حضرت یحیٰی ابن ذکریا علیٰ نبینا و علیہما السلام نے شیطان کو دیکھا اور اس سے معلوم فرمایا تیرا بڑا دشمن کون ہے؟اور طرح سب سے بڑھ کر دوست کون ہے؟ اس نے جواب دیا : زاہد کنجوس و بخیل میرا سب سے بڑھ کر دوست ہے کیونکہ وہ مشقت و محنت اٹھاتا ہے اور بندگی بجا لاتا ہے لیکن اس کا بخل اس کی عبادت کو تباہ کر دیتا ہے اور ناچیز بنا دیتا ہے اور فاسق سخی میرا سب سے بڑا دشمن ہے کیونکہ وہ اچھا کھاتا ہے اور اچھا پہنتا ہے اور اچھے طریقے سے زندگی گزارتا ہے مجھے خطرہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی سخاوت کی وجہ سے اس پر رحم فرمائے اور اسے توبہ کی توفیق عنایت فرما دے۔

پیاری اسلامی بہنو! کون بخیل ہے اور کون سخی؟اس کا علم ہونا ضروری ہے کیونکہ ایک آدمی خود کو سخی تصور کرتا ہو لیکن یہ بہت ممکن ہے ۔دوسرے لوگ اسے بخیل جانتے ہوں لہذا اس بخل کی حقیقت کو سمجھنا اور جاننا چاہیے تاکہ لوگ اس بڑے اور عظیم مرض کو سمجھ سکیں۔

یہ جاننا ضروری ہے کہ دنیا میں ایسا کوئی آدمی نہیں ہے کہ جو کچھ بھی اس سے مانگا جائے وہ دے دے تو اگر نہ دے تو اس سبب سے اسے بخیل سمجھا جاتا ہے تو پھر تو دنیا کے سب لوگ ہی بخیل ہوں گے حالانکہ ایسا قطعاً نہیں۔اکثر لوگوں کا یہ خیال ہے اور اس بات پر متفق ہیں کہ جو آدمی وہ شے جو شرعاً واجب ہوتی ہے وہ نہ دے اور اگر دے لیکن بغیر تقاضے کے نہ دے تو وہ بھی بخیل ہے ۔

اس معاملے میں علمائے کرام نے بخل کی مختلف تعریفات ذکر فرمائی ہیں:

بخل کی تعریف:بخل کے لغوی معنٰی کنجوسی کے ہیں ۔

اصطلاحی معنیٰ: جہاں خرچ کرنا شرعاً،عادتاً یا مروّتاً لازم ہو وہاں خرچ نہ کرنا بُخل کہلاتا ہے یا جس جگہ مال و اسباب خرچ کرنا ضروری ہو وہاں خرچ نہ کرنا یہ بھی بخل ہے۔(بحوالہ الحدیقۃ الندیۃ،الخلق السابع والعشرون ۔۔۔۔۔الخ،ج 2،ص 27،مفردات الفاظ القران109)

بعض علماء نے بخل کی تعریف یہ بیان فرمائی:بخل یہ ہے کہ انسان حاجت وضرورت کے مقام پر بھی موجودہ چیز کو استعمال نہ کرے،چاہے وہ چیز مال ہو،یا علمِ دین،یا کچھ اور مثلاً اپنی ضرورت سے زیادہ مال موجود ہے لیکن اس کے باوجود کسی ضرورت مند کو نہ دینا یا حالتِ بیماری وغیرہ میں اپنی یا اپنے گھر والوں کی ذات پر مال کی محبت کی بناء پر کچھ خرچ نہ کرنا چاہے تکلیف کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو ۔

حکمت الہی کا منشایہ ہے کہ عطا کیا جائے تو نہ دینا بخل کی علامت ہے اور دینے کے قابل وہ شے ہے جسے دینے کا شریعت میں مروت حکم ہے شرعی واجبات تو معلوم اور متعین ہیں لیکن مروت کے واجبات اور اس کے تقاضے لوگوں کے احوال اور مقدار بخل کے لحاظ سے متفادت ہیں،کیونکہ بہت سی نیکیاں ایسی ہیں جو عادتاً تو انگر کے ساتھ بھری ہیں لیکن وہی اگر کسی غریب نادار کے ساتھ کی جائیں افضل و اعلیٰ ہے بیوی بیٹے کے ساتھ نامناسب ہیں اور دیگر لوگوں کے ساتھ مناسب ہیں اور دوستوں کے ساتھ ناروا ہیں اور بیگانوں اور پرائے لوگوں سے نامناسب ہیں کچھ نیکیاں مردوں کے ساتھ نا درست ہیں لیکن وہی عورت کے ساتھ صحیح ہیں اس کی توضیح یہ ہے ۔کوئی آدمی جو مال جمع کرنا چاہے اور ایک ایسی ضرورت پیش آجائے جو مال جمع کرنے سے زیادہ اہم ہو تو اس حالت میں مال صرف نہ کرنا بخل ہے اور جب مال جمع کرنا یا اس کو روک رکھنا لازمی ہو تو تب اس کا صرف کرنا اسراف (فضول خرچی)ہے اور دونوں صورتیں بری ہیں (یعنی بخل و اسراف) یا کوئی مہمان آ گیا اور اس کے ساتھ یہ عذر کرنا کہ زکوٰۃ کا روپیہ ادا کر دیا ہے۔مہمان کی مہمان نوازی نہ کرنا،غیر مناسب اور بخل کی نشانی قرار پائے گا۔ایسے ہی جب پڑوسی بھوکا ہے اور اس آدمی کے پاس کھانا وافر مقدار میں موجود ہے تو ہمسائے کو کھانا نہ کھلانا ہے۔

مذمتِ بخل:اگر قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو بہت سے مقامات پر بخل کی قباحت کومختلف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:وَ لَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ هُوَ خَيْرًا لَّهُمْ١ؕ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ١ؕ سَيُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ١ؕ وَ لِلّٰهِ مِيْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ ترجمہ کنزالایمان: اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ہرگز اسے اپنے لئے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لئے برا ہے عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہو گااور اللہ ہی وارث ہے آسمانوں اور زمین کا اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔

صدرالافاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الھادی خزائن العرفان میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں :بخل کے معنیٰ ٰ میں اکثر علماء اس طرف گئے ہیں کہ واجب کا ادا نہ کرنا بخل ہے اسی لئے بخل پر شدید وعیدیں آئی ہیں چنانچہ اس آیت میں بھی ایک وعید آ رہی ہے ترمذی کی حدیث میں ہے ۔

نبی کریم ﷺ کا فرمانِ عبرت نشان ہے:ایک ایماندار میں دو خصلتیں جمع نہیں ہوتیں کہ وہ بخیل اور بد اخلاق ہو۔ (ترمذی شریف)

1۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئیں ،لالچ نے انہیں بُخل پر آمادہ کیا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خیال دلایا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم دیا تو وہ گناہ میں پڑ گئے۔

2۔ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا:سخی آدمی،اللہ تعالیٰ کے قریب ہے لوگوں سے قریب ہے،جنت سے قریب ہےاور دوزخ سے دورہے بخیل آدمی،اللہ تعالیٰ سے دور ہے،لوگوں سے دور ہے،جنت سے دور ہے اور دوزخ سے قریب ہے۔ (ترمذی شریف)

3۔ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ کے ایسے بندے بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے بندے کے فائدے کی خاطر انعامات عطا فرماتا ہے جس نے ان انعامات میں بندوں پر بخل سے کام لیا اللہ تعالیٰ ان انعامات کو بدل کر یعنی اس سے چھین کر دوسرے کو عطا فرما دے گا (حلیۃ الاولیاء)

4۔پیارے آقا ﷺنے خبردارفرمایا کہ :سخاوت جنت میں ایک درخت ہے جو سخی ہوا اس نے اس درخت کی شاخ پکڑ لی وہ شاخ اسے نہ چھوڑے گی حتیٰ کہ اسے جنت میں داخل کر دے اور بخل آگ میں ایک درخت ہے جو بخیل ہوا اس نے اس کی شاخ پکڑی وہ اسے نہ چھوڑے گی حتی کہ آگ میں داخل کر دے گی (کنزالعمال )

مذکورہ آیت و احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ بخل بروزِ قیامت ذلت و رسوائی،عذابِ الہی میں گرفتاری، جنت سے محرومی،کمینے پن اور دوزخ میں دخول کا سبب ہے۔

بخل کس طرح اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے محرومی کا سب بنتا ہے اس کا اندازہ اس روایت سے لگا ئیےکہ: ایک مرتبہ ایک غریب آدمی،ایک بخیل مال دار آدمی کے پاس اپنی حاجت لے کر آیا اور عرض کی کہ،مانگنے سے تو مجھے خود نفرت ہے مگر کیا کروں کہ بچوں پر تین فاقے گزر گئے ہیں ،مجبور ہو کر آپ کے دروازےپر آیا ہوں خدا عزوجل کے لئے میری مدد فرمائیے،آپ کی مدد سے چار آدمیوں کی جانیں بچ جائیں گی۔

مگر اس کنجوس نے بجائے مدد کرنے کے اس غریب کو دھکے دے کر نکال دیا۔کچھ ہی عرصہ بعد وہ مال درا زمانے کی گردش میں آ گیا اور بالکل کنگال ہو گیا اور اس کے تمام نوکر چاکر بھی دوسروں کے ہاں ملازم ہو گئے۔اس کا ایک نوکر ایک بہت ہی سخی آدمی کے پاس جا کر ملازم ہو گیا۔وہ سخی دل کھول کر فقیروں اور غریبوں کی مدد کرتا اور ان کی حاجات پوری کیا کرتا تھا۔ایک رات جب سخت سردی تھی اور موسلادھار بارش ہو رہی تھی لوگ اپنے گرم گرم بستروں میں دبکے ہوئے تھے حاجت مند نے دستک دی ۔اگرچہ سخت سردی تھی لیکن پھر بھی سخی نے اس فقیر کو ٹھہرنے کے لئے کہا اور نوکر کو آواز دی کہ اس شخص کو فوراً کھانا کھلائے۔ نوکر نے حکم پورا کیا لیکن جب واپس آیا تو زاروقطار رورہا تھا۔سخی نے سبب پوچھا تو اس نے بتایا کہ باہر جو شخص ہے وہ پہلے میرا مالک تھا دو تین برس پہلے اس کے دروازے پر گھوڑے ہنہناتے تھے اور اندر باہر روپوں کی چہل پہل تھی آج اس کا یہ حال دیکھ کر میرا دل بھر آیا ۔سخی نے کہا کہاچھا میں بھی تو دیکھوں کہ کون ہے؟ سخی گھر سے باہر سے نکلاتو اس فقیر کو پہچان کر بے اختیار پکار اُٹھا،اے فقیر!ذرا غور سے مجھے دیکھ میں وہی غریب آدمی ہوں کہ ایک بار تیرے پاس آیا تھا جبکہ تین وقت کے فاقے سے تھا اور تو نے مجھے دھکے دے کر نکال دیا تھا ۔ بوڑھا فقیر اسے پہچان کر رو دیا اور بولا کہ ہاں ! میں وہی بد نصیب ہوں میں نے اللہ تعالیٰ کے غضب کی پروا نہ کی ،چنانچہ اس حال کو پہنچا۔ (حکایتِ سعدی)

بخل کےپانچ اسبا ب اور ان کا علاج :

1۔بخل کاپہلا سبب تنگ دستی کاخوف ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اس بات کو ہمیشہ ذہن میں رکھے کہ راہ خدا میں مال خرچ کرنے سے کمی نہیں آتی بلکہ اِضافہ ہوتا ہے۔

2۔بخل کا دوسرا سبب مال سے محبت ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ قبر کی تنہائی کو یاد کرے کہ میرا یہ مال قبر میں میرے کسی کا م نہ آئے گابلکہ میرے مرنے کے بعد ورثاء اسے بے دردی سے تصرف میں لائیں گے۔

3۔بخل کا تیسرا سبب نفسانی خواہشات کا غلبہ ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ خواہشات نفسانی کے نقصانات اور اُس کے اُخروی انجام کا باربار مطالعہ کرے۔ اس سلسلے میں امیر اہل سنت کارسالہ’’ گناہوں کا علاج ‘‘پڑھنا حد درجہ مفیدہے۔

4۔بخل کا چوتھا سبب بچوں کے روشن مستقبل کی خواہش ہے۔اس کا علاج یہ ہےکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر بھروسہ رکھنے میں اپنے اعتقاد ویقین کو مزید پختہ کرے کہ جس ربّ عَزَّ وَجَلَّ نے میرا مستقبل بہتر بنایا ہے وہی ربّ عَزَّ وَجَلَّ میرے بچوں کے مستقبل کو بھی بہتر بنانے پر قادر ہے۔

5۔بخل کا پانچواں سبب آخرت کے معاملے میں غفلت ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اس بات پر غور کرے کہ مرنے کے بعد جو مال ودولت میں نے راہِ خدا میں خرچ کی وہ مجھے نفع دے سکتی ہے،لہٰذا اس فانی مال سے نفع اٹھانے کے لیے اسے نیکی کے کاموں میں خرچ کرنا ہی عقل مندی ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات، صفحہ۱۳۱،۱۳۲)