سب چیزوں کا اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے، اسی نے اپنے بندوں کو ہر چیز سے نوازا ہے لیکن استعمال کرنے کی بھی اسی ذات نے تحدید فرمائی ہے، جس میں اس کی پابندی اور تابعداری ضروری ہے۔ اس لیے اس کے دیئے ہوئے مال میں نہ کنجوسی کی کوئی گنجائش ہے اور نہ اسراف کی۔ کنجوسی صرف مال پہ ہی نہیں ہوتی بلکہ محبت اور شفقت کے اظہار میں، مسکراہٹ بکھیرنے میں، تسلی و تشفی دینے میں، گویا بخیل دینے کے ہر عمل سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے۔ عمر گزرنے کے ساتھ انسان کے بہت سے عیوب چھٹ جاتے ہیں لیکن بخل پہلے سے بڑھ کر جوان ہوتا ہے۔ بخیل کی مثال اس پیاسے اونٹ کی ہے جس کی پیٹھ پر پانی لدا ہو۔

بُخْل کے لغوی معنیٰ کنجوسی کے ہیں اور جہاں خرچ کرنا شرعاً،عادتاً یا مروّتاً لازم ہو وہاں خرچ نہ کرنا بُخْل کہلاتا ہے، یا جس جگہ مال و اسباب خرچ کرناضروری ہو وہاں خرچ نہ کرنا یہ بھی بُخْل ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۲۸)

بخل فقر کے راستہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ فقر عشق ہے اور عشق قربانی مانگتا ہے اس لیے بخیل اپنے بخل کی وجہ سے اس راستے پر نہیں چل سکتا یہ ایک مزاجی کیفیت کا نام ہے ۔ جس شخص کو یہ بیماری لگ جاتی ہے، وہ خود دنیا کی ساری چیزوں کا مالک بن کر رہنا چاہتا ہے۔ اس کے دل و دماغ میں خودغرضی اور خودنمائی سمائی ہوئی ہوتی ہے۔ اسے صرف اپنی ذات سے محبت ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے اس کے ہر رویے سے تنگی جھلکتی ہے۔ مزاج و طبیعت میں بخل نظر آتا ہے۔ اس مزاجی کیفیت کی جھلک کبھی مال و دولت میں دکھائی دیتی ہے، کبھی علم و فن میں اس کا رنگ ظاہر ہوتا ہے اور کبھی اخلاق و عادات اور رویے میں اس کی آہنگ سنی جاتی ہے۔

ایک مقولہ ہے کہ سخی شخص کے دشمن بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں جبکہ بخیل کی اولاد بھی اس سے بغض رکھتی ہے۔ بخل نہایت بری عادت ہے۔ یہ کم عقلی کی علامت ہے۔ بخیل انسان اللہ کے ہاں ناپسندیدہ شخص ہے۔ یہ ایک ایسی بد خصلت ہے جو انسان کی زندگی کے کسی ایک پہلو ہی پر اثر نہیں ڈالتی بلکہ اس کی سوچ اور عمل دونوں پر حاوی ہو جاتی ہے۔ بخل انسان کو اس طرح جکڑ لیتا ہے کہ وہ تمام عمر اس کے اثر سے نہیں نکل پاتا۔ بخل انسانی صفات میں کمی اور حیوانی صفات کے غالب آجانے کی دلیل ہے۔ جب وہ مال کا بندہ بن جاتا ہے تو نہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی رہتا ہے اور نہ مخلوق۔

بخل کے بارے میں تنبیہ:بخل ایک نہایت ہی قبیح اور مذموم فعل ہے، نیز بخل بسا اوقات دیگر کئی گناہوں کا بھی سبب بن جاتا ہے اس لیے ہر مسلمان کو اس سے بچنا لازم ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۳۰)

بخیل شخص کے اخلاق، معاملات اور رویے میں بھی تنگی کا ہی مظاہرہ ہوتا ہے۔ وہ شفقت، ہمدردی، احسان، رواداری،حُسنِ سلوک جیسے اوصاف سے عاری دکھائی دیتا ہے۔ دوسروں کو پھلتا پھولتا، خوش حال اور مسکراتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا۔ اس کی ذات سے دوسروں کو زحمت ہی ملتی ہے۔ اسے پھول سے الجھن ہوتی ہے، وہ راستوں میں کانٹے ڈالنے کا ہی کام کرتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس رویے پر ہلاکت کی وعید سنائی ہے۔ارشادِ ربانی ہے: ’’ پھر تباہی ہے ان نمازیوں کے لئے جو اپنی نمازوں میں غافل رہتے ہیں اور جو دکھاوا کرتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی معمولی چیزوں کو مانگنے پر نہیں دیتے۔ (الماعون: ۴ - ۷)

