محمد مدثر عطّاری (درجہ
ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم
سادھوکی لاہور پاکستان)
بخل کی تعریف: جہاں شرعاً یا عرف و عادت کے اعتبار سے خرچ
کرنا واجب ہو وہاں خرچ نہ کرنا بخل (کنجوسی) ہے ۔ (احیاء العلوم کتاب زم البخل وزم
حب المال، 3/320،ملخصا )قرآن مجید میں بخل کے
بارے ارشاد : اللہ پاک کا فرمان عالیشان ہے ۔ وَ اَمَّا مَنْۢ بَخِلَ وَ اسْتَغْنٰىۙ(۸)ترجمۂ کنز العرفان : اور رہا وہ جس نے بخل کیا اور بے پرواہ بنا۔(پ30،اللیل:8)بخل کی مذمت کے بارے میں 5 فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
(1)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، حضور پر نور
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :بخل جہنم میں ایک درخت ہے، جو
بخیل ہے اُس نے اس کی ٹہنی پکڑ لی ہے، وہ ٹہنی اُسے جہنم میں داخل کیے بغیر نہ
چھوڑے گی۔(شعب الایمان، الرابع و السبعون من شعب الایمان، 7 / 435، حدیث: 10877)(2) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم
نور مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کر نے ارشاد فرمایا : بخیل اللہ پاک سے
دور ہے جنت سے اور آدمیوں سے دور ہے جبکہ جہنم سے قریب ہے۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ،
باب ما جاء فی السخائ، 3/387، حدیث: 1968)(3)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمَا سے روایت ہے ، نبی
اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : کوئی بخیل جنت میں نہیں
جائے گا ۔(معجم الاوسط، باب العین، من اسمہ علی، 3 / 125، حدیث: 4066)(4) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مالدار
بخل کرنے کی وجہ سے بلا حساب جہنم میں داخل ہوں گے۔(فردوس الاخبار، باب السین، 1/444، حدیث: 3309) (5) حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بخیل( یعنی کنجوسی کرنے والا)، دھوکے باز، خیانت کرنے والا اور بد
اخلاق جنت میں نہیں جائیں گے۔(المسند للامام احمد بن حنبل مسند ابی بکر الصدیق ،1/20 ،حدیث:13)
محمود علی عطّاری(اسسٹنٹ
سول انجینئر انصاری شگر ملز ٹنڈو غلام حیدر پاکستان)
بخل کیا ہے ؟ مع معنی و تعریف اور حکم:۔ بخل ایک باطنی بیماریوں
میں سے ایک بیماری ہے۔ بخل کے معنی کنجوسی کے ہیں، بخل کی تعریف یہ ہے کہ جہاں شرعاً،
عادتاً، مروتاً خرچ کرنا لازم ہو، نہ کرنا جیسے زکوٰۃ، عشر ،صدقۂ فطر وغیرہ شرعاً
لازم اور رشتے دار دوست وغیرہ پر مروتاً لازم ہے۔ بخل کا حکم ناجائز و حرام اور
گناہ ہے ۔ اللہ پاک و رسول پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ناراضی کا باعث ہے۔بخل کے متعلق احادیث
مبارکہ میں کئی مذمتیں آئی ہیں آیئے انہیں میں سے پانچ پڑھتے ہیں۔
(1) فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: دو عادتیں مومن میں جمع نہیں ہوسکتیں ،
بخل اور بد خلقی۔( ترمذی ،کتاب
البروالصلۃ ، باب ماجاء فی البخل، 3/387، حدیث: 1969) دیکھئے بخل کیسی بری بیماری ہے کہ مؤمن کے دل میں داخل ہی نہیں ہو سکتی کہ مؤمن
کے اوصاف میں سے ایک وصف اس کا بخیل نہ ہونا ہے۔ (2) ایک اور فرمان آخری رسول صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم: کوئی بخیل جنت میں نہ جائے
گا۔(معجم الاوسط، باب العین، من اسمہ علی، 3 / 125، حدیث: 4066)
اللہ اکبر کہ ساری طلب یہی بندۂ مؤمن کی ہوتی ہے کہ وہ
جنت پالے پر مالک جنت خود فرماتے ہے کہ بخل کرنے والا جنت سے محروم ہے اتنی بڑی
تباہ کاری ہے بخل کی۔ تفسیر صراط الجنان میں ہے: بخل کی وجہ سے جنت سے روکا جاسکتا ہے۔( تفسیر صراط الجنان،333/9)(3)
حدیث پاک پڑھئے اور بخل کی نحوست سے بچئے: آدمی کی دو عادتیں بری ہے :بخیلی جو
رلانے والی ہے اور بزدلی جو ذلیل کرنے والی ہے۔(ابوداؤد،18/3،حدیث:2511)(4) حدیث پاک میں ہے مال دار کو بخل کی وجہ سے بے حساب دوزخ میں ڈالا
جائے گا۔(مسند الفردوس ،444/1، حدیث: 3309) تفسیر صراط
الجنان میں ہے بخل کرنے والا گویا اس درخت کی شاخ پکڑ رہا ہے جو اسے
جہنم کی آگ میں داخل کرکے ہی چھوڑے گی۔ ( تفسیر صراط الجنان،333/9)(5)بخل سے بچو کہ بخل نے پہلے
کے لوگوں کو ہلاک کیا ،اسی بخل نے انہیں خون بہانے اور حرام کو حلال ٹھہرانے پر
آمادہ کیا۔(مسلم،کتاب البروالصلۃ و الآداب،باب تحریم الظلم،ص1069، حدیث:2578)
پیارے اسلامی بھائیوں ! دیکھا ہم سب نے بخل کیسی مذموم اور منحوس خصلت
ہے جو سوائے تباہی کہ کچھ نہیں لاتی۔ دنیا میں بھی بخیل ذلت اٹھاتا ہے اور آخرت میں
درد ناک عذاب۔الامان والحفیظ اللہ پاک ہمیں بخل
سے بچائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پانچ باتوں سے اللہ کی پناہ مانگی۔
فرمانِ
نبوی ہے: اے گروہ مہاجرین! پانچ بلائیں ایسی ہیں جن کے متعلق میں اللہ پاک سے
تمہارے لئے پناہ مانگتا ہوں : جب کسی قوم میں کھلم کھلا بدکاریاں ہوتی ہیں تو اللہ
پاک ان پر ایسے مکروہات نازل کرتا ہے جو پہلے کسی پر نازل نہیں ہوتے۔ جب کوئی قوم
ناپ تول میں کمی کرتی ہے تو ان پرتنگدستی، قحط سالی اور ظالم حاکم مسلط کردیا جاتا
ہے، جب کوئی قوم اپنے مالوں کی زکوٰۃ نہیں دیتی انہیں خشک سالی گھیر لیتی ہے، اگر
زمین پر چوپائے نہ ہوں تو کبھی ان پر بارش نہ برسے۔ جب کوئی قوم اللہ اور اس کے رسول کے عید کو توڑ رہی۔ جب
کوئی قوم اللہ اور اس کے رسول کے عہد کو توڑ دیتی ہے تو اس پر اس کے دشمن مسلط
ہوجاتے ہیں جو ان سے ان کا مال و دولت چھین لیتے ہیں اور جس قوم کے فرمانروا کتاب
اللہ سے فیصلہ نہیں کرتے، ان کے دلوں میں ایک دوسرے سے خوف پیدا ہوجاتا ہے۔
(1)فرمانِ
نبوی ہے: اللہ پاک بخیل کی زندگی اور سخی کی موت کو ناپسند فرماتا ہے۔(
کنزالعمال،کتاب الاخلاق، الباب الثانی فی الأخلاق والأفعال۔۔۔الخ، 2/180،
الجزء الثالث ،حدیث: 7373)
(2)فرمانِ نبوی ہے: دو عادتیں مومن
میں جمع نہیں ہوسکتیں ، بخل اور بد خلقی۔( ترمذی ،کتاب البروالصلۃ ، باب ماجاء
فی البخل، 3/387، حدیث: 1969)
(3)فرمانِ نبوی ہے: اللہ پاک نے
قسم کھائی ہے کہ بخیل کو جنت میں نہیں بھیجے گا۔( تاریخ مدینہ دمشق، 57/373)
(4)فرمانِ نبوی ہے:بخل سے بچو! جس
قوم میں بخل آجاتا ہے وہ لوگ زکوٰۃ نہیں دیتے، صلہ رحمی نہیں کرتے اور ناحق خون
ریزیاں کرتے ہیں ۔ (کنزالعمال
، کتاب الاخلاق، 2/182،الجزء الثالث، حدیث: 7401)
(5)فرمانِ نبوی ہے: اللہ پاک نے
رکاکت اور شعلہ پن کو پیدا کیا اور اسے مال اور بخل سے ڈھانپ دیا۔( کنزالعمال
، کتاب الاخلاق، 2/183، حدیث: 7407)
رانا عبید عطّاری(درجہ ثالثہ
جامعۃُ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی
لاہور پاکستان)
بخل مہلک یعنی ہلاک کرنے والا مرض ہے بخل بعض اوقات کئی
گناہوں کا سبب بن جاتا ہے ۔ لہٰذا ہر مسلمان کو اس سے بچنا لازم ہے جہاں شرعاً یا
عرف و عادت کے اعتبار سے خرچ کرنا واجب ہو وہاں خرچ نہ کرنا بخل یعنی کنجوسی ہے
جہاں مال خرچ کرنا شرعاً ضروری ہے مثلاً فرض ہونے کی صورت میں صدقہ فطر ادا کرنا،
اسی طرح قسم وغیرہ کا کفارہ دینا، ان کاموں میں بخل کرنا گناہ اور جہنم میں لے جانے
والا کام ہے۔بخل کے متعلق قراٰن پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ لَا
یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ
اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ هُوَ
خَیْرًا لَّهُمْؕ-بَلْ هُوَ شَرٌّ
لَّهُمْؕ-سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ یَوْمَ
الْقِیٰمَةِؕ-وَ لِلّٰهِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ
الْاَرْضِؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۠(۱۸۰)۔ ترجمۂ کنز الایمان: اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو
اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ہرگز اسے اپنے لیے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لیے
برا ہے عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہوگا اور اللہ
ہی وراث ہے آسمانوں اور زمین کااور اللہ تمھارے کا موں سے خبردار ہے۔ (پ 4،آل عمران:180)
(1)بخل سے بچو کہ اس نے اگلوں کو ایک دوسرے کا خون بہانے پر
ابھارا تو انہوں نے ایک دوسرے کا خون بہا یا حرام کو حلال سمجھا اور رشتہ داری کو
کاٹا۔(مسلم ، کتاب البر والصلة والآداب ، باب تحریم الظلم، ص 1394، حدیث: 12578)(2)سخاوت جنت میں اگنے والا ایک درخت ہے لہٰذا سخی جنت میں
جائے گا۔ بخل جہنم میں اگنے والا ایک درخت ہے لہٰذا بخیل جہنم میں جائے گا۔
(کنزالعمال،168/6،حدیث:16203)(3)حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رحیم وکریم
آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
بنولِحْیان کے وَفْد سے پوچھا:تمہارا سردار کون ہے؟ انہوں نے کہا: جَدْبن قیس
ہمارے سردار ہیں مگر ان میں بخل ہے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:بخل سے بڑی کونسی بیماری ہے،
تمہاراسرداراب عَمْرو بن جَمُوح ہے۔ (المعجم الصغیر ،1/ 115، حدیث : 318)(4)ان
الله بعض البخيل في حياته التقى عند موته بے شک اللہ
اس شخص کو ناپسند فرماتا ہے جو زندگی بھر بخل اور مرتے وقت سخاوت کرے۔(كنز العمال،
کتاب الاخلاق،185/3،حدیث:7373)(5)رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے زمانے میں ایک شخص شہید ہو گیا۔ تو اس پر ایک
خاتون رونے لگی اور روتے ہوئے کہا: ہائے رے شہید ! رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد نے
ارشاد فرمایا: تمہیں کیسے معلوم ہے کہ وہ
شہید ہے ہو سکتا ہے اس نے بے کار گفتگو کی ہویا نہ گھٹنے والی چیز میں بخل کیا ہو۔المسند لابی یعلیٰ ، 509/5 ،حدیث: 6615)
شناور غنی عطّاری (درجہ رابعہ
جامعۃُ المدینہ، فیضان امام غزالی،فیصل آباد پاکستان)
ہر اسلامی بھائی پر ظاہری گناہوں کے ساتھ ساتھ باطنی گناہوں
کے علاج پر بھی بھرپور توجہ دینا لازم ہے تاکہ ہم اپنے دارِ آخرت کو ان کی تباہ
کاریوں سے محفوظ رکھ سکیں۔ باطنی گناہوں کا علم حاصل کرنا بھی فرض ہے۔ آئیے سب سے
پہلے بخل کی تعریف کے بارے میں جانتے ہیں: بخل کے لغوی معنی کنجوس کے ہیں اورجہاں خرچ کرنا شرعاً، عادتاً یا مروتاً لازم ہو وہاں خرچ نہ کرنا بخل کہلاتا ہے یا جس
جگہ مال و اسباب خرچ کرنا ضروری ہو وہاں خرچ نہ کرنا یہ بھی بخل ہے۔(الحدیقہ
الندیہ، 2 / 154) زکوٰۃ
صدقہ فطر وغیرہ میں خرچ کرنا شرعاً واجب ہے اور دوست احباب،عزیز رشتہ داروں پر خرچ
کرنا عرف و عادت کے اعتبار سے واجب ہے۔(احیاء علوم الدین، 3/ 320)
مدینہ کے پانچ حروف کی نسبت سے بخل کی مذمت پر پانچ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم :۔قرآن مجید اور
کثیر احادیث میں بخل کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے:۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا
ہے: هٰۤاَنْتُمْ
هٰۤؤُلَآءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۚ-فَمِنْكُمْ مَّنْ
یَّبْخَلُۚ-وَ مَنْ یَّبْخَلْ فَاِنَّمَا یَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِهٖؕ-وَ اللّٰهُ
الْغَنِیُّ وَ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُۚ-وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا
غَیْرَكُمْۙ-ثُمَّ لَا یَكُوْنُوْۤا اَمْثَالَكُمْ۠(۳۸) ترجمۂ کنزالایمان: ہاں ہاں یہ جو تم ہو بلائے جاتے ہو کہ اللہ کی راہ میں
خرچ کرو تو تم میں کوئی بخل کرتا ہے اور جو بخل کرے وہ اپنی ہی جان پر بخل کرتا ہے
اور اللہ بے نیاز ہے اور تم سب محتاج اور اگر تم منہ پھیرو تو وہ تمہارے سوا اور لوگ بدل لے گا پھر وہ تم
جیسے نہ ہوں گے۔(پ26، محمد:38)(1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مالدار
بخل کرنے کی وجہ سے بلا حساب جہنم میں داخل ہوں گے۔(فردوس الاخبار، باب السین، 1/444، حدیث: 3309) (2) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرورِ عالم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: دو خصلتیں کسی مؤمن میں جمع نہیں
ہو سکتیں ،بخل اور بدخلقی۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی البخل، 3/387، حدیث: 1969)(3) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا:بخیل اللہ پاک سے دور ہے، جنت سے اور آدمیوں سے دور ہے جبکہ جہنم سے قریب
ہے۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، حدیث: 1968)
(4) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمَا سے روایت ہے ، نبی
اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : کوئی بخیل جنت میں نہیں
جائے گا ۔(معجم الاوسط، باب العین، من اسمہ علی، 3 / 125، حدیث: 4066)(5) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، حضور پر نور
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :بخل جہنم میں ایک درخت ہے، جو
بخیل ہے اُس نے اس کی ٹہنی پکڑ لی ہے، وہ ٹہنی اُسے جہنم میں داخل کیے بغیر نہ
چھوڑے گی۔(شعب الایمان، الرابع و السبعون من شعب الایمان، 7 / 435، حدیث: 10877)
سید زین العابدین (درجہ دورۃالحدیث
جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ کراچی پاکستان)
بعض نادان دنیاوی مال و دولت کے اتنے حریص ہوتے ہیں کہ راہ
خدا میں صدقہ و خیرات کا نام سنتے ہی دُور بھاگتے ہیں اور کنجوسی کی حد پار کرتے
ہوئے اللہ پارے کی راہ میں خرچ کرنا تو دور کی بات اپنی ذات اور اپنے گھر والوں کی
ضروری حاجات بھی مرے دل سے پوری کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے دل و دماغ پر ہر وقت دنیاوی
مال و دولت جمع کرنے کا جنون سوار رہتا ہے اور پھر یہی بخل و حرص آہستہ آہستہ انہیں
سرکش اور یاد خداوندی سے غافل کر دیتی ہے۔ حدیث مبارک میں مالداروں اور صاحب ثروت
لوگوں کو راہ خدا میں خرچ کرنے اور بخل سے بچنے کی ترغیب دلائی گئی ہے۔
بخل کی تعریف :بخل کا لغوی معنی کنجوسی کے ہیں۔اصطلاحی معنی: جہاں خرچ کرنا شرعاً، عادتاً یا مروتاً
لازم ہو، وہاں خرچ نہ کرنا بخل کہلاتا ہے۔
(1)حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے سرور دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: دو خصلتیں کسی مؤمن میں جمع
نہیں ہو سکتیں بخل اور بد خلقی۔ (ترمذی شریف، حدیث: 1969) (2)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
بخیل اللہ پاک سے دور ہے ،جنت سے، آدمیوں
سے دور ہے جبکہ جہنم سے قریب ہے۔ (ترمذی شریف، حدیث: 1968)(3) حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا :بخل جہنم میں ایک درخت ہے، جو بخیل ہے اُس نے اس کی ٹہنی پکڑ لی
