بخل کے لغوی معنی کنجوسی کے ہیں۔ اور جہاں خرچ کرنا شرعاً، عادتاً یا مروتاً لا زم ہو وہاں خرچ نہ کرنا بخل کہلاتا ہے یاجس جگہ مال و اسباب خرچ کرنا ضروری ہو وہاں خرچ نہ کرنا یہ بھی بخل ہے۔

(1)حضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدينہ، راحت قلب و سينہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قوميں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئيں ، لالچ نے انہيں بُخْل پر آمادہ کيا تو وہ بُخْل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خيال دلايا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم ديا تو وہ گناہ ميں پڑ گئے۔( باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 130 )یاد رکھیئے ! بخل ایک نہایت ہی قبیح اور مذموم فعل ہے، نیز بخل بسا اوقات دیگر کئی گناہوں کا بھی سبب بن جاتا ہے اس لیے ہر مسلمان کو اس سے بچنا لازم ہے۔(2)اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنھما کہتی ہیں میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! میرے پاس سوائے اس کے کچھ نہیں جو زبیر میرے لیے گھر میں لا دیں۔ کیا میں اس میں سے دوں ؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: دو اور اسے بند کر کے نہ رکھو کہ تمہارا رزق بھی بند کرکے رکھ دیا جائے۔(ابوداؤد شریف) (3)امّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کئی مسکینوں کا ذکر کیا تو رسول اللہ نے ان سے فرمایا دو اور گنو مت کہ تمہیں بھی گن گن کر رزق دیا جائے۔(ابوداؤد شریف)اے میرے پیارے اسلامی بھائیوں ! ذرا غور کیجئے کہ آج ہم میں سے ایک تعداد ہے جو بے روزگاری، نوکری نہ ملنے، رزق میں رکاوٹ ، مہنگائی ، تنگی کا رونا روتی ہے ۔ تو غور کیجئے کہیں اس کا سبب یہ تو نہیں کہ ہم اپنے مال میں بخل کرتے ہوں۔ اللہ کی راہ میں دینے کے بجائے، غریبوں کی مدد کرنے کے بجائے فضول خرچ، حرام کاموں میں خرچ کرتے ہوں۔ وہ شخص بھی غور کریں جو کہتے ہیں میرا کاروبار تھا۔فیکٹری تھی اب بند ہوگئی۔

(4)فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:بخل سے بچو کہ بخل نے اگلوں کو ہلاک کیا ،اسی بخل نے انہیں خون بہانے اور حرام کو حلال ٹھہرانے پر آمادہ کیا۔(مسلم،کتاب البروالصلۃ و الآداب،باب تحریم الظلم،ص1394، حدیث:2578) (5)حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: بخیل ، مکّار، خیانت کرنے والا اور بداخلاق جنت میں نہیں جائیں گے ۔

گناہوں کی عادت چھڑا یا الٰہی

مجھے نیک انسان بنا یا الٰہی (وسائل بخشش)