بخل کی مذمت پر 5 احادیثِ مبارکہ:

(1) رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک نے اس بات پر قسم یادفرمائی ہے کہ جنت ميں کوئی بخیل داخل نہ ہو گا۔ (کنزالعمال،کتاب الاخلاق،قسم الاقوال،جزء ۳،۲/۱۸۱،حدیث:۷۳۸۲)

(2) حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ’’جس کو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مال دیا اور اس نے زکوٰۃ ادا نہ کی، روز قیامت وہ مال سانپ بن کر اس کو طوق کی طرح لپٹے گااور یہ کہہ کر ڈستا جائے گا کہ میں تیرا مال ہوں ، میں تیرا خزانہ ہوں۔ ( بخاری، کتاب الزکاۃ، باب اثم مانع الزکاۃ، ۱ / ۴۷۴ ، الحدیث : ۱۴۰۳)

(3)خاتم النبیین رحمتہ اللعالمین حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ دو بھوکے بھیڑیے بکریوں کے ریوڑ میں گھس کر اتنا نقصان نہیں کرتے جتنی مال و جاہ کی چاہت انسان کا دین برباد کر دیتی ہے۔ (ترمذی)

(4) حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے ، حضور پر نور ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’بخل جہنم میں ایک درخت ہے، جو بخیل ہے اُس نے اس کی ٹہنی پکڑ لی ہے، وہ ٹہنی اُسے جہنم میں داخل کیے بغیر نہ چھوڑے گی۔ ( شعب الایمان، الرابع و السبعون من شعب الایمان، ۷ / ۴۳۵ ، الحدیث : ۱۰۸۷۷)

(5) حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ بندوں پر کوئی صبح نہیں آتی مگر اس میں دو فرشتے نازل ہوتے ہیں، ان میں سے ایک کہتا ہے کہ اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدل عطا فرما اور دوسرا کہتا ہے اے اللہ! بخل کرنے والے کو تباہی عطا کر۔ (صحیح بخاری1356)

بخل کا علاج یوں ممکن ہے کہ بخل کے اسباب پر غور کر کے انہیں دور کرنے کی کوشش کرے ،جیسے بخل کا بہت بڑا سبب مال کی محبت ہے ، مال سے محبت نفسانی خواہش اور لمبی عمر تک زندہ رہنے کی امید کی وجہ سے ہوتی ہے، اسے قناعت اور صبر کے ذریعے اور بکثر ت موت کی یادا ور دنیا سے جانے والوں کے حالات پر غور کر کے دور کرے ۔ یونہی بخل کی مذمت اور سخاوت کی فضیلت، حُبّ مال کی آفات پر مشتمل اَحادیث و روایات اور حکایات کا مطالعہ کر کے غورو فکر کرنا بھی اس مُہلِک مرض سے نجات حاصل کرنے میں ممد و معاون ثابت ہو گا ۔

سخاوت اور بخل دو دریا ہیں جو ایک دوسرے کے متوازی بہتے ہیں۔ سخاوت کا دریا اگرچہ ٹھنڈے اور شریں پانی کا ہے لیکن اس کے اندر اور کناروں پر بہت ہی کم لوگ نظر آتے ہیں۔ یہ خوش بخت لوگ ہیں۔ اس کے برعکس بخل کے دریا کا پانی کھارا اور بدذائقہ ہے لیکن اس کے اندر اور کناروں پر لوگوں کا جمِ غفیر ہے۔ یہ مادہ پرست بدبخت لوگ ہیں۔ حاصل بحث یہ کہ بخل (کنجوسی) کی راہ اختیار نہ کی جائے اور دل کھول کر اللہ پاک کی بارگاہ میں مال خرچ کیا جائے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو دعائیں مانگی ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ’’ اے اللہ مجھے بخیل ہونے سے بچا۔‘‘ (صحیح بخاری)

اللہ تعالیٰ ہمیں شیطان کے شر اور نفس کی چالبازیوں سے اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین