بخل کی تعریف: بخل کے لغوی معنیٰ کنجوسی کے ہیں اور جہاں خرچ کرنا شرعاً،عادتاً یاہو
مروّتاً لازم وہاں خرچ نہ کرنا بُخْل کہلاتا ہے، یا جس جگہ مال و اسباب خرچ کرناضروری
ہو وہاں خرچ نہ کرنا یہ بھی بُخْل ہے۔ (حرص، ص۴۲ملتقطاً) (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۲۸)
اللہ قرآن
پاک میں ارشاد فرماتاہے:وَ لَا
يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ هُوَ
خَيْرًا لَّهُمْ١ؕ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ١ؕ سَيُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ
يَوْمَ الْقِيٰمَةِ١ؕ وَ لِلّٰهِ مِيْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ
خَبِيْرٌ
(پ۴، آل عمران: ۱۸۰)
ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے
دی ہرگز اسے اپنے لئے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لئے برا ہے عنقریب وہ جس میں بخل
کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہو گا اور اللہ ہی وارث ہے آسمانوں اور زمین
کا اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔‘‘
صدر الافاضل
حضرتِ علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی’’خزائن العرفان‘‘ میں اس آیت
مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : ’’بخل کے معنٰی میں اکثر علماء اس طرف گئے ہیں کہ واجب
کا ادا نہ کرنا بخل ہے اسی لئے بخل پر شدید وعیدیں آئی ہیں چنانچہ اس آیت میں بھی
ایک وعید آرہی ہے ترمذی کی حدیث میں ہے بخل اور بدخلقی
یہ دو خصلتیں ایماندار میں جمع نہیں ہوتیں۔ اکثر مُفَسِّرِین نے فرمایا کہ یہاں
بخل سے زکوٰۃ کا نہ دینا مراد ہے۔‘‘ مزید فرماتے ہیں : ’’بخاری شریف کی حدیث میں ہے
کہ جس کو اللہ نے مال دیا اور اس نے زکوٰۃ ادا نہ کی روز قیامت وہ مال سانپ بن کر اُس
کو طوق کی طرح لپٹے گااور یہ کہہ کر ڈستا جائے گا کہ میں تیرا مال ہوں میں تیرا خزانہ
ہوں۔‘‘(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۲۸،۱۲۹)
بخل ہلاکت کا سبب ہے: حضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن عمرو رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ سرکار مدينہ، راحت قلب و سينہ صَلَّی اللہُ تَعَا
لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے
پہلی قوميں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئيں ، لالچ نے انہيں بُخْل پر آمادہ کيا تو وہ بُخْل
کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خيال دلايا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم
ديا تو وہ گناہ ميں پڑ گئے۔‘‘ (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۲۹،۱۳۰)
بخل کے بارے میں تنبیہ: بخل ایک نہایت ہی قبیح اور مذموم فعل ہے،
نیز بخل بسا اوقات دیگر کئی گناہوں کا بھی سبب بن جاتا ہے اس لیے ہر مسلمان کو اس سے
بچنا لازم ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۳۰)
بخل کےپانچ اسبا ب اور ان کا علاج :
1۔ بخل
کاپہلا سبب تنگ دستی کاخوف ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اس بات کو ہمیشہ ذہن میں رکھے
کہ راہ خدا میں مال خرچ کرنے سے کمی نہیں آتی بلکہ اِضافہ ہوتا ہے۔
2۔بخل
کا دوسرا سبب مال سے محبت ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ قبر کی تنہائی کو یاد کرے کہ
میرا یہ مال قبر میں میرے کسی کا م نہ آئے گابلکہ میرے مرنے کے بعد ورثاء اسے بے دردی
سے تصرف میں لائیں گے۔
3۔بخل
کا تیسرا سبب نفسانی خواہشات کا غلبہ ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ خواہشات نفسانی کے
نقصانات اور اُس کے اُخروی انجام کا باربار مطالعہ کرے۔ اس سلسلے میں امیر اہل سنت
کارسالہ’’ گناہوں کا علاج ‘‘پڑھنا حد درجہ مفیدہے۔
4۔بخل
کا چوتھا سبب بچوں کے روشن مستقبل کی خواہش ہے۔اس کا علاج یہ ہےکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ
پر بھروسہ رکھنے میں اپنے اعتقاد ویقین کو مزید پختہ کرے کہ جس ربّ عَزَّ وَجَلَّ نے
میرا مستقبل بہتر بنایا ہے وہی ربّ عَزَّ وَجَلَّ میرے بچوں کے مستقبل کو بھی بہتر
بنانے پر قادر ہے۔
5۔بخل
کا پانچواں سبب آخرت کے معاملے میں غفلت ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اس بات پر غور
کرے کہ مرنے کے بعد جو مال ودولت میں نے راہِ خدا میں خرچ کی وہ مجھے نفع دے سکتی ہے،لہٰذا
اس فانی مال سے نفع اٹھانے کے لیے اسے نیکی کے کاموں میں خرچ کرنا ہی عقل مندی ہے۔ (احیاء العلوم،ج۳،ص۷۸۴ تا۷۸۷ملتقطا) (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۳۱،۱۳۲)
بخل کی مذمت پر 2 احادیثِ مبارکہ
آئیے!بخل
کی مذمّت پر 2 احادیثِ مُبارَکہ سنئے اور اس باطنی بیماری سے بچنے کی کوشش کیجئے
، چنانچہ
(1)پیارے
آقاﷺ نے فرمایا :اس اُمت کے پہلے لوگ یقین اور زُہد کے ذريعے نجات پائيں گے جبکہ آخری
لوگ بخل اور خواہشات کے سبب ہلاکت میں مبتلا ہوں گے۔(فردوس الاخبار،۲/۳۷۴ ،حدیث:۷۱۰۶)
(2)
پیارے
آقاﷺ نے فرمایا:اللہ پاک نے اس بات پر قسم
یادفرمائی ہے کہ جنت ميں کوئی بخیل داخل نہ ہو گا۔(کنزالعمال،کتاب الاخلاق،قسم الاقوال،جزء
۳،۲/۱۸۱،حدیث:۷۳۸۲)
معزز قارئین!سُنا
آپ نے کہ بخل کی کس قدر تباہ کاریاں ہیں ،کیا
یہ ہلاکت کم ہے کہ اللہ پاک نے اس بات پر قسم ذِکر فرمائی ہے کہ جنت میں کوئی کنجوس شخص داخل
نہ ہو گا۔کیا اب بھی ہم بخل جیسی نحوست سے
نہیں بچیں گے؟کیا اب بھی ہم کنجوسی سے کام
لیں گے؟کیا اب بھی بخل کے ذریعے اپنی ہلاکت کے اسباب خود ہی پیدا کریں گے؟ کیا اب بھی
صدقہ و خیرات سے جی چُرائیں گے ؟یاد رکھئے! بخیل شخص لوگوں کی نظروں میں حقیر بن جاتا ہے اور معاشرے) (Societyمیں اسے عزّت کی
نگاہ سے نہیں دیکھا جاتااور ایسا کنجوس شخص ابلیس لعین کو بہت پسند ہے۔ چنانچہ
حضرتِ
یحییٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے ابلیس سے پوچھا:تجھے
کونسا آدمی پسنداور کونسا ناپسند ہے؟ ابلیس نے کہا:مجھے مومن بخیل پسند ہے مگر گنہگار
سخی پسند نہیں ؟ آپ عَلَیْہِ الصلوٰۃو السَّلَام نے پوچھا: وہ کیوں؟ ابلیس نے کہا:اس لئے کہ بخیل(کنجوس)
کو تو اس کا بخل ہی لے ڈُوبے گا مگر فاسق سخی کے متعلق مجھے یہ خطرہ ہے کہ کہیں اللہ تَعَالی اس کے گناہوں کو اس کی سخاوت کے باعث معاف نہ فرمادے۔ پھر ابلیس
جاتے ہوئے کہتا گیا کہ اگر آپ پیغمبر نہ ہوتے تو میں(راز کی یہ باتیں )کبھی نہ بتلاتا۔ (مکاشفۃ
القلوب ،ص ۱۸۱)
معزز قارئین!
