تعریف: جہاں شرعاً یا
عرف و عادت کے اعتبار سے خرچ کرنا واجب ہو، وہاں خرچ نہ کرنا بخل ہے، یعنی زکوۃ،
صدقہ، فطرہ وغیرہ میں خرچ کرنا شرعاً خرچ کرنا کہلاتا ہے اور دوست احباب ، رشتہ داروں پر خرچ کرنا عرف و عادت کے اعتبار
سے خرچ کرنا کہلاتا ہے۔
مذمت: بہت سی آیات،
حدیث، روایات میں بخل کی مذمت کا ذکر آیا ہے اور شدید مذمت بیان کی گئی ہے، چنانچہ
احادیث ملاحظہ کیجئے:
1۔حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:آدمی
کی دو عادتیں بری ہیں،1بخیلی، جو رلانے
والی ہے،2بزدلی، جو ذلیل کرنے والی ہے۔( ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فی الجراة
والجبن، 3/ 18 ،حدیث: 2511)
2۔حضور
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:بخل سے بچو، کیونکہ اسی نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا، ان کو ایک
دوسرے کا خون بہانے اور حرام چیزوں کو حلال ٹھہرانے پر براَنگیختہ کیا۔(احیاء
العلوم کا خلاصہ، باب بخل اور حبِ مال کی مذمت، صفحہ 266)
3۔نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مالدار بخل کرنے کی وجہ سے بلاحساب جہنم
میں داخل ہوں گے۔(فردوس الاخبار، باب السین 1/444، ح3309)
4۔نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بخل جہنم میں ایک درخت ہے، جو بخیل ہے اس
نے اس کی ٹانگیں پکڑ لی ہیں، وہ ٹہنی اسے
جہنم میں داخل کئے بغیر نہ چھوڑے گی۔(صراط الجنان، جلد دوم، پارہ 4، آیت 180،
ص105، سورہ آل عمران)
5۔حضرت
ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بخل کرنے
والے اور خیرات کرنے والے کی مثال ان دو شخصوں کی طرح ہے، جن کے بدن پر لوہے کی زِرہیں
ہوں اور ان کے دونوں ہاتھ سینے کے ساتھ گلے سے بندھے ہوئے ہوں، جب خیرات کرنے والا
کوئی خیرات کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ زِرہ ڈھیلی ہو جاتی ہے اور بخیل جب خیرات کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی
زِرہ کا ہر حلقہ اپنی جگہ پر سخت ہو جاتا
ہے۔(صراط الجنان، جلد 8، پارہ 23، سورہ یاسین، صفحہ 262، حدیث 2)
اس
مثال کا حاصل یہ ہے کہ سخی آدمی جب خیرات کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا سینہ
کشادہ ہو جاتا ہے اور خرچ کرنے کے لئے اس کا ہاتھ کھل جاتا ہے، جبکہ بخیل شخص جب خیرات
کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا سینہ تنگ ہو جاتا ہے اور اس کے ہاتھ بندھ جاتے ہیں۔
اللہ
تعالیٰ مسلمانوں کو راہِ خدا میں خرچ کرنے اور بخل سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین