وَ  لَا  یَحْسَبَنَّ  الَّذِیْنَ  یَبْخَلُوْنَ  بِمَاۤ  اٰتٰىهُمُ  اللّٰهُ  مِنْ  فَضْلِهٖ  هُوَ  خَیْرًا  لَّهُمْؕ-بَلْ  هُوَ  شَرٌّ  لَّهُمْؕ-سَیُطَوَّقُوْنَ  مَا  بَخِلُوْا  بِهٖ  یَوْمَ  الْقِیٰمَةِؕ-وَ  لِلّٰهِ  مِیْرَاثُ  السَّمٰوٰتِ  وَ  الْاَرْضِؕ-وَ  اللّٰهُ  بِمَا  تَعْمَلُوْنَ  خَبِیْرٌ۠(۱۸۰)۔

ترجمۂ کنز الایمان: اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ہرگز اسے اپنے لیے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لیے برا ہے عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہوگا اور اللہ ہی وراث ہے آسمانوں اور زمین کااور اللہ تمھارے کا موں سے خبردار ہے۔ (پ 4،آل عمران:180)باطنی امراض میں سے ایک مہلِک(ہلاک کرنے والا) مرض بخل بھی ہے جس کے متعلق قرآن و حدیث میں بہت سخت وعیدات موجود ہیں۔ بخل کی مذمت کے متعلق فرامینِ مصطفٰےصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سننے سے پہلے بخل کے معنی و مفہوم کو سمجھنا بہتر ہے۔

بخل کی تعریف :بخل کے لغوی معنی کنجوس کے ہیں اورجہاں خرچ کرنا شرعاً، عادتاً یا مروتاً لازم ہو وہاں خرچ نہ کرنا بخل کہلاتا ہے یا جس جگہ مال و اسباب خرچ کرنا ضروری ہو وہاں خرچ نہ کرنا یہ بھی بخل ہے۔(الحدیقہ الندیہ، 2 / 154)اب بخل کی مذمت کے متعلق فرامینِ مصطفٰےصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سنتے ہیں۔کتبِ احادیث میں اس کی مذمت پر کثیر احادیث موجود ہیں، جن میں سے 5 فرامینِ مصطفٰےصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مندرجہ ذیل ہیں:

(1) إن اللّٰه يبغض البخيل في حياته السخی عند موتہ یعنی اللہ پاک اس شخص کو ناپسند فرماتا ہے جو زندگی بھر بخل اور مرتے وقت سخاوت کرے۔(كنز العمال، کتاب الاخلاق، الباب الثاني في الاخلاق والافعال المذمومة، 3/ 180، حدیث: 7373) (2) السخی الجهول أحب إلى اللّٰه من العابد البخیل یعنی جاہل سخی اللہ پاک کو عبادت گزار بخیل سے زیادہ محبوب ہے۔(شعب الايمان، باب في الجودو السخاء، 7 / 428، حدیث : 10847)(3) الشح والإيمان لا يجتمعان في قلب عبد یعنی کسی بندے کے دل میں بخل اور ایمان جمع نہیں ہو سکتے۔(سنن النسائی، کتاب الجهاد، باب فضل من عمل في سبيل اللہ ... الخ، ص 505 ، حدیث : 3108) (4) خصلتان لايجتمعان في مؤمن البخل وسوء الخلق یعنی دو عادتیں کسی مؤمن میں جمع نہیں ہو سکتیں:(1) بخل اور (2) بد اخلاقی۔(سنن الترمذی، کتاب البر والصلة، باب ماجاء في البخل، 3/ 387، حدیث : 1969) (5) لایدخل الجنة بخیل ولاخب ولاسئی الملكة ) یعنی بخیل ، دھوکے باز ، خیانت کرنے والا اور بد اخلاق جنت میں نہیں جائیں گے ۔(المسند للامام احمد بن حنبل، مسند ابي بكر الصديق، 1/ 20، حدیث : 30)

تمام ظاہری و جسمانی امراض کا علاج کرنا ضروری ہے لیکن تمام باطنی امراض کا علاج کرنا زیادہ ضروری ہے کیونکہ جسمانی امراض سے جان جانے کا خطرہ ہوتا ہے اور باطنی امراض سے ایمان جانے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ اسی لیے بخل کا بھی علاج ضروری ہے۔ اللہ والوں نے بخل کے علاج کی کئی صورتیں بیان کی ہیں جن میں سے دو ممکنہ صورتیں یہ ہیں: ایک علمی علاج، وہ یہ ہے کہ انسان بخل کے نقصانات اور سخاوت کے فوائد کا علم حاصل کرے تا کہ ضرورت سے زائد مال جمع نہ کرنے کا ذہن بنے۔اسی طرح قبر و آخرت کے منازل کا علم حاصل کرے اور اپنی موت کو ہر وقت یاد رکھے کہ کسی بھی لمحے موت آ سکتی ہے اور جتنا مال بھی میں جمع کر لوں وہ سب میرے پیچھے رہ جائے گا اور قبر و حشر میں یہ مال و دولت میرے کسی کام نہ ائے گا سوائے اس کے جو راہِ خدا میں خرچ ہوا ہو بلکہ مزید مشکل کا سامان بنے گا کہ جتنا زیادہ مال ہوگا اسی قدر زیادہ سخت حساب و کتاب ہوگا اور دوسرا علاج عملی ہے کہ نہ صرف سخاوت کے فوائد کا علم حاصل کرے بلکہ استقامت کے ساتھ اپنے مال کا کچھ نہ کچھ حصہ راہِ خدا میں صدقہ و خیرات کرتا رہے۔ اس سے مال کی محبت دل سے دور ہوتی رہے گی اور بخل جیسی مہلک بیماری سے بھی نجات ملتی رہے گی۔

اللہ پاک ہمیں بخل،حبِ جاہ و مال، ریاکاری، حسد، بغض و کینہ الغرض تمام تر باطنی و ظاھری امراض سے محفوظ فرمائے۔اٰمین