سُنا آپ نے کہ بخیل (کنجوس)شخص شیطان کو بہت
پسند ہے کہ ایسے شخص پر ابلیس کو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی بلکہ اس شخص کا بخل ہی اسے لے ڈُوبتا ہے ۔ کنجوسی کئی دِینی اور
دُنیوی نقصانات کا سبب بنتی ہے۔
بخل کے دِینی نقصانات: آئیے!کنجوسی کے چند دِینی نُقصانات سُنئے اور اس عادتِ بَد سے چُھٹکارا
پانے کی نِیَّت بھی کیجئے ،چُنانچہ
(1)بخل(یعنی کنجوسی ) کرنے والاکبھی کامل مومن
نہیں بن سکتا بلکہ کبھی بخل ایمان سے بھی روک
دیتا ہے اور انسان کو کُفر کی طرف لے جاتا ہے ،جیسے قارون کو اس کے بُخل نے اسلام قبول
کرنے سے روک دیا۔(2) بخل کرنے والا گویا کہ
اس درخت کی شاخ پکڑ رہا ہے جو اسے جہنم کی آگ میں داخل کر کے ہی چھوڑے گی۔(3)بخل کی وجہ سے جنّت میں داخل ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔ (4)بخل کرنے والا
مال خرچ کرنے کے ثواب سے محروم ہوجاتا اور نہ خرچ کرنے کے وبال میں مبتلا ہو جاتا ہے۔(5)بخل کرنے والا حرص جیسی خطرناک
باطنی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے اور اُس پر مال جمع کرنے کی دُھن سوار ہو جاتی ہے
اورا س کیلئے وہ جائز ناجائز تک کی پروا کرنا چھوڑ دیتا ہےاور اس کے علاوہ بھی بہت
سے دِینی نقصانات ہیں۔(صراط الجنان ،۹/۳۳۳)
بخل کے دُنیوی نقصانات : آئیے!اب اِس بخل
کی وجہ سے ہونے والے دُنیوی نقصانات کے متعلق
سُنتے ہیں۔
(1)بخل(یعنی
کنجوسی)آدمی کی سب سے بدتر(بُری)خامی ہے۔(2)بخل ملامت اور رُسوائی کا ذریعہ ہے۔ (3)بخل(کنجوسی)
خونریزی(قتل و غارت) اور فساد کی جڑ اور ہلاکت وبربادی کا سبب ہے۔ (4)بخل (کنجوسی)ظلم
کرنے پر اُبھارتا ہے۔(5)بخل کرنے سے رشتہ داریاں ٹُوٹتی ہیں ۔(6) بخل کرنے کی وجہ سے آدمی مال کی برکت سےمحروم ہوجاتا ہے۔(صراط الجنان ،۹/۳۳۳)
صَلُّوْا
عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
بُخْل
سے بچئے!بعض نادان دنیاوی مال و دولت کے اتنے حریص ہوتے ہیں کہ راہِ خدا میں صدقہ و خیرات کا نام سُنتے ہی دُور
بھاگتے ہیں اور کنجوسی کی حد پار کرتے ہوئے
اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرنا تو دُور کی بات اپنی ذات اور اپنے گھر والوں کی ضروری حاجات بھی مرے دل سے پوری کرتے ہیں،ایسے لوگوں کے
دل و دماغ پر ہر وقت دنیاوی مال و دولت جمع
کرنے کا جنون سوار رہتا ہے اور پھر یہی بخل و حرص آہستہ آہستہ انہیں سرکش اور یادِ خُداوندی سے غافِل کردیتی ہے ۔قرآنِ
پاک میں مالداروں اور صاحبِ ثروت لوگوں کو
راہِ خدا میں خرچ کرنے اور بُخْل سے بچنے کی ترغیب دلائی گئی ہے ،چنانچہ پارہ 26
سورۂ محمد آیت نمبر 38 میں ارشادِ باری تعالیٰ
ہے:
هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ١ۚ
فَمِنْكُمْ مَّنْ يَّبْخَلُ١ۚ وَ مَنْ يَّبْخَلْ فَاِنَّمَا يَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِهٖ١ؕ
وَ اللّٰهُ الْغَنِيُّ وَ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ١ۚ وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا
يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ١ۙ ثُمَّ لَا يَكُوْنُوْۤا اَمْثَالَكُمْ (پ۲۶، محمد:۳۸) ترجمۂ کنزالایمان:ہاں ہاں یہ جو تم ہو
بلائے جاتے ہو کہ اللہ کی راہ میں خَرْچ کرو
تو تم میں کوئی بخل کرتا ہے اور جو بخل کرے وہ اپنی ہی جان پر بخل کرتا ہے اوراللہ بے نیاز ہے اور تم سب محتاج اور اگر تم منہ پھیرو
تو وہ تمہارے سِوا اور لوگ بدل لے گا پھر وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔
صَلُّوْا
عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
انسان کی ہلاکت: معزز قارئین!جو
لوگ کنجوسی سے کام لیتے ہوئے راہِ خُدا میں
مال خرچ کرنے کے بجائے جمع کرنے میں لگے رہتے ہیں وہ دنیاوی نقصانات کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی خسارہ اُٹھائیں گے ۔
اللہ عزوجل
ہمیں بخل جیسی باطنی بیماری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین