔ایسے
ہی جب پڑوسی بھوکا ہے اور اس آدمی کے پاس کھانا وافر مقدار میں موجود ہے تو ہمسائے
کو کھانا نہ کھلانا ہے۔
مذمتِ بخل:اگر قرآنِ کریم
اور احادیثِ مبارکہ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو بہت سے مقامات
پر بخل کی قباحت کومختلف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا
ہے:وَ لَا
يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ هُوَ
خَيْرًا لَّهُمْ١ؕ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ١ؕ سَيُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ
يَوْمَ الْقِيٰمَةِ١ؕ وَ لِلّٰهِ مِيْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ
خَبِيْرٌ ترجمہ کنزالایمان: اور جو بخل کرتے ہیں
اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ہرگز اسے اپنے لئے اچھا نہ سمجھیں بلکہ
وہ ان کے لئے برا ہے عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہو
گااور اللہ ہی وارث ہے آسمانوں اور زمین کا اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔
صدرالافاضل
حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الھادی خزائن العرفان
میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں :بخل کے معنیٰ ٰ میں اکثر علماء اس طرف گئے ہیں
کہ واجب کا ادا نہ کرنا بخل ہے اسی لئے بخل پر شدید وعیدیں آئی ہیں چنانچہ اس آیت میں
بھی ایک وعید آ رہی ہے ترمذی کی حدیث میں ہے ۔
نبی کریم
ﷺ کا فرمانِ عبرت نشان ہے:ایک ایماندار میں دو خصلتیں جمع
نہیں ہوتیں کہ وہ بخیل اور بد اخلاق ہو۔ (ترمذی شریف)
1۔ حضرت
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئیں ،لالچ نے انہیں
بُخل پر آمادہ کیا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خیال دلایا تو انہوں نے قطع
رحمی کی اور جب گناہ کا حکم دیا تو وہ گناہ میں پڑ گئے۔
2۔ نبی
پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا:سخی آدمی،اللہ تعالیٰ کے قریب ہے لوگوں سے قریب ہے،جنت سے قریب
ہےاور دوزخ سے دورہے بخیل آدمی،اللہ تعالیٰ سے دور ہے،لوگوں سے دور ہے،جنت سے دور ہے
اور دوزخ سے قریب ہے۔ (ترمذی شریف)
3۔ نبی
پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ کے ایسے بندے بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے
بندے کے فائدے کی خاطر انعامات عطا فرماتا ہے جس نے ان انعامات میں بندوں پر بخل سے
کام لیا اللہ تعالیٰ ان انعامات کو بدل کر یعنی اس سے چھین کر دوسرے کو عطا فرما دے
گا (حلیۃ الاولیاء)
4۔پیارے
آقا ﷺنے خبردارفرمایا کہ :سخاوت جنت میں ایک درخت ہے جو سخی ہوا اس نے اس درخت کی شاخ
پکڑ لی وہ شاخ اسے نہ چھوڑے گی حتیٰ کہ اسے جنت میں داخل کر دے اور بخل آگ میں ایک
درخت ہے جو بخیل ہوا اس نے اس کی شاخ پکڑی وہ اسے نہ چھوڑے گی حتی کہ آگ میں داخل کر
دے گی (کنزالعمال )
مذکورہ
آیت و احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ بخل بروزِ قیامت ذلت و رسوائی،عذابِ الہی میں
گرفتاری، جنت سے محرومی،کمینے پن اور دوزخ میں دخول کا سبب ہے۔
بخل کس
طرح اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے محرومی کا سب بنتا ہے اس کا اندازہ اس روایت سے لگا ئیےکہ: ایک مرتبہ ایک غریب آدمی،ایک بخیل مال دار آدمی کے
پاس اپنی حاجت لے کر آیا اور عرض کی کہ،مانگنے سے تو مجھے خود نفرت ہے مگر کیا کروں
کہ بچوں پر تین فاقے گزر گئے ہیں ،مجبور ہو کر آپ کے دروازےپر آیا ہوں خدا عزوجل کے
لئے میری مدد فرمائیے،آپ کی مدد سے چار آدمیوں کی جانیں بچ جائیں گی۔
مگر اس
کنجوس نے بجائے مدد کرنے کے اس غریب کو دھکے دے کر نکال دیا۔کچھ ہی
عرصہ بعد وہ مال درا زمانے کی گردش میں آ گیا اور بالکل کنگال ہو گیا اور اس کے تمام
نوکر چاکر بھی دوسروں کے ہاں ملازم ہو گئے۔اس کا ایک نوکر ایک بہت ہی سخی آدمی کے پاس
جا کر ملازم ہو گیا۔وہ سخی دل کھول کر فقیروں اور غریبوں کی مدد کرتا اور ان کی حاجات
پوری کیا کرتا تھا۔ایک رات جب سخت سردی تھی اور موسلادھار بارش ہو رہی تھی لوگ اپنے
گرم گرم بستروں میں دبکے ہوئے تھے حاجت مند
نے دستک دی ۔اگرچہ سخت سردی تھی لیکن پھر بھی سخی نے اس فقیر کو ٹھہرنے کے لئے کہا
اور نوکر کو آواز دی کہ اس شخص کو فوراً کھانا کھلائے۔ نوکر
نے حکم پورا کیا لیکن جب واپس آیا تو زاروقطار رورہا تھا۔سخی نے سبب پوچھا تو اس نے
بتایا کہ باہر جو شخص ہے وہ پہلے میرا مالک تھا دو تین برس پہلے اس کے دروازے پر گھوڑے
ہنہناتے تھے اور اندر باہر روپوں کی چہل پہل تھی آج اس کا یہ حال دیکھ کر میرا دل بھر
آیا ۔سخی نے کہا کہاچھا میں بھی تو دیکھوں کہ کون ہے؟ سخی گھر سے باہر سے نکلاتو اس
فقیر کو پہچان کر بے اختیار پکار اُٹھا،اے فقیر!ذرا غور سے مجھے دیکھ میں وہی غریب
آدمی ہوں کہ ایک بار تیرے پاس آیا تھا جبکہ تین وقت کے فاقے سے تھا اور تو نے مجھے
دھکے دے کر نکال دیا تھا ۔ بوڑھا فقیر اسے پہچان کر رو دیا اور بولا کہ ہاں ! میں وہی
بد نصیب ہوں میں نے اللہ تعالیٰ کے غضب کی پروا نہ کی ،چنانچہ اس حال کو پہنچا۔ (حکایتِ سعدی)
بخل کےپانچ اسبا ب اور ان کا علاج :
1۔بخل
کاپہلا سبب تنگ دستی کاخوف ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اس بات کو ہمیشہ ذہن میں رکھے
کہ راہ خدا میں مال خرچ کرنے سے کمی نہیں آتی بلکہ اِضافہ ہوتا ہے۔
2۔بخل
کا دوسرا سبب مال سے محبت ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ قبر کی تنہائی کو یاد کرے کہ
میرا یہ مال قبر میں میرے کسی کا م نہ آئے گابلکہ میرے مرنے کے بعد ورثاء اسے بے دردی
سے تصرف میں لائیں گے۔
3۔بخل
کا تیسرا سبب نفسانی خواہشات کا غلبہ ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ خواہشات نفسانی کے
نقصانات اور اُس کے اُخروی انجام کا باربار مطالعہ کرے۔ اس سلسلے میں امیر اہل سنت
کارسالہ’’ گناہوں کا علاج ‘‘پڑھنا حد درجہ مفیدہے۔
4۔بخل
کا چوتھا سبب بچوں کے روشن مستقبل کی خواہش ہے۔اس کا علاج یہ ہےکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ
پر بھروسہ رکھنے میں اپنے اعتقاد ویقین کو مزید پختہ کرے کہ جس ربّ عَزَّ وَجَلَّ نے
میرا مستقبل بہتر بنایا ہے وہی ربّ عَزَّ وَجَلَّ میرے بچوں کے مستقبل کو بھی بہتر
بنانے پر قادر ہے۔
5۔بخل
کا پانچواں سبب آخرت کے معاملے میں غفلت ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اس بات پر غور
کرے کہ مرنے کے بعد جو مال ودولت میں نے راہِ خدا میں خرچ کی وہ مجھے نفع دے سکتی ہے،لہٰذا
اس فانی مال سے نفع اٹھانے کے لیے اسے نیکی کے کاموں میں خرچ کرنا ہی عقل مندی ہے۔(باطنی
بیماریوں کی معلومات، صفحہ۱۳۱،۱۳۲)
ترجمہ کنزالایمان:عنقریب
وہ جس میں بخل کیا تھا، قیامت کے دن اُن کے گلے طوق ہوگا۔
بخل کی تعریف: بخل کی
تعریف یہ ہے کہ جہاں شرعاً یا عرف و عادت کے اعتبار سے خرچ کرنا واجب ہو، وہاں خرچ
نہ کرنا بخل کہلاتا ہے، بخل کی قرآن مجید و احادیث مبارکہ میں شدید مذمت بیان کی
گئی ہے، چنانچہ یہاں بخل کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم درج ذیل
ہیں:
1۔حضور نبی
کریم صلی اللہ
علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا:اللہ
عزوجل بخیل کے
ساتھ اس کی زندگی میں نفرت کرتا ہے، اور سخی(غیر مسلم) کے ساتھ اس کی موت کے وقت
تک (البتہ مسلم سخی ہر وقت محبوبِ خدا رہتا ہے۔ (مکاشفۃ القلوب، باب25، ص203)
2۔حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بخل سے بڑھ کر کون سی
بیماری ہوسکتی ہے؟۔(حلیۃ الاولیاء الحسن البصری183/2، حدیث1865)
3۔حضرت ابو
ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مالدار بخل کرنے
کی وجہ سے بلاحساب جہنم میں داخل ہوں گے۔ (فردوس الاخبار 444/9، الحدیث 3309)
4۔حضرت ابو
ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بخل جہنم میں ایک درخت
ہے، جو بخیل ہے، اُس نے اس کی ٹہنی پکڑ لی ہے، وہ ٹہنی اسے جہنم میں داخل کئے بغیر
نہ چھوڑے گی۔ (شعب الایمان الرابع والسبعون من شعب الایمان 435/7، الحدیث 10877)
5۔حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک ایماندار آدمی
میں دو خصلتیں جمع نہیں ہوتیں، کہ وہ بخیل اور بد اخلاق ہو۔ (مکاشفۃ القلوب،
باب25، صفحہ203)
ان تمام
احادیث مبارکہ میں بخیل شخص کی مذمتیں بیان ہوئیں کہ نہ وہ جنت میں داخل ہوگا، نہ
اس سے ربّ راضی ہوگا، بلکہ بخیل بلاحساب جہنم میں داخل ہوگا اور ربّ کریم اس سے
نفرت کرتا ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ ایماندار شخص میں بخل جیسی خصلت نہیں ہوتی،
لہٰذا ایک مسلمان مؤمن کو چاہئے کہ وہ بخل جیسی بیماری سے خود کو بچاتا رہے اور
کبھی اس بیماری کے قریب بھی نہ جائے۔
بخل کا
علاج یوں بھی ممکن ہے کہ بخل کے اسباب پر غور کرکے انہیں دور کرنے کی کوشش کرے،
جیسے مال کی محبت، یونہی بخل کی مذمت اور سخاوت کی فضیلت، حُبِّ مال کی آفات پر
مشتمل احادیث و روایات اور حکایات کا مطالعہ کرکے غور وفکر کرنا بھی اس مُہلک مرض
سے نجات حاصل میں مددگار ثابت ہوگا، اللہ عزوجل ہمیں بخل جیسی بُری بیماری سے
محفوظ فرمائے اور ہمیں سخاوت فرمانے والے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی
سخاوت کا حصّہ عطا فرمائے۔آمین