بخل ایک مہلک اور قابل مذموم مرض ہےکبھی کبھار یہ بہت سے گناہوں کا سبب بن جاتا ہے۔ بخل یہ ہے لہ جہاں شرعاً، عادتاً یا عرفاً خرچ کرنا واجب ہو وہاں خرچ نہ کرنا بخل ہے۔(احیاء العلوم،320/3)قراٰن و حدیث میں شدید مذمت بیان کی گئی ہے۔ اللہ پاک قراٰن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۚ-فَمِنْكُمْ مَّنْ یَّبْخَلُۚ-وَ مَنْ یَّبْخَلْ فَاِنَّمَا یَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِهٖؕ-وَ اللّٰهُ الْغَنِیُّ وَ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُۚ-وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَكُمْۙ-ثُمَّ لَا یَكُوْنُوْۤا اَمْثَالَكُمْ۠(۳۸) ترجمۂ کنزالایمان: ہاں ہاں یہ جو تم ہو بلائے جاتے ہو کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو تم میں کوئی بخل کرتا ہے اور جو بخل کرے وہ اپنی ہی جان پر بخل کرتا ہے اور اللہ بے نیاز ہے اور تم سب محتاج اور اگر تم منہ پھیرو تو وہ تمہارے سوا اور لوگ بدل لے گا پھر وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔26، محمد:38)آیئے بخل کی مذمت پر پانچ احادیث پڑھتے ہیں:۔

(1)رلانے والی: حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آدمی کی دو عادتیں بُری ہیں: (1) بخیلی جو رلانے والی ہے۔ (2) بزدلی جو ذلیل کرنے والی ہے۔ (ابوداؤد،18/3، حدیث:2511)

(2) بلا حساب جہنم میں داخلہ: رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مالدار بخل کرنے کی وجہ سے بلا حساب جہنم میں داخل ہوں گے۔(فردوس الاخبار،444/1، حدیث: 3309)(3)بخل کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا: حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کوئی بخیل جنت میں نہیں جائے۔(معجم الاوسط،125/3،حدیث:4066)(4)اللہ سے دور: حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بخیل اللہ سے دور جنت سے اور آدمیوں سے ہے۔(ترمذی،387/3،حدیث:1968)(5)جہنم میں داخل کرے گی: حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بخل جہنم میں ایک درخت ہے جو بخیل ہے اس نے اس کی ٹہنی پکڑ لی ہے وہ ٹہنی جہنم میں داخل کئے بغیر نہیں چھوڑے گی۔(شعب الایمان،435/7،حدیث:10877)

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس مرض سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں سخاوت کی عظیم دولت سے نوازے۔ اٰمین بجا ہ خاتم النبین صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم


بخل ایسا ناسور ہے جس  کی بنا پر انسان صرف دنیا ہی میں ذلت کا شکار نہیں ہوتا بلکہ آخرت میں بھی رسوائی اور جہنم اس کا مقدر بن جاتی ہے، انسان اگر اللہ پاک کے قرب اور مشیتِ الٰہی کا طلب گار ہے تو بخل کرنا چھوڑ دے اور خوش دلی سے سخاوت کرے کیونکہ جنت سخیوں کا گھر ہے۔( كنزالعمال، كتاب الزكاة، قسم الاقوال،6/148،حدیث:15981) اور بخیل شخص جہنم کے قریب ہوتا ہے۔( ترمذی، کتاب البر و الصلہ، باب ماجاء فی السخاء،ص479،حدیث:1961 ،ملخصاً)

بخل کی تعریف: جائز ضروریات میں خرچ سے گریز کرنا۔ (اردو لغت،2/872) جہاں شرعاً یا عرف وعادت کے اعتبار سے خرچ کرنا واجب ہو وہاں خرچ نہ کرنا بخل ہے۔ (تفسیر صراط الجنان،2/104)بخل کی مذمت پر5فرامین ِمصطفیٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم

(1) آخری رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:دو خصلتیں مؤمن میں جمع نہیں ہوں گی بخل (کنجوسی) اور بداخلاقی۔( ترمذی، کتاب البر و الصلہ، باب ماجاء فی البخل، ص479، حدیث: 1962)(2) جو شخص اپنے مال کی زکوٰۃ نہ دے گا وہ مال روزِ قیامت گنجے اژدہے کی شکل بنے گا اور اس کے گلے میں طوق ہو کر پڑےگا۔ پھر سیّد عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے کتاب اللہ سے اس کی تصدیق فرمائی کہ رب کریم فرماتا ہے: سَیُطَوَّقُوْنَ  مَا  بَخِلُوْا  بِهٖ  یَوْمَ  الْقِیٰمَةِؕ( پ 4، اٰل عمران:180)جس چیز میں بخل کررہے ہیں قریب ہے کہ طوق بنا کر ان کے گلے میں ڈالی جائے قیامت کے دن۔( سنن نسائی، کتاب الزکاۃ ، باب التغلیظ فی حبس الزکاۃ، ص400، حدیث:2437)(3)اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک اللہ پاک نے تم پر ماؤں کی نافرمانی حرام کردی اور بچیوں کو زندہ درگور کرنا اور بخل کرنا اور گدا گری کرنا اور ادھر ادھر کی فضول باتیں کرنا تم پر حرام کردیا ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب الادب، باب عقوق الوالدین من الکبائر، ص1493، حدیث:5975) (4)سیدنا انس رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے : اے اللہ میں تجھ سے فکر، غم، عجز اور سستی اور بزدلی اور بخل اور قرض کے غلبہ اور مَردوں کے غلبہ سے پناہ طلب کرتاہو ں۔( صحیح بخاری، کتاب الدعوات، باب الستعاذۃ من الجبن والکسل، ص1570، حدیث:6369۔ ملخصاً)

(5)نبی مکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: زمانہ قریب ہوتا جائے گا، عمل کم ہوتے جائیں گے اور بخل عام ہوجائے گا ۔( صحیح بخاری، کتاب الادب، باب حسن الخلق والسخاء ۔۔۔الخ، ص1504، حدیث:6037۔ ملخصاً)

بخل کا علاج: بخل کا علاج سخاوت سے ہوتا ہے ۔( مراۃ المناجیح،6/583۔نعیمی کتب خانہ) بخل کا علاج یوں بھی ممکن ہے کہ بخل کے اسباب پر غور کر کے انہیں دور کرنے کی کوشش کرے۔ جیسے بخل کا بہت بڑا سبب مال کی محبت ہے، اسے قناعت اور صبر کے ذریعے اور بکثر ت موت کی یاد، یونہی بخل کی مذمت اور سخاوت کی فضیلت پر مشتمل اَحادیث مطالعہ کر کے غورو فکر کرنا بھی ممد و معاون ثابت ہو گا ۔( تفسیر صراط الجنان،2/105)


بخل ایک ایسی مذموم صفت ہے جو نہ صرف اللہ پاک کو ناپسند ہے بلکہ معاشرے میں بھی معیوب سمجھی جاتی ہے۔بخیل آدمی لوگوں کی نظروں میں مجروح ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بھی تنگی میں رکھتا ہے۔

بخل کی تعریف: بخل کی تعریف یہ ہے کہ جہاں شرعاً یا عرف وعادت کے اعتبار سے خرچ کرنا واجب ہو وہاں خرچ نہ کرنا بخل ہے۔ زکوٰۃ صدقہ فطر وغیرہ میں خرچ کرنا شرعاً واجب ہے اور دوست احباب،عزیز رشتہ داروں پر خرچ کرنا عرف و عادت کے اعتبار سے واجب ہے۔(احیاء علوم الدین، 3/ 320)مفتی نعیم الدین مراد آبادی فرماتے ہیں کہ بخل کے معنی میں اکثر علماء اس طرف گئے ہیں کہ واجب کا ادا نہ کرنا بخل ہے اسی لئے بخل پر شدید وعیدیں آئی ہیں۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،ص 128)احادیث مبارکہ میں بخل کی مذمتیں بیان کی گئی ہیں جن میں سے پانچ درج ذیل ہیں۔

(1)بخل ہلاکت کا سبب ہے:حضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قوميں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئيں ، لالچ نے انہيں بخل پر آمادہ کيا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خيال دلايا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم ديا تو وہ گناہ ميں پڑ گئے۔(ابو داود،کتاب الزکاۃ،حدیث :1698)(2)اللہ پاک اور جنت سے دوری:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:بخیل اللہ پاک سے دور ہے، جنت سے اور آدمیوں سے دور ہے جبکہ جہنم سے قریب ہے۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، حدیث: 1968)(3) ہلاکت کا سبب:حدیث شریف میں فرمایا گیا: اس اُمت کے پہلے لوگ یقین اور زُہد کے ذريعے نجات پائيں گے جبکہ آخری لوگ بخل اور خواہشات کے سبب ہلاکت میں مبتلا ہوں گے۔(فردوس الاخبار،حدیث: 7106)(4)بخل جہنم کا درخت:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ’’بخل جہنم میں ایک درخت ہے، جو بخیل ہے اُس نے اس کی ٹہنی پکڑ لی ہے، وہ ٹہنی اُسے جہنم میں داخل کیے بغیر نہ چھوڑے گی۔(شعب الایمان، حدیث: 10877)(5)جہنم کا داخلہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مالدار بخل کرنے کی وجہ سے بلا حساب جہنم میں داخل ہوں گے۔(فردوس الاخبار،حدیث: 3309) اللہ پاک ہمیں بخل سے محفوظ فرمائے۔اٰمین


وَ  لَا  یَحْسَبَنَّ  الَّذِیْنَ  یَبْخَلُوْنَ  بِمَاۤ  اٰتٰىهُمُ  اللّٰهُ  مِنْ  فَضْلِهٖ  هُوَ  خَیْرًا  لَّهُمْؕ-بَلْ  هُوَ  شَرٌّ  لَّهُمْؕ-سَیُطَوَّقُوْنَ  مَا  بَخِلُوْا  بِهٖ  یَوْمَ  الْقِیٰمَةِؕ-وَ  لِلّٰهِ  مِیْرَاثُ  السَّمٰوٰتِ  وَ  الْاَرْضِؕ-وَ  اللّٰهُ  بِمَا  تَعْمَلُوْنَ  خَبِیْرٌ۠(۱۸۰)۔

ترجمۂ کنز الایمان: اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ہرگز اسے اپنے لیے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لیے برا ہے عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہوگا اور اللہ ہی وراث ہے آسمانوں اور زمین کااور اللہ تمھارے کا موں سے خبردار ہے۔ (پ 4،آل عمران:180)باطنی امراض میں سے ایک مہلِک(ہلاک کرنے والا) مرض بخل بھی ہے جس کے متعلق قرآن و حدیث میں بہت سخت وعیدات موجود ہیں۔ بخل کی مذمت کے متعلق فرامینِ مصطفٰےصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سننے سے پہلے بخل کے معنی و مفہوم کو سمجھنا بہتر ہے۔

بخل کی تعریف :بخل کے لغوی معنی کنجوس کے ہیں اورجہاں خرچ کرنا شرعاً، عادتاً یا مروتاً لازم ہو وہاں خرچ نہ کرنا بخل کہلاتا ہے یا جس جگہ مال و اسباب خرچ کرنا ضروری ہو وہاں خرچ نہ کرنا یہ بھی بخل ہے۔(الحدیقہ الندیہ، 2 / 154)اب بخل کی مذمت کے متعلق فرامینِ مصطفٰےصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سنتے ہیں۔کتبِ احادیث میں اس کی مذمت پر کثیر احادیث موجود ہیں، جن میں سے 5 فرامینِ مصطفٰےصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مندرجہ ذیل ہیں:

(1) إن اللّٰه يبغض البخيل في حياته السخی عند موتہ یعنی اللہ پاک اس شخص کو ناپسند فرماتا ہے جو زندگی بھر بخل اور مرتے وقت سخاوت کرے۔(كنز العمال، کتاب الاخلاق، الباب الثاني في الاخلاق والافعال المذمومة، 3/ 180، حدیث: 7373) (2) السخی الجهول أحب إلى اللّٰه من العابد البخیل یعنی جاہل سخی اللہ پاک کو عبادت گزار بخیل سے زیادہ محبوب ہے۔(شعب الايمان، باب في الجودو السخاء، 7 / 428، حدیث : 10847)(3) الشح والإيمان لا يجتمعان في قلب عبد یعنی کسی بندے کے دل میں بخل اور ایمان جمع نہیں ہو سکتے۔(سنن النسائی، کتاب الجهاد، باب فضل من عمل في سبيل اللہ ... الخ، ص 505 ، حدیث : 3108) (4) خصلتان لايجتمعان في مؤمن البخل وسوء الخلق یعنی دو عادتیں کسی مؤمن میں جمع نہیں ہو سکتیں:(1) بخل اور (2) بد اخلاقی۔(سنن الترمذی، کتاب البر والصلة، باب ماجاء في البخل، 3/ 387، حدیث : 1969) (5) لایدخل الجنة بخیل ولاخب ولاسئی الملكة ) یعنی بخیل ، دھوکے باز ، خیانت کرنے والا اور بد اخلاق جنت میں نہیں جائیں گے ۔(المسند للامام احمد بن حنبل، مسند ابي بكر الصديق، 1/ 20، حدیث : 30)

تمام ظاہری و جسمانی امراض کا علاج کرنا ضروری ہے لیکن تمام باطنی امراض کا علاج کرنا زیادہ ضروری ہے کیونکہ جسمانی امراض سے جان جانے کا خطرہ ہوتا ہے اور باطنی امراض سے ایمان جانے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ اسی لیے بخل کا بھی علاج ضروری ہے۔ اللہ والوں نے بخل کے علاج کی کئی صورتیں بیان کی ہیں جن میں سے دو ممکنہ صورتیں یہ ہیں: ایک علمی علاج، وہ یہ ہے کہ انسان بخل کے نقصانات اور سخاوت کے فوائد کا علم حاصل کرے تا کہ ضرورت سے زائد مال جمع نہ کرنے کا ذہن بنے۔اسی طرح قبر و آخرت کے منازل کا علم حاصل کرے اور اپنی موت کو ہر وقت یاد رکھے کہ کسی بھی لمحے موت آ سکتی ہے اور جتنا مال بھی میں جمع کر لوں وہ سب میرے پیچھے رہ جائے گا اور قبر و حشر میں یہ مال و دولت میرے کسی کام نہ ائے گا سوائے اس کے جو راہِ خدا میں خرچ ہوا ہو بلکہ مزید مشکل کا سامان بنے گا کہ جتنا زیادہ مال ہوگا اسی قدر زیادہ سخت حساب و کتاب ہوگا اور دوسرا علاج عملی ہے کہ نہ صرف سخاوت کے فوائد کا علم حاصل کرے بلکہ استقامت کے ساتھ اپنے مال کا کچھ نہ کچھ حصہ راہِ خدا میں صدقہ و خیرات کرتا رہے۔ اس سے مال کی محبت دل سے دور ہوتی رہے گی اور بخل جیسی مہلک بیماری سے بھی نجات ملتی رہے گی۔

اللہ پاک ہمیں بخل،حبِ جاہ و مال، ریاکاری، حسد، بغض و کینہ الغرض تمام تر باطنی و ظاھری امراض سے محفوظ فرمائے۔اٰمین


بیشک مال اور  دولت اللہ پاک کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے۔ جسے اللہ پاک نے اپنے فضل سے بندوں کو عطا فرمایا۔ اللہ پاک نے جس کو جتنا بھی مال عطا کیا ہے اسے چاہیے کہ اپنی استطاعت کے مطابق اس مال میں سے کچھ نہ کچھ اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرے اور اس کے ذریعہ مستحقین ،یتیم،مسکین،اور بیوہ خواتین کی مدد کرنے میں ذرا برابر بھی بخل نہ کرے۔

بخل کی تعریف :بخل کے لغوی معنی کنجوس کے ہیں اورجہاں خرچ کرنا شرعاً، عادتاً یا مروتاً لازم ہو وہاں خرچ نہ کرنا بخل کہلاتا ہے یا جس جگہ مال و اسباب خرچ کرنا ضروری ہو وہاں خرچ نہ کرنا یہ بھی بخل ہے۔(الحدیقہ الندیہ، 2 / 154)جس طرح بخل مال میں ہوتا ہے اسی طرح اعمال میں بھی ہوتا ہے۔بخل کی مذمت میں 5 فرامین مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ فرمائیں:۔

