بخل کے لغوی معنیٰ  کنجوسی کے ہیں اور جہاں خرچ کرنا شرعاً ، عادتاً یا مروتاً لازم ہو وہاں خرچ نہ کرنا بخل کہلاتا ہے، یا جس جگہ مال و اسباب خرچ کرناضروری ہو وہاں خرچ نہ کرنا یہ بھی بخل ہے۔ ( باطنی بیماریوں کی معلومات ، ص۱۲۸ )

بخل کی مذمت پر 5 احادیثِ مبارکہ:

1۔اس امت کے پہلے لوگ یقین اور زہد کے ذريعے نجات پائيں گے جب کہ آخری لوگ بخل اور خواہشات کے سبب ہلاکت میں مبتلا ہوں گے ۔ (فردوس الاخبار ،۲/۳۷۴ ، حدیث:۷۱۰۶ )

اللہ پاک نے اس بات پر قسم یاد فرمائی ہے کہ جنت ميں کوئی بخیل داخل نہ ہو گا ( کنزالعمال ، کتاب الاخلاق ، قسم الاقوال ، جزء ۳ ، ۲/۱۸۱ ، حدیث :۷۳۸۲ )

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک بار میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا ، حضور ﷺ ، بیت اللہ شریف کی دیوار کے سایہ میں تشریف فرما تھے ، مجھے دیکھ کر حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : رب کعبہ کی قسم وہ لوگ بڑے خسارے میں ہیں ، میں نے عرض کی ، میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ، کون لوگ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جن کے پاس مال زیادہ ہو ، مگر وہ لوگ ( خسارے میں نہیں ہیں )جو اس طرح ( خرچ )کریں اپنے دائیں سے ، اپنے بائیں سے ، آگے سے ، پیچھے سے ، لیکن ایسے افراد ہیں بہت کم ۔ ( صحیح بخاری ، صحیح مسلم ، مشکوٰۃ )

4۔خلیفہ ء رسول ﷺ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا جنت میں نہ تو دھوکہ باز داخل ہو گا ، نہ بخیل اورنہ صدقہ کر کے احسان جتانے والا ۔ ترمذی

5۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے سخی انسان اللہ تعالیٰ سے قریب ہے ، جنت سے قریب ہے ، انسانوں سے قریب ہے ، ( جب کہ )جہنم سے دور ہے اور بخیل انسان اللہ کریم سے دور ہے ، جنت سے دور ہے ، انسانوں سے دور ہے اور جہنم سے قریب ہے ، بے شک جاہل سخی اللہ کے نزدیک عابد بخیل سے زیادہ محبوب ہے ۔ سنن ترمذی