بخل ایک مہلک مرض ہے۔ بخل کی قرآن پاک میں اور احادیث مبارکہ میں مذمت کی گئی ہے۔چنانچہ اللہ پاک قراٰن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ  لَا  یَحْسَبَنَّ  الَّذِیْنَ  یَبْخَلُوْنَ  بِمَاۤ  اٰتٰىهُمُ  اللّٰهُ  مِنْ  فَضْلِهٖ  هُوَ  خَیْرًا  لَّهُمْؕ-بَلْ  هُوَ  شَرٌّ  لَّهُمْؕ-سَیُطَوَّقُوْنَ  مَا  بَخِلُوْا  بِهٖ  یَوْمَ  الْقِیٰمَةِؕ-وَ  لِلّٰهِ  مِیْرَاثُ  السَّمٰوٰتِ  وَ  الْاَرْضِؕ-وَ  اللّٰهُ  بِمَا  تَعْمَلُوْنَ  خَبِیْرٌ۠(۱۸۰)۔ ترجمۂ کنز الایمان: اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ہرگز اسے اپنے لیے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لیے برا ہے عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہوگا اور اللہ ہی وراث ہے آسمانوں اور زمین کااور اللہ تمھارے کا موں سے خبردار ہے۔ (پ 4،آل عمران:180)

حدیث مبارکہ:

بخل ہلاکت کا سبب ہے: اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلے قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئیں، لالچ نے انہیں بخل پر آمادہ کیا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خیال دلایا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم دیا تو وہ گناہ میں پڑ گئے۔ (ابو داؤد،حدیث:1698)بخل کی تعریف :بخل کی تعریف یہ ہے کہ جہاں شرعاً یا عرف وعادت کے اعتبار سے خرچ کرنا واجب ہو وہاں خرچ نہ کرنا بخل ہے۔ زکوٰۃ صدقہ فطر وغیرہ میں خرچ کرنا شرعاً واجب ہے اور دوست احباب،عزیز رشتہ داروں پر خرچ کرنا عرف و عادت کے اعتبار سے واجب ہے۔ (تفسیر صراط الجنان) بخل کی مذمت پر پانچ فرامین مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم:۔

(1) بخیلی جو رلانے والی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آدمی کی دو عادتیں بری ہیں (1) بخیلی جو رلانے والی ہے۔ (2) بزدلی جو ذلیل کرنے والی ہے ۔ (ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فی الجرأۃ والجبن، 3/18، حدیث: 2511)(2) بخیل مالدار بلا حساب داخل جہنم : حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مالدار بخل کرنے کی وجہ سے بلا حساب جہنم میں داخل ہوں گے۔(فردوس الاخبار، باب السین، 1/444، حدیث: 3309) (3) بخیل داخل جنت نہ ہو گا: حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کوئی بخیل جنت میں نہیں جائے گا۔(معجم الاوسط، باب العین، من اسمہ علی، 3/125، حدیث: 4066)(4) بخیل اللہ پاک سے دور ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بخیل اللہ پاک سے دور ہے جنت سے اور آدمیوں سے دور ہے جبکہ جہنم سے قریب ہے۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی السخائ، 3/387، حدیث: 1968) (5) بخل جہنم میں ایک درخت ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بخل جہنم میں ایک درخت ہے، جو بخیل ہے اُس نے اس کی ٹہنی پکڑ لی ہے، وہ ٹہنی اُسے جہنم میں داخل کیے بغیر نہ چھوڑے گی۔ (شعب الایمان، الرابع و السبعون من شعب الایمان، 7/435، حدیث: 10877)

ابلیسِ لعین بخل کو پسند کرتا ہے: حضرتِ یحییٰ علیہ السلام نے پوچھا: تجھے کونسا آدمی پسند ، کونسا ناپسند ہے؟ ابلیس نے کہا: مجھے مؤمن بخیل پسند ہے مگر گنہگار سخی پسند نہیں ؟ آپ نے پوچھا: وہ کیوں ؟ ابلیس نے کہا: اس لئے کہ بخیل کو تو اس کا بخل ہی لے ڈوبے گا مگر فاسق سخی کے متعلق مجھے یہ خطرہ ہے کہ کہیں اللہ پاک اس کے گناہوں کو اسکی سخاوت کے باعث معاف نہ فرمادے۔ پھر ابلیس جاتے ہوئے کہتا گیا کہ اگر آپ یحییٰ پیغمبر نہ ہوتے تو میں (راز کی یہ باتیں ) کبھی نہ بتلاتا۔ (مکاشفۃ القلوب،ص181) پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! حکایت سے معلوم ہوا کہ بخیل( کنجوس) شخص شیطان کو بہت پسند ہے کہ ایسے شخص پر ابلیس کو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی بلکہ اس شخص کا بخل ہی اسے لے ڈوبتا ہے۔ بخل سے بچنے کا درس: میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! بخل ایک نہایت ہی قبیح اور مذموم فعل ہے اس لیے ہر مسلمان کو اس سے بچنا لازم ہے زکوۃ، صدقہ فطر وغیرہ ادا کرنے میں بخل سے کام مت لیجیے، بخل سے بچنے کے لیے دعا کیجیے۔ ہمارے پیارے آقا مکی مدنی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دعائیں مانگی ان میں ہمارے لیے بھی سیکھنے کے مدنی پھول ہیں۔ بخاری شریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا منقول ہے جس میں بخل سمیت سات چیزوں سے پناہ مانگی گئی ہے۔چنانچہ دعائے مصطفی ہے: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْبُخْلِ وَالْكَسَلِ و ارذل العمر، و عَذَابِ الْقَبْرِ، وَ فِتْنَةِ الدجّال و فِتْنَةِ الْمَحْيَا َالْمَمَاتِ ترجمہ: اے اﷲ میں تیری پناہ چاہتا ہوں بخل سے، سستی سے، نکمی عمر سے، عذاب قبر سے، دجال کے فتنہ سے اور زندگی اور موت کے فتنہ سے ۔( صحیح بخاری،حدیث:4707)

اللہ رب العزت ہمیں بخل جیسی مہلک مرض سے بچائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم