اللہ کی راہ میں جو مال خرچ کریں اس کی برکتیں دنیا وآخرت میں ظاہر ہوتی ہیں بخیل شخص ان سے محروم رہتا ہے۔ شیطان مردود وسوسے ڈالتا ہے کہ خرچ کرو گے تو ختم ہو جائے گا،لوگوں کو کِھلاؤ گے تو خود کیا کھاؤ گے؟ اس طرح وَسوسوں سے انسان کو بُخل پر اُکساتا ہے۔ بُخل یہ ہے کہ خود کھائے دوسرے کو نہ دے۔  (ضیائے صدقات* ص99)

حق یہ ہے کہ جہاں خرچ کرنا واجب ہو وہاں خرچ نہ کرنا بُخل ہے اور جہاں خرچ نہ کرنا واجب ہو وہاں خرچ کرنا فضول خرچی اور اِسراف ہے۔ (جہنم میں لے جانے والے اعمال* ج1,ص561)

بخل بہت مَذموم فعل ہے۔آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مذمت فرمائی ہے؛فرمایا: ایسا کوئی دن نہیں جس میں بندے سویرا کریں اور دو فرشتے نہ اتریں جن میں سے ایک تو کہتا ہے:الہی سَخی کو اور زیادہ اچھا عِوض دے اور دوسرا کہتا ہے:الہی بخیل کو بربادی دے۔ یعنی سخی کے لیے دعا کنجوس کے لیے بد دعا روزانہ فرشتوں کے منہ سے نکلتی ہےجو یقیناً قبول ہے، خیال رہے کہ خَلَف مطلقاً عوض کو کہتے ہیں دنیوی ہو یا اخروی، حِسی ہو یا مَعنوی مگر تَلَف دنیوی اور حسی بربادی کو کہا جاتا ہے،اللہ فرماتا ہے: ترجمہ كنزالایمان:اور جو چیز تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو وہ اس کے بدلے اور دے گا۔ (السبا : 39) (مرآۃ المناجیع شرح مشکاۃ المصابیح ج3، ص69, 70) (ضیائے صدقات ص106,107)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنّت میں نہ تو فریبی آدمی جائے گا نہ کنجوس نہ احسان جتانے والا۔ (سنن الترمذی،کتاب البر الصلة،باب ماجاءفی البخیل،الحدیث:1964,ج3,ص94)(مشکاة المصابیح،کتاب الزکاة،باب الانفاق و کراھیةالامساک،الحدیث:1873،ج1,ص335) (ضیائے صدقات ص128) یعنی جو ان عیبوں پر مر جائے وہ جنتی نہیں کیوں کہ وہ منافق ہے مومن میں اولاً تو یہ عیب ہوتے نہیں اور اگر ہوں تو اللہ مرنے سے پہلے توبہ نصیب کر دیتا ہے یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ایسا آدمی جنّت میں پہلے نہ جائے گا،اِحسان جتانے سے طَعنہ دینا مراد ہے ورنہ بعض صورتوں میں احسان جتانا عِبادت ہے جبکہ اس سے سامنے والے کی اِصلاح مَقصود ہو۔ (مرآۃ المناجیع شرح مشکاۃ المصابیح ج 3،ص76,77)(ضیائے صدقات ص129)

آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:سخِی اللہ سے قریب ہے جنّت سے قریب ہے، لوگوں سے قریب ہے،آگ سے دور ہے اور کنجوس اللہ سے دور ہے،جنّت سے دور ہے،لوگوں سے دور ہے،آگ کے قریب ہے اور یقیناً جاہل سخی کنجوس عابِد سے افضل ہے۔ ۔جو شخص عابِد ہو مگر ہو کنجوس کہ نہ زکٰوۃ دے نہ صدقات واجبہ ادا کرے وہ یقیناً سخی جاہِل سے بدتر ہو گا ۔ بُخل بہت سے فِسق پیدا کردیتا ہے۔اور سَخاوت بہت خوبیوں کا تُخَم ہے بلکہ وہ عابِد بھی کامل نہیں کیوں کہ عبادت مالی یعنی زکٰوة وغیرہ ادا نہیں کرتا،صرف جسمانی عبادت ذکروفکر پرقناعت کرتا ہےجس میں کچھ خرچ نہ ہو۔ (مرآۃ المناجیع* ج 3،ص77,78،الحدیث1869)

ایک جگہ فرمایا:ظلم سے بچو کیوں کہ ظلم قِیامت کے دن اندھیریاں ہو گا اور کنجوس سے بچو کیوں کہ کنجوسی نے تم سے پہلے والوں کو ہلاک کردیا کنجوسی نے انہیں رغبت دی کہ انہوں نے خون ریزی کی حرام کو حلال جانا۔ عربی میں شُح بُخل سے بدتر ہے،بخل اپنا مال کسی کو نہ دینا اور شُح اپنا مال نہ دینا اور دوسرے کے مال پر ناجائز قبضہ کرنا ہے۔غرض کہ شح بُخل،حِرص اور ظُلم کا مجموعہ ہے اس لیے یہ فتنوں فساد ،خون ریزی وقطع رحمی کی جڑ ہے۔ جب کوئی دوسروں کا حق ادا نہ کرے بلکہ ان کے حق اور چھننا چاہے تو خواہ مخواہ فساد ہوگا۔ (مرآۃ المناجیع ج 3،ص75,الحدیث1865)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مومن میں دو خصلتیں کبھی جمع نہیں ہوتیں کنجوسی اور بد خلقی۔ یعنی ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی کامل مومن بھی ہو اور ہمیشہ کا بخیل اور بد خُلق بھی،اگر اتفاقاً کبھی اس سے بخل یا بد خُلقی صادِر ہو جائے تو فورًا وہ پَشِیمان بھی ہوجاتا ہے اس کے ایک معنیٰ یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ مومن نہ بخیل ہوتا ہے نہ بد خلق،جس دل میں ایمان کامل جاگزِیں ہو تو اس دل سے یہ دونوں عیب نکل جاتے ہیں(لمعات) (مرآۃ المناجیع ج 3،ص78,الحدیث1872)

محترم پیاری بہنو! ہمیں چاہیے کہ سخاوت اور راہِ خدا میں خرچ کرنے کے فضائل پڑھیں،خرچ کرنےمیں اعتدال کریں؛نہ تو بخل کریں کہ عذاب کا باعث بنے اور نہ اتنا زیادہ خرچ کریں کہ خود فقیر ہو جائیں۔اللہ ہمیں بخل سے بچائے اور اپنی راہ میں اچھی نیتوں کے ساتھ خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہِ خَاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم۔ ۔