ہے، وہ ٹہنی اُسے جہنم میں داخل کیے بغیر نہ چھوڑے گی۔(شعب الایمان، الرابع و
السبعون من شعب الایمان، 7 / 435، حدیث: 10877)(4)حضرت
سیِّدُنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدينہ، راحت قلب و
سينہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا:لالچ سے بچتے رہو کیونکہ
تم سے پہلی قوميں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئيں ، لالچ نے انہيں بُخْل پر آمادہ کيا
تو وہ بُخْل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خيال دلايا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور
جب گناہ کا حکم ديا تو وہ گناہ ميں پڑ گئے۔( ابوداؤد، کتاب الزکاۃ باب فی الشح، 2/185، حدیث: 1698 ) (5)حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نبی کرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
کوئی بخیل جنت میں نہیں جائے گا۔(معجم الاوسط، باب العین، من اسمہ علی، 3/125، حدیث: 4066)
بخل ایک مہلک مرض ہے۔ بخل کی قرآن پاک میں اور احادیث
مبارکہ میں مذمت کی گئی ہے۔چنانچہ اللہ پاک قراٰن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ
لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ
اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ هُوَ
خَیْرًا لَّهُمْؕ-بَلْ هُوَ شَرٌّ
لَّهُمْؕ-سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ
یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-وَ لِلّٰهِ مِیْرَاثُ
السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا
تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۠(۱۸۰)۔ ترجمۂ کنز
الایمان: اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ہرگز اسے اپنے
لیے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لیے برا ہے عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت
کے دن ان کے گلے کا طوق ہوگا اور اللہ ہی وراث ہے آسمانوں اور زمین کااور اللہ
تمھارے کا موں سے خبردار ہے۔ (پ 4،آل عمران:180)
حدیث مبارکہ:
بخل ہلاکت کا سبب ہے: اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا: لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلے قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئیں،
لالچ نے انہیں بخل پر آمادہ کیا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خیال دلایا
تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم دیا تو وہ گناہ میں پڑ گئے۔ (ابو داؤد،حدیث:1698)بخل کی تعریف :بخل کی تعریف
یہ ہے کہ جہاں شرعاً یا عرف وعادت کے اعتبار سے خرچ کرنا واجب ہو وہاں خرچ نہ کرنا
بخل ہے۔ زکوٰۃ صدقہ فطر وغیرہ میں خرچ کرنا شرعاً واجب ہے اور دوست احباب،عزیز
رشتہ داروں پر خرچ کرنا عرف و عادت کے اعتبار سے واجب ہے۔ (تفسیر صراط الجنان) بخل کی مذمت پر پانچ فرامین مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم:۔
(1) بخیلی جو رلانے والی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آدمی کی دو
عادتیں بری ہیں (1) بخیلی جو رلانے والی ہے۔ (2) بزدلی جو ذلیل کرنے والی
ہے ۔ (ابو داؤد،
کتاب الجہاد، باب فی الجرأۃ والجبن، 3/18،
حدیث: 2511)(2)
بخیل مالدار بلا حساب
داخل جہنم : حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مالدار
بخل کرنے کی وجہ سے بلا حساب جہنم میں داخل ہوں گے۔(فردوس الاخبار، باب السین، 1/444، حدیث: 3309) (3) بخیل داخل جنت نہ
ہو گا: حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا: کوئی بخیل جنت میں نہیں جائے گا۔(معجم الاوسط، باب العین، من اسمہ علی، 3/125، حدیث: 4066)(4) بخیل اللہ پاک سے دور ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بخیل اللہ پاک سے دور ہے جنت
سے اور آدمیوں سے دور ہے جبکہ جہنم سے قریب ہے۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما
جاء فی السخائ، 3/387، حدیث: 1968) (5) بخل جہنم میں ایک درخت ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بخل جہنم میں ایک درخت ہے، جو
بخیل ہے اُس نے اس کی ٹہنی پکڑ لی ہے، وہ ٹہنی اُسے جہنم میں داخل کیے بغیر نہ
چھوڑے گی۔ (شعب الایمان، الرابع و السبعون من شعب الایمان، 7/435، حدیث: 10877)
ابلیسِ لعین بخل کو پسند کرتا ہے: حضرتِ
یحییٰ علیہ السلام نے پوچھا: تجھے کونسا آدمی پسند ، کونسا ناپسند ہے؟ ابلیس نے
کہا: مجھے مؤمن بخیل پسند ہے مگر گنہگار سخی پسند نہیں ؟ آپ نے پوچھا: وہ کیوں ؟
ابلیس نے کہا: اس لئے کہ بخیل کو تو اس کا بخل ہی لے ڈوبے گا مگر فاسق سخی کے
متعلق مجھے یہ خطرہ ہے کہ کہیں اللہ پاک اس کے گناہوں کو اسکی سخاوت کے باعث معاف
نہ فرمادے۔ پھر ابلیس جاتے ہوئے کہتا گیا کہ اگر آپ یحییٰ پیغمبر نہ ہوتے تو میں
(راز کی یہ باتیں ) کبھی نہ بتلاتا۔ (مکاشفۃ القلوب،ص181) پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! حکایت سے
معلوم ہوا کہ بخیل( کنجوس) شخص شیطان کو بہت پسند ہے کہ ایسے شخص پر ابلیس کو زیادہ
محنت نہیں کرنی پڑتی بلکہ اس شخص کا بخل ہی اسے لے ڈوبتا ہے۔ بخل سے بچنے کا درس: میٹھے
میٹھے اسلامی بھائیو ! بخل ایک نہایت ہی قبیح اور مذموم فعل ہے اس لیے ہر مسلمان
کو اس سے بچنا لازم ہے زکوۃ، صدقہ فطر وغیرہ ادا کرنے میں بخل سے کام مت لیجیے،
بخل سے بچنے کے لیے دعا کیجیے۔ ہمارے پیارے آقا مکی مدنی محمد عربی صلی اللہ علیہ
وسلم نے جو دعائیں مانگی ان میں ہمارے لیے بھی سیکھنے کے مدنی پھول ہیں۔ بخاری شریف
میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا منقول ہے جس میں بخل سمیت سات چیزوں سے پناہ
مانگی گئی ہے۔چنانچہ دعائے مصطفی ہے: اللَّهُمَّ إِنِّي
أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْبُخْلِ وَالْكَسَلِ و ارذل العمر، و عَذَابِ الْقَبْرِ، وَ فِتْنَةِ
الدجّال و فِتْنَةِ الْمَحْيَا
َالْمَمَاتِ ترجمہ: اے اﷲ میں تیری پناہ چاہتا ہوں بخل سے،
سستی سے، نکمی عمر سے، عذاب قبر سے، دجال کے فتنہ سے اور زندگی اور موت کے فتنہ سے
۔( صحیح بخاری،حدیث:4707)
اللہ رب العزت ہمیں
بخل جیسی مہلک مرض سے بچائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
حمزہ رسول(درجہ سادسہ جامعۃُالمدینہ
فیضان حسنین کریمین کھوکھر روڈ لاہور پاکستان)
شریعت مطہرہ نے ہمیں مکلف بنایا ہے بعض اعمال کا تعلق ظاہری
بدن کے ساتھ ہے : نماز، روزه وغيره نیکیاں
کرنا ، برے کاموں سے بچنا ۔ اور بعض اعمال کا تعلق باطن (دل) کے ساتھ ہے۔ حسد ، ریا
کاری، تکبر اور بخل و غیره ۔بخل ایک انتہائی قبیح (برا) عمل ہے۔ امام غزالی احیاء العلوم میں بخل کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد
فرماتے ہے: جہاں مال خرچ کرنا ضروری ہے وہاں خرچ نہ کرنا بخل ہے۔ یہ تعریف جامع
مانع اور زندگی کے ہر معاملے پر صادق آتی ہے۔ قراٰن و حدیث میں بخل کی مذمت اور اس
سے بچنے کی ترغیب کثیر مقامات پر بیان کی گئی۔
(1)صحیح مسلم شریف میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بخل سے بچو ! کیونکہ اس
نے تم سے پہلے لوگوں ہلاک کیا ، بخل ہی کی وجہ سے انہوں نے لوگوں کے خون بہائے اور حرام
کو حلال کیا۔ جب کوئی مال دار شخص ضرورت مند کو مال دینے سے بخل (کنجوسی) کرتا ہے
تو مجبور شخص حرام کام کی طرف چلا جاتا ہے اور بعض اوقات تو بات خون بہانے تک بھی
چلی جاتی ہے۔ (2)ابوداؤد
میں روایت ہے : حضرت عبد الله بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے خطبہ دیا اور فرمایا: بخل و حرص
بچو ! اس لئے کہ تم سے پہلے لوگ بخل و حرص کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ حرص نے لوگوں کو
بخل کا حکم دیا تو وہ بخیل ہو گئے ۔ بخل نے انہیں ناتا توڑنے کا حکم دیا تو لوگوں سے
ناتا توڑا اور اس نے انہیں فسق و فجور کا حکم دیاتو وہ فسق و فجور میں لگ گئے۔
مذکورہ حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اکثر برائیوں کی جڑ بخل ہی ہے۔
(3) سنن نسائی شریف میں ہے : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : بخل اور ایمان، یہ دونوں کبھی
کسی بندے کے دل میں بھی جمع نہیں ہو سکتے۔(4) جامع ترمذی میں روایت
ہے، حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا : یا رسول
اللہ ! میرے گھر میں صرف زبیر کی کمائی ہے ۔ کیا میں اس میں سے صدقہ کروں ؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا : ہاں ! صدقہ کرو اور گرہ مت لگاؤ ورنہ تمہارے اوپر کرہ لگا دی جائے گی۔ (یعنی
بخل مت کرو ورنہ تمہارے مال سے برکت ختم ہو جائے گی) ۔(5) بخاری و مسلم اور کثیر کتابوں میں یہ حدیث
مبارکہ موجود ہے کہ نبی آخر الزماں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یوں دعا فرمایا
کرتے کہ : اللهم انی اعوذ بك من العجز والكسل والجبن والهزم والبخل
واعوذ بك من عذاب القبر و من فتنة المحيا و الممات ترجمہ: اے اللہ ! میں تجھ سے عاجز ہونے ، سستی، بزدلی ، بڑھاپے، اور بخل سے
پناہ مانگتا ہوں، اور میں تجھ سے عذاب قبر، زندگی اور موت کی آزمائشوں سے پناہ مانگتا
ہوں۔الله پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں
ہمیشہ بخل سے محفوظ رکھے ! اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد جاوید عطّاری (درجہ دورۃالحدیث
عالمی مدنی مرکزی فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی پاکستان)
بخل کے لغوی معنی کنجوسی کے ہیں۔ اور جہاں خرچ کرنا شرعاً،
عادتاً یا مروتاً لا زم ہو وہاں خرچ نہ کرنا بخل کہلاتا ہے یاجس جگہ مال و اسباب
خرچ کرنا ضروری ہو وہاں خرچ نہ کرنا یہ بھی بخل ہے۔
(1)حضرت
سیِّدُنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدينہ، راحت قلب و
سينہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا:لالچ سے بچتے رہو کیونکہ
تم سے پہلی قوميں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئيں ، لالچ نے انہيں بُخْل پر آمادہ کيا
تو وہ بُخْل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خيال دلايا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور
جب گناہ کا حکم ديا تو وہ گناہ ميں پڑ گئے۔( باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 130 )یاد رکھیئے ! بخل ایک نہایت
ہی قبیح اور مذموم فعل ہے، نیز بخل بسا اوقات دیگر کئی گناہوں کا بھی سبب بن جاتا
ہے اس لیے ہر مسلمان کو اس سے بچنا لازم ہے۔(2)اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنھما کہتی ہیں میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! میرے پاس سوائے اس کے کچھ نہیں جو زبیر میرے
لیے گھر میں لا دیں۔ کیا میں اس میں سے دوں ؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: دو اور اسے بند کر کے نہ رکھو کہ تمہارا رزق بھی بند کرکے رکھ دیا
جائے۔(ابوداؤد شریف) (3)امّ
المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کئی مسکینوں کا ذکر کیا تو
رسول اللہ نے ان سے فرمایا دو اور گنو مت کہ تمہیں بھی گن گن کر رزق دیا جائے۔(ابوداؤد
شریف)اے میرے پیارے اسلامی بھائیوں ! ذرا غور کیجئے کہ آج ہم میں سے ایک تعداد ہے
جو بے روزگاری، نوکری نہ ملنے، رزق میں رکاوٹ ، مہنگائی ، تنگی کا رونا روتی ہے ۔
تو غور کیجئے کہیں اس کا سبب یہ تو نہیں کہ ہم اپنے مال میں بخل کرتے ہوں۔ اللہ کی
راہ میں دینے کے بجائے، غریبوں کی مدد کرنے کے بجائے فضول خرچ، حرام کاموں میں خرچ
کرتے ہوں۔ وہ شخص بھی غور کریں جو کہتے ہیں
میرا کاروبار تھا۔فیکٹری تھی اب بند ہوگئی۔
(4)فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:بخل سے بچو کہ بخل نے اگلوں کو ہلاک کیا
،اسی بخل نے انہیں خون بہانے اور حرام کو حلال ٹھہرانے پر آمادہ کیا۔(مسلم،کتاب
البروالصلۃ و الآداب،باب تحریم الظلم،ص1394، حدیث:2578) (5)حضرت
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: بخیل ، مکّار، خیانت
کرنے والا اور بداخلاق جنت میں نہیں جائیں گے ۔
گناہوں کی عادت چھڑا یا الٰہی
مجھے نیک انسان بنا یا الٰہی (وسائل بخشش)
محمد بلال (درجہ ثالثہ
عصری جامعۃُالمدینہ فیضان بابا فرید
پاکپتن شریف پاکستان)
بخل کی تعریف : بخل کے لغوی معنی کنجوسی کے ہیں۔ اور جہاں خرچ کرنا شرعاً،
عادتاً یا مروتاً لازم ہو وہاں خرچ نہ کرنا بخل کہلاتا ہے ۔بخل بہت ہی بری صفت ہے
اس کی مذمت میں قرآن مجید میں بہت سی آیتیں ملتی ہیں اور اس کے متعلق بہت سی حدیثیں
وارد ہیں۔ جن میں سے پانچ درج ذیل ہیں:۔
(1)حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور سید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ظلم سے بچو کیونکہ ظلم قیامت کے دن اندھیریاں
ہوگا اور کنجوسی سے بچو کیونکہ کنجوسی نے تم سے پہلے والوں کو ہلاک کردیا کنجوسی
نے انہیں رغبت دی کہ انہوں نے خون ریزی کی اورحرام کو حلال جانا ۔(مسلم،کتاب البر
والصلۃ،باب تحریم الظلم،ص1394،حدیث:2578) (2)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور سید عالم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ سخی
اللہ کے قریب ہے، جنت کے قریب ہے، لوگوں کے قریب ہے، آگ سے دور ہے اور کنجوس اللہ
سے دور ہے، جنت سے دور ہے، لوگوں سے دور ہے، آگ کے قریب ہے اور یقیناً جاہل سخی
کنجوس عابد سے افضل ہے۔ (سنن
الترمذي، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في السخاء،92/3، حدیث:1961)(3)حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مالدار بخیل جنت
میں داخل نہیں ہوں گے اور وہ شخص جو خیرات دے کر احسان جتائے۔(سنن ترمذی،388/3)(4) حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور سید
عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مؤمن میں دو باتیں یعنی بخل اور بدخلقی
جمع نہیں ہوتیں۔( سنن ترمذی،387/3)(5) حضرت سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
حضور سید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے
پہلی قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئیں لالچ نے انہیں بخل پر آمادہ کیا تو وہ بخل
کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خیال دلایا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ سے
بچنے کا حکم دیا تو وہ گناہ میں پڑ گئے۔(
ابوداؤد، /2 185) اللہ پاک
سے دعا ہے کہ ہمیں بخل اور دوسری باطنی بیماریوں سے بچائے۔ اٰمین۔
اویس افضل(درجہ رابعہ
جامعۃُ المدینہ فیضان امام غزالی فیصل
آباد پاکستان)
جس
طرح کچھ نیکیاں ظاہِری ہوتی ہیں جیسے نماز اورکچھ باطِنی مثلاً اِخلاص۔ اسی طرح
بعض گناہ بھی ظاہری ہوتے ہیں جیسے قتل اوربعض باطِنی جیسے تکبُّر۔ اس پُر فِتَن
دور میں اَوَّل تو گناہوں سے بچنے کا ذہن بہت ہی کم ہے اور جوخوش نصیب اسلامی
بھائی گناہوں کے عِلاج کی کوشِشیں کرتے بھی ہیں تو ان کی زیادہ تَر توجُّہ ظاہری
گناہوں سے بچنے پر ہوتی ہے۔ ایسے میں باطِنی گناہوں کا عِلاج نہیں ہوپاتا حالانکہ
یہ ظاہری گناہوں کی نسبت زیادہ خطرناک ہوتے ہیں کیونکہ ایک باطِنی گناہ بے شمار
ظاہری گناہوں کا سبب بن سکتا ہے۔ مثلاً قتل، ظُلم ،غیبت ، چُغلی ، عیب دَری جیسے
گناہوں کے پیچھے کینے اور کینے کے پیچھے غصے کا ہاتھ ہونا ممکن ہے ۔ چنانچہ اگر
باطِنی گناہوں کا تسلّی بَخْش عِلاج کرلیا جائے تو بہت سے ظاہِری گناہوں سے بچنا اِنْ
شَآءَ اللہ بے حد آسان ہوجائے گا۔ ان گناہوں سے
بچنے کا ایک ذریعہ یہ ہے کہ ان کے عذابات کو پڑھا جائے اس مضمون میں ہم بخل کی مذمت میں جو آیات اور احادیث مبارکہ آئی
ہیں ان کو پڑھتے ہیں تاکہ ہم اس باطنی گناہ سے بھی بچنے میں کامیاب ہو جائیں۔ آیئے
پہلے جانتے ہیں کہ بخل ہوتا کیا ہے۔
بخل کی تعریف : بخل کے لغوی
معنی کنجوسی کے ہیں۔ اور جہاں خرچ کرنا شرعاً، عادتاً یا مروتاً لازم ہو وہاں خرچ
نہ کرنا بخل کہلاتا ہے ، یا جس جگہ مال و اسباب خرچ کرنا ضروری ہو وہاں خرچ نہ
کرنا یہ بھی نخل ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات)اللہ پاک نے بخل کے متعلق قرآن کریم
میں ارشاد فرمایا:
وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ
بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ هُوَ
خَیْرًا لَّهُمْؕ-بَلْ هُوَ شَرٌّ
لَّهُمْؕ-سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ
یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-وَ لِلّٰهِ مِیْرَاثُ
السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا
تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۠(۱۸۰)۔ ترجمۂ کنز
الایمان: اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ہرگز اسے اپنے
لیے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لیے برا ہے عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت
کے دن ان کے گلے کا طوق ہوگا اور اللہ ہی وراث ہے آسمانوں اور زمین کااور اللہ
تمھارے کا موں سے خبردار ہے۔ (پ 4،آل عمران:180)آیئے اب بخل کی مذمت میں 5 (پانچ) فرامین مصطفیٰ
پڑھتے اور اس باطنی بیماری سے بچنے کی پوری
کوشش کیجئے:۔
(1)حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:بخل سے بچو کہ بخل نے اگلوں کو
ہلاک کیا ،اسی بخل نے انہیں خون بہانے اور حرام کو حلال ٹھہرانے پر آمادہ کیا۔(مسلم،کتاب
البروالصلۃ و الآداب،باب تحریم الظلم،ص1394، حدیث:2578)(2)روایت ہے حضرت عمر و ابن شعیب سے وہ اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے راوی کہ نبی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اس
امت کی پہلی درستی یقین اور زہد ہے اور اس کا پہلا فساد بخل اور دراز امید ہے (مراۃ
المناجيح، باب الأمل والحرص، الفصل الثالث،7/82 ،حدیث:5045) مفتی احمد یار خان نعیمی اس کے تحت لکھتے ہیں (یعی
مسلمان کا پہلا گناہ جو دوسرے گناہوں کی
جڑ ہے وہ یہ دو چیزیں ہیں: بخل جڑ ہے خونریزی فساد کی۔ لمبی امیدیں جڑ ہیں غفلت و
گناہ کی۔(3)بخل سے بچو کہ اس نے اگلوں کو ایک دوسرے کا خون بہانے پرابھارا تو انہوں نے ایک
دوسرے کا خون بہایا، حرام کو حلال سمجھا اور رشتہ داری کو کاٹا۔ (احیاء العلوم ، 3
/ 844) (4)الله پاک تین قسم کے لوگوں کو نا پسند فرماتا ہے (1) بوڑھا
زانی (2) احسان جتانے
والا بخیل اور (3) متکبر فقیر۔ (احیاء العلوم )(5) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ پاک نے بخل کو اپنے غضب سے پیدا کیا اور اس کی جڑ کو زقّوم
(جہنم کی ایک درخت) کی جڑ میں راسخ کیا اور اس کی بعض شاخوں کو زمین کی طرف جھکا
دیا تو جو شخص بخل کی کسی ٹہنی کو پکڑ لیتا ہے اللہ پاک اسے جہنم میں داخل فرما دیتا
ہے، سن لو ! بےشک بخل ناشکری ہے اور ناشکری جہنم میں ہے۔ (فرض علوم سیکھئے، ص 721)مدنی مشوره : بخل اور دیگر
باطنی بیماریوں سے بجنے کے لئے کتاب ”باطنی بیماریوں کی معلومات“ کا مطالعہ فرمائیں۔
اویس ارشاد(درجہ خامسہ
جامعۃُ المدینہ فیضان مدینہ قبولہ شریف پاکپتن پاکستان)
بخل کی تعریف: بخل کی تعریف یہ ہے کہ جہاں شرعاً یا عرف وعادت کے اعتبار
سے خرچ کرنا واجب ہو وہاں خرچ نہ کرنا بخل ہے۔ زکوٰۃ صدقہ فطر وغیرہ میں خرچ کرنا
شرعاً واجب ہے اور دوست احباب،عزیز رشتہ داروں پر خرچ کرنا عرف و عادت کے اعتبار
سے واجب ہے۔(احیاء علوم الدین، 3/ 320)بخل کی مثالیں: زکوٰۃ فرض ہونے کے باوجود نہ دینا، فطرہ
واجب ہونے کے باوجود نہ دینا، مہمان کی مہمان نوازی میں بلا وجہ تنگی کرنا۔بخل کا
حکم: بخل کرنا ناجائز ہے: قرآن میں بخل کا ذکر:قرآن مجید فرقان حمید میں بخل کی
مذمت بیان کی گئی ہے چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
وَ لَا یَحْسَبَنَّ
الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ
مِنْ فَضْلِهٖ هُوَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-بَلْ
هُوَ شَرٌّ لَّهُمْؕ-سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا
بِهٖ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-وَ لِلّٰهِ مِیْرَاثُ
السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا
تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۠(۱۸۰)۔ ترجمۂ کنز
الایمان: اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ہرگز اسے اپنے
لیے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لیے برا ہے عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت
کے دن ان کے گلے کا طوق ہوگا اور اللہ ہی وراث ہے آسمانوں اور زمین کااور اللہ
تمھارے کا موں سے خبردار ہے۔ (پ 4،آل عمران:180)
خلیفہ اعلیٰ حضرت صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد
نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ خزائن العرفان میں اس آیت مبارکہ کے تحت
فرماتے ہیں: بخل
کی معنٰی میں اکثر علماء اس طرف گئے ہیں کہ واجب کا ادا نہ کرنا بخل ہے اسی لئے
بخل پر شدید وعیدیں آئی ہیں چنانچہ اس آیت میں بھی ایک وعید آرہی ہے ترمذی کی حدیث
میں ہے بخل اور بدخلقی یہ دو خصلتیں ایماندار میں جمع نہیں ہوتیں۔ اکثر مفسرین نے
فرمایا کہ یہاں بخل سے زکوٰۃ کا نہ دینا مراد ہے۔ مزید فرماتے ہیں: بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ جس کو
اللہ نے مال دیا اور اس نے زکوۃ ادا نہ کی روز قیامت وہ مال سانپ بن کر اس کو طوق
کی طرح لپٹے گااور یہ کہہ کر ڈستا جائے گا کہ میں تیرا مال ہوں میں تیرا خزانہ
ہوں۔حدیث میں بخل کا ذکر:بخل کی مذمت اور وعیدات احادیث مبارکہ
کی روشنی میں: ۔
(1) حضور
تاجدار رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ
پاک نے بخل کو اپنے غضب سے پیدا کیا اور اس کی جڑ کو تھوہڑ کے درخت کی جڑ میں راسخ
کیا اور اس کی بعض شاخوں کو زمین کی طرف جھکا دیا تو جو شخص اس کی کسی ٹہنی کو پکڑ
لیتا ہے اللہ پاک اسے جہنم میں داخل فرما دیتا ہے، سنو ! بخل کفر ( ناشکری) ہے اور
ناشکری جہنم میں لے جانے والی ہے۔ (کنز العمال، 2 /169 ،حدیث: 16313)
(2) حضرت ابو ہریرہ رضى اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سخاوت جنت میں ایک درخت ہے، جو سخی ہے، اُس نے اُسکی ٹہنی
پکڑ لی ہے، وہ ٹہنی اُس کو نہ چھوڑے گی جب تک جنت میں داخل نہ کر لے اور بخل جہنم
میں ایک درخت ہے، جو بخیل ہے، اُس نے اس کی ٹہنی پکڑ لی ہے، وہ ٹہنی اُسے جہنم میں
داخل کیے بغیر نہ چھوڑے گی۔ (شعب الایمان
، باب فی الجودو السخاء ،7/ 435، حدیث : 10877) ( 3) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا:بخیل اللہ پاک سے دور ہے، جنت سے اور آدمیوں سے دور ہے جبکہ جہنم سے قریب
ہے۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، حدیث: 1968)( 4) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، تاجدارِ رسالت
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: مالدار بخل کرنے کی وجہ سے بلا حساب جہنم میں داخل ہوگا۔(فردوس الاخبار،
باب السین، 1 / 444، حدیث: 3309)(5) مصطفیٰ جانَ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان
ہے: سخاوت جنت میں اگنے والا ایک درخت ہے
لہذا سخی جنت میں جائے گا بخل جنہم میں اگنے والا ایک درخت ہے۔ لہذا بخیل جہنم میں
جائے گا۔ (کنزالعمال، کتاب الزکاة، الباب الثانی فی السخاء والصدقۃ،6/ 168،حدیث : 16203)
بخل ایک مذموم اور مہلک مرض ہے بخل کی قبیح خصلت بعض اوقات
کئی گناہوں کا سبب بنتی ہے۔ لہذا ہر مسلمان کو اس سے بچنا لازم ہے یہ بات ذہن نشین
کر لیجئے کہ راہ خدا میں مال خرچ کرنے سے کمی نہیں ہوتی بلکہ اضافہ ہوتا ہے لہٰذا
دل کھول کر راہ خدا میں اپنا مال و دولت صرف کیجئے۔ اللہ پاک آپ کو دنیا و آخرت میں غنا و تونگری کی عظیم نعمت سے نوازے
گا۔باطنی سے بیماریوں کی تعریف اسباب کی معرفت کیلئے مجلس المدینہ العلمیہ کی کتاب
باطنی بیماریوں کی معلومات مطالعہ فرمائیے۔اللہ پاک ہمیں فرض علوم سیکھنے اور اس
پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ والہ وسلم