( 1)حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خطبہ دیا اور فرمایا : بخل و حرص سے بچو اس لیے کہ تم سے پہلے لوگ بخل و حرص کی وجہ سے ہلاک ہوئے، حرص نے لوگوں کو بخل کا حکم دیا تو وہ بخیل ہوگئے بخل نے انہیں ناتا توڑنے کو کہا تو لوگوں نے ناتا توڑ لیا اور اس نے انہیں فسق و فجور کا حکم دیا تو وہ فسق و فجور میں لگ گئے۔(سنن ابو داؤد، حدیث: 1698)(2) نواسہ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ آدمی کے بخل کے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کے سامنے میرا ذکر ہو اور وہ مجھ پر درود نہ پڑھے۔(ابن ابی شیبہ ،حدیث : 8793)(3) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :بخل اور ایمان کسی مسلمان آدمی میں جمع نہیں ہو سکتے۔(ابن ابی شیبہ، حدیث : 27139)(4) عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ اس امت کی پہلی نیکی بہترین یقین اور زہد ہے اور اس کی پہلی خرابی بخل اور دنیا میں زیادہ رہنے کی آرزو ہے۔(معارف حدیث، حدیث : 200)(5) حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کی نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بخل سے پناہ مانگتے تھے ۔(ابن ابی شیبہ،حدیث: 27145)

بخل ایک نہایت ہی قبیح اور مذموم فعل ہے،بسا اوقات دیگر کئی گناہوں کا سبب بن جاتا ہے اس لیے ہر مسلمان کو اس سے بچنا لازم ہے اللہ پاک سے دعا ہے ہم تمام کو بخل سے محفوظ فرمائے اور راہِ خدا میں خرچ کرنے اور نیکیاں کرنے میں بخل سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین 


اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتاہے:

﴿ وَ  لَا  یَحْسَبَنَّ  الَّذِیْنَ  یَبْخَلُوْنَ  بِمَاۤ  اٰتٰىهُمُ  اللّٰهُ  مِنْ  فَضْلِهٖ  هُوَ  خَیْرًا  لَّهُمْؕ-بَلْ  هُوَ  شَرٌّ  لَّهُمْؕ-سَیُطَوَّقُوْنَ  مَا  بَخِلُوْا  بِهٖ  یَوْمَ  الْقِیٰمَةِؕ-وَ  لِلّٰهِ  مِیْرَاثُ  السَّمٰوٰتِ  وَ  الْاَرْضِؕ-وَ  اللّٰهُ  بِمَا  تَعْمَلُوْنَ  خَبِیْرٌ۠(۱۸۰)

ترجمۂ کنزالایمان:اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ہرگز اسے اپنے لئے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لئے برا ہے عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہو گا اور اللہ ہی وارث ہے آسمانوں اور زمین کا اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔ (پ4، آل عمران: 180)صدر الافاضل حضرتِ علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ ’’خزائن العرفان‘‘ میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : بخل کے معنٰی میں اکثر علماء اس طرف گئے ہیں کہ واجب کا ادا نہ کرنا بخل ہے اسی لئے بخل پر شدید وعیدیں آئی ہیں چنانچہ اس آیت میں بھی ایک وعید آرہی ہے ترمذی کی حدیث میں ہے بخل اور بدخلقی یہ دو خصلتیں ایماندار میں جمع نہیں ہوتیں۔ اکثر مُفَسِّرِین نے فرمایا کہ یہاں بخل سے زکوٰۃ کا نہ دینا مراد ہے۔ مزید فرماتے ہیں : بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ جس کو اللہ نے مال دیا اور اس نے زکوٰۃ ادا نہ کی روز قیامت وہ مال سانپ بن کر اُس کو طوق کی طرح لپٹے گااور یہ کہہ کر ڈستا جائے گا کہ میں تیرا مال ہوں میں تیرا خزانہ ہوں۔ بخل کی مذمت پر احادیثِ مبارکہ پیشِ خدمت ہیں:

(1)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : ’’آدمی کی دو عادتیں بری ہیں (1) بخیلی جو رلانے والی ہے۔ (2) بزدلی جو ذلیل کرنے والی ہے ۔ (2)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مالدار بخل کرنے کی و جہ سے بلا حساب جہنم میں داخل ہوں گے۔ (3)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمَا سے روایت ہے ، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : کوئی بخیل جنت میں نہیں جائے گا ۔(4)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:بخیل اللہ پاک سے دورہے، جنت سے اور آدمیوں سے دور ہے جبکہ جہنم سے قریب ہے۔ (5)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، حضور پر نورصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :بخل جہنم میں ایک درخت ہے، جو بخیل ہے اُس نے اس کی ٹہنی پکڑ لی ہے، وہ ٹہنی اُسے جہنم میں داخل کیے بغیر نہ چھوڑے گی۔(صراط الجنان ،105/2)


بخل کی تعریف: یہ ہے کہ جہاں شرعاً یا عرف و عادت کے اعتبار سے خرچ کرنا واجب ہو وہاں خرچ نہ کرنا بخل ہے۔ زکوٰۃ صدقہ فطر وغیرہ میں خرچ کرنا شرعاً واجب ہے اور دوست احباب،عزیز رشتہ داروں پر خرچ کرنا عرف و عادت کے اعتبار سے واجب ہے۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذمّ البخل وذمّ حبّ المال، بیان حدّ السخاء والبخل وحقیقتہما، 3 / 320، ملخصاً)

بخل کی مذمت: قراٰنِ مجید اور کثیر احادیث میں بخل کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے ،چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۚ-فَمِنْكُمْ مَّنْ یَّبْخَلُۚ-وَ مَنْ یَّبْخَلْ فَاِنَّمَا یَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِهٖؕ-وَ اللّٰهُ الْغَنِیُّ وَ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُۚ-وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَكُمْۙ-ثُمَّ لَا یَكُوْنُوْۤا اَمْثَالَكُمْ۠(۳۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان: ہاں ہاں یہ تم ہوجو بلائے جاتے ہو تاکہ تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو تم میں کوئی بخل کرتا ہے اور جو بخل کرے وہ اپنی ہی جان سے بخل کرتا ہے اور اللہ بے نیاز ہے اور تم سب محتاج ہو اور اگر تم منہ پھیرو گے تو وہ تمہارے سوا اور لوگ بدل دے گا پھر وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔(پ26،محمد:38)

(1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےارشاد فرمایا :آدمی کی دو عادتیں بری ہیں :(1) بخیلی جو رلانے والی ہے۔(2) بزدلی جو ذلیل کرنے والی ہے ۔(ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فی الجرأۃ والجبن، 3 / 18، حدیث: 2511)(2) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مالدار بخل کرنے کی وجہ سے بلا حساب جہنم میں داخل ہوں گے۔(فردوس الاخبار، باب السین، 1 / 444، حدیث: 3309)(3) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمَا سے روایت ہے ، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : کوئی بخیل جنت میں نہیں جائے گا ۔(معجم الاوسط، باب العین، من اسمہ علی، 3 / 125، حدیث: 4066)(4) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:بخیل اللہ سے دور ہے، جنت سے اور آدمیوں سے دور ہے جبکہ جہنم سے قریب ہے۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی السخاء، 3 / 387، حدیث: 1968)(5)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :بخل جہنم میں ایک درخت ہے، جو بخیل ہے اُس نے اس کی ٹہنی پکڑ لی ہے، وہ ٹہنی اُسے جہنم میں داخل کیے بغیر نہ چھوڑے گی۔(شعب الایمان، الرابع و السبعون من شعب الایمان، 7 / 435، حدیث: 10877)

بخل کا علمی اور عملی علاج:بخل کا علاج یوں ممکن ہے کہ بخل کے اسباب پر غور کر کے انہیں دور کرنے کی کوشش کی جائے ،جیسے بخل کا بہت بڑا سبب مال کی محبت ہے ، مال سے محبت نفسانی خواہش اور لمبی عمر تک زندہ رہنے کی امید کی وجہ سے ہوتی ہے، اسے قناعت اور صبر کے ذریعے اور بکثر ت موت کی یاد اور دنیا سے جانے والوں کے حالات پر غور کر کے دور کرے ۔ یونہی بخل کی مذمت اور سخاوت کی فضیلت، حُبّ مال کی آفات پر مشتمل اَحادیث و روایات اور حکایات کا مطالعہ کر کے غور و فکر کرنا بھی اس مُہلِک مرض سے نجات حاصل کرنے میں معاون ثابت ہو گا۔(کیمیائے سعادت، رکن سوم، اصل ششم، علاج بخل، 2 / 650، ملخصاً)

اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنی راہ میں دل کھول کر خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور بخل جیسی مذموم صفت سے بچائے۔ اٰمین


ہمارے پیارے دینِ اسلام نے ہمیں مسلمانوں کی خیر خواہی حسنِ سلوک اور غریبوں کی مدد کرنے کا درس دیا ہے اسی لئے ہر سال صاحبِ نصاب افراد پر چند شرائط پائی جانے کی صورت میں زکوٰۃ فرض فرمائی۔ نفلی صدقات کے فضائل بیان فرما کر لوگوں کو سخاوت کا درس دیا اور بخل کی مذمّت بیان فرمائی ۔ بخل کے بارے میں 5 احادیث پڑھئے:

(1) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سخاوت جنّت میں ایک درخت ہے ، جو سخی ہے، اس نے اس کی ٹہنی پکڑ لی ہے وہ ٹہنی اس کو نہ چھوڑے گی جب تک جنّت میں داخل نہ کروا لے اور بخل جہنّم میں ایک درخت ہے ،جو بخیل ہے، اس نے اس کی ٹہنی پکڑ لی ہے وہ ٹہنی اسے جہنّم میں داخل کئے بغیر نہ چھوڑے گی۔ (شعب الایمان،7/435،حدیث:10877)

(2)اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مؤمن میں دو خصلتیں کبھی جمع نہیں ہوتیں کنجوسی اور بَد خُلقی۔(ترمذی، 3/387، حدیث:1969) مراٰةُالمناجيح میں ہے: یعنی ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی کامل مؤمن بھی ہو اور ہمیشہ کا بخیل اور بد خُلق بھی ہو،اگر اتفاقاً کبھی اس سے بخل یا بد خلقی صادر ہو جائے تو فوراً وہ پشیمان ہو جاتا ہے۔ (مراٰۃ المناجیح،3/75)

(3) پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ حقیقت نشان ہے:اگر ابنِ آدم کے پاس سونے کی 2 وادیاں بھی ہوں تب بھی یہ تیسری کی خواہش کرے گا اور ابنِ آدم کا پیٹ قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔(مسلم،ص404،حدیث:2415) حضرت علامہ علی قاری رحمۃُ اللہِ علیہفرماتے ہیں:اس حدیث میں اس بات کی تنبیہ ہے کہ انسان کی فطرت میں ایک بخل ہوتا ہے جو اسے لالچی بناتا ہے۔(مرقاۃ المفاتیح،9/124)

(4)حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:کنجوسی سے بچو، کیونکہ کنجوسی نے تم سے پہلے والوں کو ہلاک کر دیا، کنجوسی نے انہیں رغبت دی کہ انہوں نے خون ریزی کی، حرام کو حلال جانا۔ (مشکاۃ،1/354،حدیث:1865)

(5)فرمانِ مصطفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم :ایسا کوئی دن نہیں جس میں بندے سویرا کریں اور دوفرشتے نہ اتریں، ان میں سے ایک تو کہتا ہے: الٰہی سخی کو زیادہ اچھا عوض دے اور دوسرا کہتا ہے کہ الٰہی بخیل کو بربادی دے۔(مشکاۃ،1/353،حدیث:1860) حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہاس حدیثِ پاک کی شرح میں فرماتے ہیں: یعنی سخی کےلئے دعا اور کنجوس کےلئے بددعا، روزانہ فرشتوں کے منہ سے نکلتی ہے جو یقیناً قبول ہے اور تجربہ دن رات ہو رہا ہے کہ کنجوس کا مال حکیم، ڈاکٹر، وکیل یا نالائق اولاد برباد کرتی ہے۔(مراٰۃ المناجیح،3/70 ملتقطاً)

پیارےاسلامی بھائیو!اگر آپ صدقہ و خیرات کا ذہن پانا چاہتے ہیں تو دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ ہو جائیے اِن شآءَ اللہ اس کی برکت سے بخل کی بیماری کے ساتھ ساتھ دیگر برائیوں سے بھی چھٹکارا نصیب ہو گا اور نیک بننے کا جذبہ نصیب ہو گا۔اِن شآءَ اللہ